"FBC" (space) message & send to 7575

اصل ہیرو

جدید جمہوری نظام کی بنیاد اس اصول پرقائم ہے کہ عوام اپنے حکمران خود منتخب کریں۔ حکومت پر لازم ہے کہ امن و امان، انصاف، تعلیم ، صحت اور دیگر بنیادی ضروریات عوام کی دسترس میں ہوں ۔ معیشت کی تعمیر ، قوموں کی برادری میں عوام کی نمائندگی اوربیرونی جارحیت سے دفاع بھی اسی کی ذمہ داری ہے ۔ حکومت کا کام فقط منصوبہ بندی ہے ، عملی طور پر یہ فوج ہے ، جو دشمن سے نمٹتی ہے ۔ طویل تربیت سے بہترین نظم میں ڈھل جانے والے لاکھوں سپاہی ریاست کا سب سے طاقتور ادارہ تشکیل دیتے ہیں ۔جدید ترین ہتھیار،ٹینک ، لڑاکاطیارے ؛حتیٰ کہ ایٹم بم افواج کی دسترس میں ہوتے ہیں ۔ طاقت کی یہ فراوانی فوجی قیادت کو منتخب وزیر اعظم کا تختہ الٹنے پرآمادہ کرتی ہے ۔کمزور ادارے ، سیاستدانوں کے باہمی جھگڑے اور ایک دوسرے کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کی خصلت، آئین شکنی کے احتساب کی روایت نہ ہونا ،سیاسی حکومتوں کی ناقص کارکردگی اور کرپشن بھی اقتدار پر شب خون مارنے کی دعوت ِ عام ہیں ۔رفتہ رفتہ یہ احساس آمر کے دل میں جنم پاتاہے کہ سیاستدا ن لٹیرے ہیں اور خود وہ کہیں بہتر انداز میں کاروبارِ حکومت چلا سکتا ہے ۔ ایک نجات دہندہ کی حیثیت سے کروڑوں دلوں میں بس جانے کی خواہش دل و دماغ پر غلبہ پاتی ہے ۔پسِ منظرمیں اقتدار کی ہوس ہوتی ہے ، آمر کو خود بھی شاید جس کا ادراک نہیں ہوتا۔ ہماری 66 سالہ تاریخ میں سے 31برس اسی کشمکش میں ضائع ہو چکے اور کوئی ضمانت نہیں کہ آئندہ ایسا نہ ہوگا۔ فوجی حکمرانی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ان افراد اور جماعتوں کو چلتا کر دیا جاتاہے ، عوام کی رائے میں جو اقتدار کی مستحق اور ان کے مسائل حل کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں ۔ دوسری طرف قاف لیگ جیسی جماعتیں تشکیل دی جاتی ہیں ،2002ء کے الیکشن میں جس نے دوسروں کو پچھاڑ دیا تھا۔ بنگلہ دیش میں1988ء کے الیکشن میں آرمی چیف حسین محمد ارشاد کی بنائی ہوئی جاتیہ پارٹی نے اپوزیشن کے مشترکہ اتحاد کو شکستِ فاش سے دوچار کرتے ہوئے 300کے ایوان میں 251نشستیں جیت لی تھیں ۔ اپوزیشن میں شیخ مجیب الرحمٰن کی بنائی ہوئی عوامی لیگ بھی شامل تھی ۔ قاف لیگ ہی کی طرح ، آج جاتیہ پارٹی کا نام و نشان تک نہیں ۔ فوجی بل بوتے پر کرتب دکھانے والے اکثر سیاستدان جرأتِ عمل سے محروم ہوتے ہیں ۔دوسری طرف معیشت کو بطور ہتھیار استعمال کرنے والے عالمی استعمار کا کام اب او رآسان ہو جاتاہے ۔ کسی سیاسی جماعت اور حکومت کی بجائے اب اسے فردِ واحد کے اعصاب کچلنے ہوتے ہیں ۔چہار دانگِ عالم میں جمہوریت کا ڈھول پیٹنے والے امریکہ نے جنرل پرویز مشرف کی حکومت اسی لیے نہایت مسرّت سے تسلیم کر لی تھی ۔ پاکستان اور بنگلہ دیش میں ماضی اور حال کے سیاستدانوں کی اکثریت یا تو مارشل لائوں کی پیداوار ہے یا انہی سیاستدانوں کی اولاد۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان اور میاں محمد نواز شریف نے جنرل ضیاء الحق کی انگلی تھام کے سیاست کے خارزار کا سفر شروع کیا۔ بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی قیادت اب شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی کے ہاتھ میں ہے اور مدّمقابل خالد ہ ضیا کی نیشنلسٹ پارٹی ہے ۔ خالدہ ضیاء آرمی چیف ضیاء الرحمٰن کی بیوہ ہے ۔ مارچ 1971ء میںشیخ مجیب الرحمٰن کی گرفتاری کے وقت ضیاء الرحمٰن میجر تھا۔ اپنے \"لیڈر \"کی گرفتاری پر اس نے چٹاگانگ کے ریڈیو سٹیشن پر قبضہ کر کے نشر فرمایا\" ہمارے سپریم کمانڈر ، شیخ مجیب الرحمٰن بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کر تے ہیں ۔ \" 1977ء میں جناب نے اقتدار پر قبضہ فرمایا تو اسی سپریم کمانڈر کے قاتلوں کو معافی عطا کی ۔ چار برس بعد ضیاء ارحمٰن کے ماتحتوں نے اسے عالمِ فانی کے دکھوں سے ہمیشہ کے لیے آزاد کر دیا۔ شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی اور جنرل ضیا ء الرحمٰن کی بیوہ آج تک ایک دوسرے کو نوچ رہی ہیں اوربنگالی عوام باری باری انہیں خدمت کا موقع فراہم کر رہے ہیں ۔ تماشہ ہے تماشہ ! ایک نہیں ، جنرل مشرف نے دو بار آئین پامال کیا تھا۔ آئین میں درج عبارت کی روح دراصل یہ ہے کہ عوام سے حقِ حکمرانی غصب کرنے والے کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔ مقصد فوج کو اقتدار پر قبضے سے باز رکھنا ہے۔ ایک کے سوا مارشل لا نافذ کرنے والے ہمارے تمام جنرل طبعی موت مرے ۔ مہم جوئی کے ہنگام یہ حقیقت جنرل مشرف کے ذہن میں لازماً موجود ہوگی۔بار بار یہ پوچھا جا رہا ہے کہ 3نومبر 2007ء ہی کیوں ؟ 12اکتوبر 1999ء کا احتساب کیو ں نہیں ؟ قانونی طور پر دو نکات اس میں حائل ہیں ۔ اوّل یہ کہ سپریم کورٹ میں دائر کیس 3نومبر کے اقدام کے خلاف ہے ۔ دوسرا یہ کہ اول سپریم کورٹ اور پھر 2002ء کی پارلیمنٹ نے 12اکتو برکا گناہ بخش دیا تھا۔ اس وقت کی سپریم کورٹ نے تو جنرل مشرف کو تین برس کے لیے آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار بھی بخش ڈالا تھا؛لہٰذا 1999ء کے مارشل لا کے خلاف اب کارروائی نہیں کی جا سکتی ۔ یہ قانونی صورتِ حال ہے ۔ اخلاقی صورتِ حال اور حقیقت یہ ہے کہ جنرل مشرف نے ایک نہیں ، دو بار مارشل لا لگایا تھا ۔ اس اقدام کو تحفظ فراہم کرنے والے بھی شریکِ جرم ہیں ۔ اخلاقی صورتِ حال یہ ہے کہ پوری کی پوری قاف لیگ (جس کے ارکان کی اکثریت اب نون لیگ میںشامل ہو چکی اور بعض تحریکِ انصاف اور پیپلز پارٹی کو پیارے ہوئے) برابر کی شریک ہے۔ اخلاقی صورتِ حال یہ ہے کہ جنرل مشرف ہی کی طرح جنرل ضیاء الحق، جنرل یحییٰ خان اور جنرل ایوب خان نے بھی مارشل لا نافذ کیاتھا ۔ ان کے اقتدار کو دوام بخشنے والوں میں ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر آج تک سبھی شامل ہیں ؛حتیٰ کہ باغی کہلانے والے بھی۔ جنرل پرویز مشرف کا ساتھ دینے والوں میں عمران خان بھی شامل تھے لیکن ایک تو انہوںنے جوابا کوئی سرکاری عہدہ ، کوئی مراعات حاصل نہ کیں بلکہ قوم سے معافی بھی مانگی ۔اور کسی میں اتنی جرأت بھی نہیں ۔ آغاز بے شک جنرل مشرف سے کر لیا جائے کہ مارشل لا کا خطرہ ہمیشہ کے لیے ختم کر نا ہے ۔ اخلاقی بنیادوں پر مگر آئین توڑنے والوں کو معاف نہیں کیا جا سکتااور نہ ہی ان مارشل لائوں کو سندِ تصدیق جاری کرنے والوں کو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں