’’حکومت کی سمت کیا ہے ؟‘‘رات کے اس پہر کوئی ایڈم سمتھ میسر نہیں ، جو گمراہوں پہ قطبی ستارہ بن کے چمکے ۔ سرکار جب نوٹ چھاپنے کے موذی مرض میں مبتلا ہو تو مہنگائی کے علاوہ روپے کی قدربھی لازماً گرتی ہے ۔دوسری طرف آئی ایم ایف کایہ نادرشاہی حکم کہ مارکیٹ سے ڈالر خریدیے اور زرِ مبادلہ بڑھائیے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ چند ماہ میں ہماری کرنسی 7روپے تک گر چکی ہے ۔60ارب ڈالر کے غیر ملکی قرض میں 490ارب روپے کا اضافہ ۔ آئی ایم ایف کے عطا کردہ 6.7 بلین ڈالر ہماری جھولی کے اس شگاف سے گرتے چلے جارہے ہیں ، جو خود عالمی مالیاتی ادارے کا پیدا کردہ ہے۔ حکومت کا یہ مسئلہ نہیں۔ اسے تو نقد رقم چاہیے ۔ یوں بھی قرض لوٹانا اس کی ذمہ داری نہیں اور نہ ہی پانچ برس میں یہ کارنامہ انجام پا سکتاہے ۔ پھر 8000ارب روپے پر کس نے آواز اٹھائی ہے کہ اسے خطرہ لاحق ہو؟ تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں ۔ آئی ایم ایف کے مطالبے پر سبسڈیز ختم ؛چنانچہ بجلی بھی مہنگی ۔پیداوار کی لاگت میں اضافہ اور نتیجے میں مہنگائی کی ناقابلِ برداشت لہر ۔نوٹ چھاپنا اور قرض خوری،یہ وہ معاشی دھماکہ ہے ، جس کا چرچا تھا۔ میں بھی وزیرِ خزانہ ہوتا تو یہی کرتا کہ معاشیات کی مجھے کوئی خاص سمجھ نہیں۔ یہ امید بہرحال باقی ہے کہ اقتصادی راہداری کے منصوبے کے ذریعے 8000بلین ڈالر کی دیو قامت چینی معیشت سے کسی نہ کسی حد تک ہم منسلک ہوسکیں تو کھانے ،بانٹنے اور لٹانے کو بہت کچھ ہوگا۔ خطے میں ایک ناقابلِ یقین تبدیلی آرہی ہے ۔ ایسا لگتاہے کہ دس سال کی اعصاب شکن جنگ کے بعد ایران بالآخر مصالحت پر مجبور ہے ۔ پہلی بار2003ء میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ وہ ایٹمی صلاحیت حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ امریکی سربراہی میں مغرب اور ایران کو اپنے لیے خطرہ سمجھنے والے ان ممالک کو یہ کسی قیمت پر قبول نہ تھا، دولت نے جن کی عادات بگاڑ دی ہیں ۔ پھراسرائیل خطے میں ایک ایٹمی ریاست کیونکر گوارا کرتا۔انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ وہ بڑے پیمانے پر یورینیم افزودہ کررہا ہے۔پاکستان پر الزام لگا۔ لیبیا کے معاملے میں بھی یہی ہوا۔ رسوائی کی بات تھی لیکن سچ یہی تھا۔ حیرت انگیز طور پر ایٹمی کلب کے تمام ممبران دوسری جنگِ عظیم کے فاتح اور اقوامِ متحدہ کے بانی تھے ۔قریباً بیس ہزار ایٹمی ہتھیاروں میں سے 95فیصد امریکہ اورسوویت یونین کے پاس تھے ۔ ’’امن ‘‘کے ٹھیکیداروں نے اعلان کیا کہ کوئی اور ریاست یہ جرآت نہ کرے لیکن کچھ دوسری اقوام خاموشی سے سر پٹختی رہیں ۔ بھارت، پاکستان ، شمالی کوریا ، جنوبی افریقہ ، لیبیا اور ایران ۔ جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے ، انہوں نے خود ہی اسے ایٹم بم تھما دیا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے 1948ء میںاپنے جوہری پروگرام کی بنیاد رکھ دی تھی ۔ پاکستان نے 1972ء میں آغاز کیا تو صرف دو برس بعد بھارت نے پہلا کامیاب تجربہ کیا۔ روایتی جنگ میں بھی پاکستان کو اپنی بقا کا مسئلہ درپیش تھا ،کجا کہ دشمن کی بغل میں جوہری ہتھیار دھرے ہوں ۔ یہ زندگی اور موت کا مسئلہ تھا اورپاکستان کے ایٹمی پروگرام کا حقیقی معمار بھارت ہے ۔صلاحیت حاصل کرنے کے بعد بھی بھارت کے برعکس پاکستان خاموش ہی رہا ؛حتیٰ کہ مئی 1998ء میں پانچ ایٹمی تجربات کے بعد انڈین میڈیا اور سیاست دانوں کی آنکھ میں خون اتر آیا۔ سترہ دن بعد چاغی کے پہاڑ چھ ایٹمی تجربات سے سفید ہو گئے ۔وہ دن اور آج کا دن ، ایٹمی جنگ کی تباہ کاریوں نے دونوں کو خوفزدہ کر رکھا ہے ۔ دس برس قبل ایرانی خفیہ کوششیں منظرِ عام پر آئیں تو ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔وہ ایک مضبوط فوجی طاقت ہے ۔ ایٹمی پروگرام کے حوالے سے اس کی خارجہ پالیسی بے حد جارحانہ رہی ۔ ابتدا میں اس نے یورینیم افزودگی روک دی تھی لیکن اس کا موقف یہ تھا کہ عالمی برادری نے اسے کوئی صلہ نہیں دیا۔ 2005ء میں صدر منتخب ہونے کے بعد محمود احمدی نژاد نے یہ عمل دوبارہ پورے زور و شور سے شروع کیااور سخت معاشی پابندیاں لگنے لگیں ۔ نہ صرف اقوامِ متحدہ بلکہ امریکہ اور یورپی یونین سمیت دوسرے طاقتور ممالک نے بھی آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں۔ چین اور روس البتہ تعاون کرتے رہے ۔ معیشت کی ترقی کی شرح 6 فیصد سے گرتے گرتے منفی 1تک آپہنچی۔ بے روزگاری 15.5 اور مہنگائی 24فیصد ۔ ایرانی معیشت بڑی حد تک تیل اورگیس کے ذخائر پر منحصر ہے ۔صرف توانائی کے میدان میں اندازاً اسے 60بلین ڈالر سالانہ کا نقصان ہونے لگا۔ گزشتہ عشرے سے ایران پاکستان گیس پائپ لائن کا چرچا ہے۔ ابتدا میں بھارت بھی شریک تھا لیکن امریکی دبائو اور مراعات پروہ الگ ہو گیا۔ پاکستان کو گیس کے سکڑتے ذخائر کا مسئلہ درپیش ہے لیکن وہ بھی گومگو کا شکار ہے ۔ شدید معاشی بدحالی کے شکار ایران کے تیور اب بدلنے لگے ہیں ۔ کوئی بھی ملک اقوامِ عالم سے مسلسل حالتِ جنگ میں نہیں رہ سکتا ۔ صدر حسن روحانی نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایٹمی پروگرام پر نتیجہ خیز مذاکرات چاہتے ہیں ؛حتیٰ کہ انہوں نے تین سے چھ ماہ میں حل تک پہنچنے کی نوید بھی سنا دی ۔ ایران کی حقیقی مقتدر مذہبی قیادت کی پشت پناہی اور اجازت کے بغیر ایسا ممکن نہ تھالیکن ممکنہ حل کیا ہو سکتاہے؟ امریکہ اورمغرب تو اپنے موقف پر اسی طرح قائم ہیں ۔ وہ ایسی جوہری سرگرمیاں کسی قیمت پر قبول کرنے کو تیار نہیں ، جن کے بطن سے ایٹم بم برآمد ہونے کا ایک فیصد امکان بھی ہو۔ ایسا لگتاہے کہ ایران اب پسپائی اختیار کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں ہمسایہ ممالک افغانستان ، عراق اور شام کی تباہی نے یقینا اہم کردار ادا کیا ہے ۔ اسے خدشہ ہے کہ اب اسے نشانہ بنایا جائے گا۔ ایرانی قیادت سمجھوتہ چاہتی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اقوامِ عالم میں اسے خفّت سے بچنا ہے ۔ یہ تاثر بہرحال اسے قائم کرنا ہے کہ اس کا موقف تسلیم کر لیا گیا ۔ تیل اور گیس کے ذخائر سے مالا مال اس ملک کو سول مقاصد کے لیے ایٹمی توانائی کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اس کے سوا کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ عالمی نگرانی میں برائے نام ایٹمی سرگرمیوں سے وہ نہایت محدودتوانائی حاصل کرتا رہے ۔ بدلے میں معاشی پابندیاں ختم بلکہ مراعات دی جائیں گی۔ اگر ایسا ہی ہوا تو ایران پاکستان گیس منصوبے میں حائل رکاوٹیں دور ہونے لگیں گی۔ خطرہ یہ ہے کہ اب پاکستان کا ایٹمی پروگرام عالمی سازشوں کا نشانہ ہوگا ۔ جس کے بعد بعض آلہ کار ہاہا کار مچا دیں گے ۔ سویت یونین سے آزاد ی پانے والی ریاستوں نے اپنے جوہری ہتھیارروس کے حوالے کر دئیے ۔ جنوبی افریقہ نے اپنے ہتھیار خود تلف کر دئیے ۔لیبیا ناکام ہوالیکن شمالی کوریا نے انکار کر دیا۔ مارچ 2013ء میں امریکہ کو اس کے مقابل پسپائی اختیار کرنا پڑی ۔ کوئی شک نہیں کہ ایٹمی ہتھیار عالمی امن کے لیے تباہ کن ہیں ۔ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کا موقع دے دیا جاتا تو اس کے حریف ممالک کو اس حق سے کیونکر محروم رکھا جا سکتا ؟ یہ بھی لیکن درست ہے کہ جب تک دنیا کی 9اقوام (حتیٰ کہ اسرائیل ، امریکہ اور روس جیسی ظالم حکومتوں)کے پاس یہ تباہ کن ہتھیار موجود ہیں ، دوسرے بھی اپنی کوششیں جاری رکھیں گے ۔