عالمی قوتوں سے ایران کے معاہدے کی متضاد تشریحات با آسانی دستیاب ہیں ۔ ہر ایک اپنی حیاتِ رفتہ اور طرزِ فکر کے تناظر میں اس غیر معمولی پیش رفت کو دیکھ رہا ہے ۔جنرل حمید گل اسے امریکہ کی شکست قرار دیتے ہیں ۔یہ کہ عالمی طاقت اسرائیل کی جنگیں لڑ لڑ کے تھک چکی تھی ۔ اس کی معیشت تباہ ہونے کو ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ عرب حکومتوں سے امریکہ اب نالاں ہے ۔ ایران کو ایک بار پھر وہ خطے میں ایک بڑا کردار سونپنا چاہتا ہے۔ جنرل صاحب کہتے ہیں کہ روایتی ٹیکنالوجی میں ایران اس قدر آگے بڑھ چکا کہ اسے ایٹمی ہتھیاروں کی ضرورت ہی نہیں ۔ایک سابق نگران وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے نزدیک اس معاہدے سے یہ ثابت ہوتاہے کہ امریکہ بہادر کو سجدہ کیے بغیر اب چارہ نہیں ۔ یہ اپنے اپنے سچ کی بہترین مثال ہے ۔یہ تجزیہ نہیں ، خواہشات ہیں ۔
ایرانی مذہبی اور سیاسی قیادت پر نظر رکھنے والے ہفتوں پہلے یہ لکھ چکے تھے کہ کیا ہونے والا ہے ۔ صدر محمو د احمدی نژا د کا سارا دور امریکہ اور مغرب کو کسی بھی کارروائی کی صورت میں سخت ترین نتائج کا انتباہ کرتے گزرا۔صدر حسن روحانی نے آتے ہی یہ اعلان کیا کہ وہ نتیجہ خیز مذاکرات سے تین سے چھ ماہ میں ایٹمی مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں ۔ ایران کی حقیقی
مقتدر مذہبی قیادت اس پر خاموش رہی ۔ اندازہ یہی تھا کہ ایران اب پسپا ہو رہا ہے ۔ایرانی معیشت بڑی حد تک تیل اور گیس پر منحصر ہے۔ سخت ترین معاشی پابندیوں سے اسے صرف توانائی کے میدان میں 60بلین ڈالر سالانہ کا نقصان ہورہا تھا۔ معاشی ترقی کی شرح 6فیصد سے گرتے گرتے منفی 1تک آپہنچی تھی۔بے روزگاری ساڑھے پندرہ اورمہنگائی 24فیصد ۔ اندازہ اس سے کیجئے کہ سابق عہد میں تمام تر لوٹ مار اور نا اہلیت کے باوجود پاکستان کی اوسط شرح ترقی 3فیصد کے لگ بھگ رہی ۔
دنیا کے چوتھے نمبر پر تیل اور دوسرے نمبر پر گیس کے ذخائر رکھنے والا ایران توانائی کے لیے جوہری ٹیکنالوجی کا قطعاً محتاج نہ تھا۔ 2003ء میں اس کا ایٹمی پروگرام عالمی ٹھیکیداروں کے سامنے آیا۔ یہ واضح تھا کہ وہ ایٹمی ہتھیار چاہتا تھا، جیسا کہ دنیا کی 9اقوام اس سے قبل یہ کارنامہ انجام دے چکی تھیں۔ بھارت ، پاکستان اور شمالی کوریا کی طرح وہ خفیہ طور پر کامیابی حاصل نہ کر سکااور یہ اس کی بدقسمتی تھی ۔ درحقیقت اس کا ایٹمی پروگرام ابھی ابتدائی مراحل میں تھا۔ ہتھیار بنانے کے لیے 90فیصد تک افزودہ یورینیم درکار ہوتا ہے۔ عالمی نگرانی میں یورینیم کی نہایت محدود ، صرف 5فیصد افزودگی کا کیا مطلب ہے ؟ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے نزدیک عملاً ایران ایٹمی ہتھیاوں سے دستبردار ہو گیا ہے ۔ بہرحال خفّت سے اسے بچنا تھا ۔عالمی قوتوں سے چھ ماہ کا اس کا معاہدہ ایک باعزت پسپائی کے سوا کچھ نہیں ۔
اسرائیل کے ساتھ ساتھ عرب ریاستیں بھی اب اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہی ہیں ۔ جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے ، وہ خود ایک ایٹمی ریاست ہے ۔ ا س سے زیادہ کون یہ جانتا ہے کہ یہ ایک عظیم کامیابی ہے ۔ مجھے اسرائیلی موقف جعلی اور منافقت پر مبنی لگتاہے ۔کسی بھی حملے کی صورت میں ایران نہ صرف صہیونی ریاست کو پوری قوت سے نشانہ بناتا بلکہ سب سے اہم سمندری گزرگاہ آبنائے ہرمز کو بند کر ڈالتا۔ تیل کی قیمتیں آسمان پہ پہنچ جاتیں اور سٹاک مارکیٹیں تباہ ہوتیں ۔ معاشی بحران کاشکار امریکہ اور مغرب اس کی تاب نہ لا سکتے ۔
عرب ریاستوں کے جذبات شاید حقیقی ہیں ۔ خطے میں ایران کے مفادات تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں ۔ اس کی حلیف شامی حکومت گرتے گرتے سنبھل گئی۔ 2005ء میں اسرائیل کو شکستِ فاش سے دوچار کرنے والی حز ب اللہ محفوظ و مامون ہے ۔ وہ سخت ترین معاشی پابندیاں ، جنہوںنے اس کی معیشت کو شدید بحران سے دوچار کر دیا تھا،رفتہ رفتہ ختم ہونے کی امید ہے۔ عراق اور مصر میں آنے والی تبدیلیاں ایران کے حق میں ہیں ۔ عرب ممالک کے برعکس ایران مضبوط فوج اور میزائل پروگرام رکھتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دس برس کی شدید کشیدگی کے باوجود مغرب اس پر حملہ آور نہ ہوا۔عرب ممالک کی حالتِ زار پر افسوس ہے۔ ان کی زمین پر آباد اسرائیل دو بار ان کی بری طرح پٹائی کر چکا ہے۔ دونوں بار اس نے مزید علاقہ چھینا۔ ساٹھ برس سے وہ انہیں قتل کر رہا ہے ۔ ایک چھوٹی سی ریاست، 35لاکھ آبادی کے کویت کا بجٹ پاکستان سے 4گنا ہے ۔ ایٹمی ہتھیار تو دور کی بات ، وہ سب مل کر روایتی جنگ کی تیاری بھی نہ کر سکے ۔ ایران کامعاملہ حل ہونے پر وہ پیچ و تاب کھا رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اپنی خوبیوں کی بجائے وہ ایران کی خامیوں پر زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں ۔
ہمارے لیے ایران گیس پائپ لائن اور دوسرے معاشی فوائدکے امکانات بہرحال بڑھے ہیں ۔ انڈین کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن کے جواب میں پاکستان وہ بہت چھوٹے ایٹمی ہتھیار بھی بنا چکا ہے ، جوروایتی جنگ میں استعمال ہو سکتے ہیں۔پاکستان کے جوہری پروگرام کو دیکھ کر میں حیرت زدہ رہ جاتاہوں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کی عدم موجودگی میں ہمارے دشمن اب تک ہمیں کھا پی چکے ہوتے ۔انشاء اللہ ہم بتدریج اپنی معاشی بدحالی سے بھی نمٹ لیں گے ۔ ایٹمی ٹیکنالوجی خطرناک حد تک تباہ کن ہے اور روایتی ہتھیار کبھی اس کا متبادل ہو نہیں سکتے۔ یہ انسانی ذہانت کے منفی استعمال کا مظہر ہے ۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ آنے والی دہائیوں میں مزید اقوام اس کے حصول کی سرتوڑ کوششیں نہ کریں۔