"FBC" (space) message & send to 7575

خاتمہ بالخیر

تحقیق میں مغرب کا ثانی کوئی نہیں ۔ ہم سبھی اس کے کارنامے تسلیم کرتے ہیں لیکن انسانی ارتقا کا ذکر ہو تو بعض لوگ معترض ہوتے ہیں ۔ نظریہ ء ارتقا کو اسلام کے خلاف ایک سازش سمجھا جاتاہے ۔ دوسری طرف مغربی سائنسدانوں کا روّیہ یہ ہے کہ دوسرے مذاہب کجا، تحقیق کرتے ہوئے وہ اپنی الہامی کتابیں بھی بالائے طاق رکھ دیتے ہیں ۔ ایسا ہی ہونا چاہیے ۔ جذبات سر پہ سوار ہوں تو سچائی تلاش نہیں کی جا سکتی۔ پھر ان میں سے کوئی ذاتی مقاصد کے لیے حقائق مسخ کرے تو دوسرے اس کے بخیے ادھیڑ دیتے ہیں ۔ 
ہم سے کہیں چھوٹے دماغ کے انسان نما ڈھانچے پوری صحت کے سا تھ محفوظ ہیں اورسرتسلیمِ خم کیے بغیر چارہ نہیں ۔ چھوٹے ہی نہیں ، یورپ میں بسنے والا Homo Sapien Neanderthalیا نینڈرتھل آدمی ہم سے کسی قدر بڑا دماغ رکھتا تھا۔ وہ تاریخ کا سب سے کامیاب انسان تھا۔ سائنسدان مدتوں حیران رہے کہ ایسی شاندار صلاحیتوں کا مالک ناپید کیونکر ہوا۔ پھر انسانی ہڈیوں سے بھرے کنویں دریافت ہوئے۔ وہ آدم خور تھا۔ 
استادِ محترم پروفیسر احمد رفیق اختر نے انسانی ارتقا کے معاملے میں اسلام اور سائنس کے درمیان ابہام ختم کر ڈالا ہے ۔ خدا کہتاہے : زمانے میں انسان پر کتنا وقت گزرا کہ وہ کوئی قابلِ ذکر شے ہی نہ تھا۔ پروفیسر صاحب کا سوال سادہ ہے : کیا فرشتوں کو علم کے میدان میں شکستِ فاش سے دوچار کرنے والے آدمؑ قابلِ ذکر نہ تھے ؟ پھر قرآنِ حکیم بتاتاہے کہ انسان کو آزمانے کا فیصلہ ہوا تو اسے سننے اور دیکھنے کی صلاحیتیں عطا کی گئیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پہلے وہ ان سے محروم تھا۔ 
کرۂ ارض پر بیتے حادثات اپنے انمٹ نشانات سے اربوں سال بعد شناخت کر لیے جاتے ہیں ۔ آغازِ کائنات ، انسانی نسلوں کا ارتقا اور برفانی دور ، ایک کے بعد دوسرا رازفاش ہو چکا ہے ۔معمّے سلجھتے جار ہے ہیں ۔ چند کڑیاں باقی ہیں اور ان میں سے ایک موت ہے ۔ بنی آدم کی موت، کرۂ ارض کی موت ،کائنات کی موت اور زندگی کی موت۔دنیا کی سب سے بھیانک حقیقت۔ یہ موت ہے ، جس نے ہمیں انا الحق کا نعرہ بلند کرنے سے روک رکھا ہے ۔
جس عظیم دھماکے سے کائنات نے جنم لیا تھا، اس کی باقیات خلا میں اب تک موجود ہیں ۔آغاز کے بارے میں اب کوئی ابہام باقی نہیں ۔ اختتام کے بارے میں حتمی طور پر ابھی کچھ معلوم نہیں ۔ کائنات حیران کن رفتار سے پھیل رہی ہے ۔ ایک اندازہ یہ ہے کہ اس کایہی پھیلائو اس کی موت کا باعث بنے گا۔ ستارے اور کہکشائیں بکھر جائیں گے۔ دوسرا، متضاد نظریہ یہ ہے کہ اپنی
آخری حد تک پھیلنے کے بعد کائنات سکڑنے لگے گی ۔ یہ سب اندازے ہیں اور شاید 100ٹریلین سال بعد کی کہانیاں ہیں ، جب تمام ستارے اپنا ایندھن ختم کر چکے ہوں گے۔ایسے میں چالیس پچاس ہزار برس کی ہماری مختصر سی زندگی مذاق اڑانے لگتی ہے ۔ نظامِ شمسی تک محدود رہنے ہی میں عافیت ہے ۔ 
ملکی وے کے مرکز میں ستارے کسی نادیدہ وجود کے گرد غیر معمولی رفتار سے گردش کرتے پائے گئے ہیں اور یہ ایک بہت ہی خوفناک بات ہے ۔ وہ ایک ہیبت ناک بلیک ہول ہے ، ہمارے سورج سے تین ملین گنا بڑا ۔ تقریبا ً ہر بڑی کہکشاں کے مرکز میں بلیک ہول متحرک ہیں ۔ وہ ستاروں کو نگل لیتے ہیں ۔ 
ہمیں زندگی بخشنے والا سورج دس ارب سال میں خود ہی تباہی و بربادی کی داستان رقم کر دے گا۔ ساڑھے چار ارب سال کی اس کی حیاتِ رفتہ میں اس کی چمک 30فیصد بڑھ چکی ہے ۔ یہ بات طے ہے کہ اس کا ایندھن یعنی ہائیڈروجن ختم ہو گی تو وہ اپنے موجودہ حجم سے 30گنا پھیل جائے گا۔ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ وہ پہلے دو سیاروں ، عطارد اور زہرہ کو اپنے اندر سمیٹ لے گا۔ کرۂ ارض کے بارے میں شکوک و شبہات ہیں لیکن اصولاً اسے اپنی موت سے اربوں سال قبل ہی ہمارے سمندر خشک کر ڈالنے چاہئیں ۔آج سے ایک ارب سال بعد اوسط درجہ حرارت 180ڈگری فارن ہائیٹ ہوگا۔ ان حقائق کو مدّنظر رکھتے ہوئے ایسا لگتاہے کہ سورج اور چاند کے مل جانے سے قیامت نہیں ،نظامِ شمسی کا خاتمہ ہوگا۔ایسا لگتاہے کہ وہ سورج کی طبعی موت نہیں بلکہ ایک عظیم حادثے کے سبب ہوگی ۔ 
کرۂ ارض کی اپنی تاریخ حادثات سے بھری پڑی ہے ۔ ساڑھے چھ کروڑ سال قبل میکسیکو کے علاقے چک ژولب میں خلا سے ایک دس کلومیٹر قطر کی چٹان آگری ۔ اس نے 180کلومیٹر کا گڑھا پیدا کیا۔ دھماکے، زلزلوں اور سونامی کے نتیجے میں تب ڈائنا سار سمیت 70فیصد حیات کا خاتمہ ہو گیا تھا۔جدید ٹیکنالوجی سے لیس انسان اب آسمان پر نظر جمائے بیٹھا ہے کہ اب کی بار ایسا ہو تو خلا ہی میں راکٹ کے ذریعے ایسی چٹانوں کی سمت بدل دی جائے۔ دوسری طرف نظامِ شمسی کے دوسرے تمام سیاروں کے مجموعی حجم سے بڑا جوپیٹر(Jupiter) ایسی بڑی چٹانوں کو اپنی عظیم کشش سے اپنی طرف کھینچتا رہتاہے ۔ بغیر کسی معاوضے کے وہ ہمارے لیے عظیم خدمات انجام دے رہا ہے ۔ 70 ہزار سال قبل انڈو نیشیا میں عظیم ترین آتش فشاں ٹوبا نے دس برس کے لیے کرّہ ارض کا موسم بدل کے رکھ دیا تھا؛حتیٰ کہ اس وقت کے انسان کی بقا ہی خطرے میں پڑگئی تھی ۔ پھر برفانی ادوار (Ice Ages)۔ 
بڑے ستارے اپنی موت کے وقت ہولناک دھماکے سے پھٹتے ہیں ۔بگ بینگ کے بعد یہ عظیم ترین دھماکوں میں شمارہوتے ہیں ۔ تب وہ اتنی توانائی خارج کرتے ہیں ، جتنی ہمارا سورج اپنی دس ارب سال میں بھی نہیں کرسکتا۔ان میں سے کچھ خطرناک تابکاری پھینکتے ہیں، جسے گیما ریز برسٹ (Gamma Rays Burst)کہا جاتاہے ۔ کرۂ ارض سے آٹھ ہزار نوری سال کے فاصلے پر WR 104 نامی ستارہ کرۂ ارض کار خ کیے بیٹھا ہے ۔ حتمی طور پر ابھی اندازہ لگانا ممکن نہیں کہ کیا وہ گیما ریز خارج کرے گا اور کیا وہ سیدھی ہم تک آپہنچیں گی ۔ پھر اگر آج یہ واقعہ رونما ہو تو ہم تک پہنچنے میں اسے 8ہزار سال لگیں گے ۔ اگر ایسا ہوا تو وہ اوزون کی تہہ اور زمین کی فضا کو اڑا کے رکھ دے گااوربڑے پیمانے پر ہلاکت کا باعث ہوگا۔بظاہرپرسکون نظر آنے والی کائنات انتہائی غیر مستحکم ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں