"FBC" (space) message & send to 7575

تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد

شاہِ بحرین حمد بن عیسیٰ کو خوش آمدید کہنے کے ساتھ ساتھ اگلے مہمان کی تیاری کیجیے، ممکنہ طور پر جن کا تعلق متحدہ عرب امارات سے ہو سکتاہے ۔ ادھر نیٹو کے سیکرٹری جنرل اینڈرز راسمیوسین نے کریمیا میں کشیدگی کو سرد جنگ کے بعد یورپ کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے ۔ مسئلے کا آغاز تب ہو تاہے ، جب 22فروری کویوکرائن کی پارلیمنٹ روس نواز صدر وکٹرین کووچ کو عملاً معزول کر دیتی ہے (آئینی طور پر معزولی کے لیے درکار ووٹ کم تھے ) ۔ پارلیمنٹ 25مئی کو نئے صدارتی الیکشن کے اعلان کے ساتھ ساتھ وکٹرین کووچ کے وارنٹ بھی جاری کرتی ہے ۔ 5دن منظرِ عام سے غائب رہنے کے بعد وکٹر روس میں جلوہ افروز ہوتا اور آئینی طور پر خودکو بدستور صدر قرار دیتاہے ۔ اس پر مجھے رفیق تارڑ یاد آئے ، جو پرویز مشرف کے مسند نشین ہوجانے کے کئی سال بعد تک خود کو آئینی صدر قرار دیتے رہے ۔ 
ین کووچ فروری 2010ء میں منتخب ہوا تھا۔اس کے چار سالہ دو ر میں یوکرائن اور یورپی یونین کے تعلقات میں نمایاں اضافہ ہوا ؛ حتیٰ کہ نومبر 2013ء آپہنچا۔ اب وہ یورپی یونین اور یوکرائن کے درمیان تعاون کے ایک بڑے معاہدے پر دستخط سے انکار کرتے ہوئے ، روس سے قرض اور معاشی امداد کا چنائو کرتاہے ۔ شام میں
امریکہ و یورپ اور روس حالتِ جنگ میں تھے اور دونوں یوکرائن (جو یورپ اور روس کی سرحد پر واقع مما لک میں سے ایک ہے ) کو پچکار رہے تھے ۔ صدر کی حد تک روس کامیاب رہا اور پارلیمنٹ یورپی یونین لے اڑی۔ اس کے بعد پے درپے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ مجموعی طور پر یوکرائن میں یورپ کا پلہ بھاری ہے مگر تین اطراف سے پانی میں گھری ،جنوب کی جزیرہ نما اور خود مختار ریاست کریمیا میں، جہاں نسلی طور پر روسی آبادی زیادہ ہے، روس کی حمایت زیادہ ہے ۔ وہ وہاں کھل کھیلتا ہے ۔
کریمیاکی ملکیت تقریبا ً طے ہو چکی ۔پہلے روسی فوج یا روس نواز مسلّح افرادنے فوجی اڈوں سمیت، ریاست کا تمام تر کنٹرول سنبھالا ۔ یوکرائن کے فوجیوں کے پاس خاموشی سے اپنا بوریا بستر لپیٹ کر شمال کی طرف ہجرت کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔پھر روس سے الحاق کے حق میں ریفرنڈم منعقد ہوا ،97فیصد افراد نے جس کی حمایت میں ووٹ دیا۔ باقی کیا بچا؟ 
یوکرائن پر یورپ کا وار روس کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ سٹین فورڈ یونیورسٹی میں امورِ روس کی ماہر کیتھرائن سٹونر کے نزدیک ، یہ ایسا ہی ہے ، جیسے روس میکسیکو میں اپنی پسندیدہ حکومت قائم کرنے کے بعد امریکہ کے خلاف اس کی حمایت کا اعلان کرے ۔ روس جیت گیا لیکن صرف کریمیا کی حد تک ، جو یوکرائن کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے ۔ زبانی جمع خرچ سے قطع نظر، یوکرائن روسی فوج کا ایک وار بھی نہیں سہہ سکتا۔ اہمیت ہے تو اس مغربی پشت پناہی کی ، جس کے بل پر وہ ناچ رہا ہے ۔ وہ برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقوں کا اعلان کر چکا۔ امریکہ اسے ایک بلین اور یورپی یونین پندرہ بلین ڈالر کی امداد دے رہی ہے ۔ اور کیا چاہیے؟ 
یورپ دنیا کی سب سے بڑی ریاست اور ماضی کی عالمی طاقت کو معاشی مقاطعے کی دھمکی دیتے ہوئے یہ بھول جاتاہے کہ روس ایران نہیں۔ معاشی طور پر امریکہ روس کا آٹھ گنا ہے لیکن فوجی اعتبار سے حالات مختلف ہیں ۔ اندازہ اس سے لگائیے کہ 2008-2013ء کے درمیان اقوامِ عالم کو اسلحے کی فروخت میں امریکہ کا حصہ 29اور روس کا 27فیصد ہے ۔ یوں یہ دونوں مل کر دنیا کا نصف سے زیادہ اسلحہ فروخت کر تے ہیں ۔ برسبیلِ تذکرہ عالمی سطح پر ہتھیاروں کی خرید میں بھارت 14فیصد کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے اور وہ 75فیصد خریداری روس ہی سے کرتاہے ۔
روس اتنا وسیع ہے کہ کئی یورپ اس میں سما جائیں ۔ ویٹو کی طاقت رکھنے کے باعث اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اس کے خلاف کوئی جنگی و معاشی اقدام منظور نہیں کر سکتی ۔کریمیا میں ریفرنڈم کے خلاف سلامتی کونسل کی ایسی ہی ایک قرار داد وہ 15مارچ کو مسترد کر چکا، چین جس سے لا تعلق رہا۔ بزنس ویک کی رپورٹ کے مطابق، معاشی میدان میں روس کی ناک رگڑنے کے اعلانات کے باوجود یورپی لیڈر مخمصے کا شکار ہیں کہ یورپی ممالک کو تیس فیصد گیس وہی فراہم کر تاہے ۔یورپی ممالک انفرادی و اجتماعی طور پر روس کا بائیکاٹ کر سکتے ہیں ۔ مغرب اس معاملے میں اپنے تمام روایتی حربے آزما رہا ہے ۔ ولادی میر پیوٹن کے قریبی افراد پر پابندیوں سے لے کر جی ایٹ سے نکالنے کی دھمکی اور کریمیا سے آگے مداخلت پر نیٹو کے جوابی حملے تک ۔ جی ایٹ دنیا کے آٹھ امیر ترین اور صنعتی طور پر انتہائی ترقی یافتہ ممالک کی تنظیم ہے ۔ روس اس میں 1998ء میں شامل ہوا تھا۔
میرا خیال ہے کہ بات یہیں رک جائے گی ۔ 4مارچ کی اپنی پریس کانفرنس میں ولادی میر پیوٹن کریمیا سے آگے مداخلت نہ کرنے کا عندیہ دے چکے۔ روس کریمیا سے آگے نہیں بڑھے گا اور نہ حالات اس کے لیے سازگار ہیں ۔ دوسری طرف کمزور ممالک پر حملہ آور ہونے والا دنیا کا سب سے بڑا ملٹری اتحاد ''نیٹو‘‘ (جس کے ممبر ممالک کے دفاعی اخراجات دنیا کے دفاعی بجٹ کا 70فیصد ہیں ) کریمیا میں گھسنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ قریب ہی روسی بحری بیڑہ کھڑا ہے ۔ 
آخر میں ایک لطیفہ سنیے ۔ سویت یونین سے علیحدگی پر یوکرائن نے اپنے ایٹمی ہتھیار رضاکارانہ طور پر روس کو واپس کر دیے تھے۔ آج ان کی یاد اسے خون کے آنسو رلا رہی ہے ۔ ع 
تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں