"FBC" (space) message & send to 7575

نگرانی

نگرانی، بہت کڑی نگرانی۔ Humans are under observation by humans
5جون 2013ء کو ایک ایسا انکشاف ہوا کہ دنیا کی بڑی بڑی حکومتیں سکتے میں آ گئیں۔ پینٹاگان نے بعد میں جو وضاحت جاری کی، اس کے مطابق امریکی تاریخ کا سب سے بڑا راز فاش ہو چکا تھا۔ سی آئی اے کے تحت کام کرنے والی نیشنل سکیورٹی ایجنسی (NSA) کے ایک اہلکار ایڈورڈ جوزف سنوڈن نے گارڈین اور واشنگٹن پوسٹ کو سب بتا ڈالا تھا۔ یہ کہ دوسری چار حکومتوں (آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور برطانیہ ) کی مدد سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ دنیا بھر کی خفیہ نگرانی (Global Surveillance) کر رہا ہے۔ 
اس کارِ خیر میں یورپی حکومتیں اور بڑے کاروباری ادارے امریکہ کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ سے ڈیٹا اکٹھا ہو رہا تھا۔ انٹرنیٹ پر نظر رکھنے کے لیے Prism سمیت کئی منصوبے سامنے آئے۔ انٹرنیٹ استعمال کرنے والی افراد ذرا غور کریں تو وہ خفیہ طور پر جائزہ لیتی ہوئی ان آنکھوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی مشہور ویب سائٹ ''فیس بک‘‘ پر یہ سب اس قدر دلچسپ ہے کہ گھنٹوں اس میں مگن رہتے ہیں۔ اسی کھیل تماشے میں اب وہ ہمارے رشتے داروں سے لے کر گہرے دوستوں تک کے نام تو ہم
سے اگلوا چکی ہے۔ ایک عالمی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق مختلف لوگوں کے روابط جاننے کے لیے نیشنل سکیورٹی ایجنسی نے فیس بک کی زمین پر کھدائی کی۔ سوشل میڈیا کی ایک اور موثر ترین ویب سائٹ ٹوئٹر نے اس چوری سے بچنے کے لیے اپنی سکیورٹی سخت کرنے کا اعلان کیا۔ برقی خطوط (ای میل) کے لیے استعمال ہونے والی ایک ویب سائٹ جی میل (G Mail) نے بھی ایسے ہی اقدامات کیے۔ 
نیٹ سے ہم مختلف مقاصد کے لیے ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں۔ عین اسی وقت وہ بھی ہمارا ڈیٹا اکٹھا کر رہا ہوتا ہے۔ جن ویب سائٹس سے ہم استفادہ کرتے ہیں، وہ ہمارے متعلق بہت کچھ جانتی ہیں۔ وہ اس کا غلط استعمال کریں یا نہیں، یہ ایک الگ بات ہے۔ اپنے ایک کالم کے دوران میں نے دنیا کا نقشہ دیکھنے کے لیے گوگل میپس (Google Maps) کھولی تو سب سے اوپر میرا نام اور ''خوش آمدید‘‘ لکھا تھا۔ پہلے تو میں حیران ہوا لیکن پھر سمجھ آیا کہ یہ ویب سائٹ میرے جی میل کے اکائونٹ کے ساتھ منسلک تھی۔ 
ملائیشیا کے بدقسمت طیارے کا سراغ لگاتے ہوئے کئی حکومتوں نے سیٹلائٹ کی مدد سے اپنے سمندروں کو کھنگالا اور جہاز کے ملبے سے ملتی جلتی اشیا دیکھنے کا اعلان کیا۔ سیٹلائٹ سے مراد خلا میں موجود انسان کی بنائی ہوئی مشینیں ہیں۔ زمین کے گرد اپنی گردش کے دوران وہ کرّہء ارض پہ نظر رکھتی ہیں۔ وہ خلا سے آنے والی چٹانوں کی بروقت معلومات سے لے کر موسم کا حال اور طوفان کی پیشین گوئی تک میں استعمال ہوتی ہیں۔ بعض ٹی وی چینلز اور سیٹلائٹ فون بھی انہی کے پیدا کردہ سگنل استعمال کرتے ہیں۔ دشمن اقوام اور افراد کی جاسوسی کے لیے ڈرون ٹیکنالوجی سے کون واقف نہیں۔ انہی کی مدد سے امریکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کی نگرانی اور میزائل حملے کرتا ہے۔ سی این این کے مطابق ہیکرز (ڈیٹا چرانے والے) اب ''سنوپی‘‘ (Snoopy) نامی ایسا ڈرون ایجاد کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں، جو ہمارے سمارٹ فون کو کھنگال سکتے ہیں۔ یہ کوئی خواب و خیال کی بات نہیں، خود سی این این نے سنوپی کی کارکردگی جانچنے کے لیے ایک سہ پہر لندن کی فضا میں آزمائشی طور پر اسے استعمال کیا۔ کچھ ہی دیر میں وہ اپنے نیچے سے گزرنے والے کئی افراد کے گھروں کا پتہ معلوم کر چکا تھا۔ ایک گھنٹے میں اس نے 150 آلات (Devices) میں نقب لگائی۔ سنوپی انٹرنیٹ سے رابطہ استوار کرنے والے فون کو یہ یقین دلا دیتا ہے کہ وہ ایک ایسا بااعتماد کنکشن ہے، جسے ماضی میں وہ استعمال کرتا رہا ہے۔
یہاں یہ یاد رہے کہ سائنسی ترقی کے اس جدید دور میں یہ فون بڑے بڑے تجارتی مقاصد اور کھربوں روپے کے لین دین میں استعمال ہو رہے ہیں۔ یہ ننھا سا ڈرون انٹرنیٹ استعمال کرنے والے موبائل فون کے ساتھ رابطہ استوار کرنے کے بعد اس پر استعمال ہونے والی ویب سائٹس دیکھ سکتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ آپ کہاں تشریف فرما ہیں اور آپ کا کریڈٹ کارڈ نمبر نوٹ کرنے میں اسے کچھ خاص وقت درکار نہیں۔ اکثر اوقات ہمارے موبائل فون پر بغیر کسی خفیہ نمبر (Password) کے، بغیر تاروں کے استعمال ہونے والے انٹرنیٹ(Wifi) کے سگنل موصول ہو رہے ہوتے ہیں۔ تب ہمارے اڑوس پڑوس میں مقیم کچھ نامعلوم افراد اس تاک میں ہوتے ہیں کہ ہم ان سے استفادہ کرنے کی کوشش کریں اور وہ ہماری خلوت (Privacy) میں جھانک سکیں۔ انہیں ہرگز استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ 
دنیا بھر کی جاسوسی میں مصروف امریکی عزائم منظرِ عام پر لانے والے ایڈورڈ سنوڈن کو ''محب وطن‘‘ ''غدّار‘‘ اور ''ہیرو‘‘ سے لے کر ہر قسم کے القابات دیے گئے۔ وہ اقوامِ عالم کے تعلقات میں بگاڑ کا باعث بھی بنا۔ 17 دسمبر 2013ء کو گارڈین نے انکشاف کیا کہ اپنی ذاتی گفتگو سنے جانے پر جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے امریکی صدر بارک اوباما سے تلخ گفتگو کی۔ انہوں نے اس امریکی حرکت کو ''سٹاسی‘‘ (Stasi) سے تشبیہ دی۔ سٹاسی ماضی کے مشرقی جرمنی میں قائم آمریت کی طاقتور ترین خفیہ پولیس تھی۔ ایڈورڈ سنوڈن کے معاملے میں امریکہ کے تمام تحفظات کو لات مارتے ہوئے، روسی سرزمین نے اسے کسی خفیہ مقام پر پناہ دے رکھی ہے۔ 
قارئین، انسان کی طرف سے انسان کی جاسوسی کے بارے میں یہ تیسری دنیا کے ایک عام سے فرد کی معلومات ہیں۔ انتہائی ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں اپنی جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے کیا گل کھلا رہی ہوں گی، اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں