"FBC" (space) message & send to 7575

سوال

گزشتہ کالم میں مصنوعی ذہانت کی مدد سے ایک نائب کی طرح احکامات بجا لانے والے پروگرام ''کورٹانا‘‘کا ذکر کیا تھا ۔ اس حوالے سے میں نے جو مثالیںدیں،وہ بڑی بنیادی تھیں۔ مائیکروسافٹ کمپنی کا تخلیق کردہ کورٹانااور اس جیسے دوسرے مثلاً ایپل کمپنی کا سری (Siri) اس سے کہیں بڑھ کر کار آمد ہیں ۔ مثلاً چالیس پچاس روپے ماہانہ کے عوض ہم اپنے موبائل پر تازہ خبریں حاصل کرتے ہیں لیکن ان میں سے بہت سی غیر دلچسپ اور وقت کے ضیاع کا باعث ہیں ۔اس کی بجائے، کورٹانا کو ہم یہ حکم دے سکتے ہیں کہ ہماری پسند کے موضوع سے متعلق ہر خبر پہ نظر رکھے اور بروقت مطلع کرتا رہے ۔اس کی کارکردگی حیران کن ہے لیکن یہ تمام اطلاعات انگریزی ہی میں موصول ہوں گی۔ 
قارئین مجھے کچھ دلچسپ سوال موصول ہوئے ہیں۔ قرآن اور حدیث کی روشنی میں ، میں نے یہ لکھا تھا کہ ایک نہیں ، کُل سات کائناتیں ہیں ۔ قرآن کائنات کی جگہ آسمان کا لفظ استعمال کرتاہے۔ مثلاً وہ یہ کہتا ہے کہ سات آسمان بنائے گئے اور ان میں اتنی ہی زمینیں اور ان زمینوں میں خدا کا حکم اترتا ہے (مفہوم)۔ پھر ایک جگہ فرمایا گیاہے کہ آسمانِ دنیا کو ہم نے چراغوں (ستاروں) سے زینت دی ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ
جہاں تک آپ ستارے جھلملاتے ہوئے دیکھیں گے ، وہ آسمانِ دنیا ہے۔ اس میں یہ ساری کی ساری ،سو ارب کہکشائیں شامل ہیں۔ حدیث یہ کہتی ہے کہ زمین میں سوراخ کر کے اگر ایک زنجیر نیچے لٹکائی جائے تو وہ ساتویں زمین تک جا پہنچے گی(مفہوم) ۔ اس پر ایک صاحب نے بہت عمدہ سوال کیا ۔وہ یہ کہتے ہیں کہ کرّئہ ارض خلا میں حرکت کر رہی ہے ۔خلا میں سمت کا کوئی احساس نہیں ہوتا؛ لہٰذا ''زمین کے نیچے ‘‘سے آپ کی کیا مراد ہے ؟جسے آپ نیچے کا حصہ سمجھ رہے ہیں ، ممکن ہے کہ کچھ دیر کے بعد گھومتا ہوا، وہ اوپر کا رخ کر چکا ہو؟
قارئین! زمین ، سورج اور اجرامِ فلکی کی گردش کا میں نے گہرائی میں مطالعہ نہیں کیا جبکہ اس نوعیت کے مضامین لکھنے سے قبل ہی یہ کام مجھے کر لینا چاہیے تھا۔ کرّۂ ارض اور نظامِ شمسی کے دوسرے سیارے اپنے اپنے چاند لے کر سورج کے گرد محوِ گردش ہیں ۔ سورج ہماری کہکشاں ملکی وے کے مرکز کے گرد اور خود پوری کی پوری کہکشاں بھی متحرک ہے ۔ خلا میں سمت کا احساس واقعی نہیں ہوتا لیکن صرف ہم انسانوں کی حد تک۔ اس لیے کہ ہمارا قدوقامت اور بینائی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ کائناتوں کا حجم ناپنا ہمارے بس کا کھیل نہیں ۔ اسے یوں سمجھیے کہ 100 کلومیٹر اونچائی، 100کلومیٹر لمبائی اور اتنی ہی چوڑائی والے شیشے کے سات کنٹینر ایک دوسرے کے اوپر رکھے ہیں ۔ سب سے اوپر والے کنٹینر میں 2، 2انچ قطرکی اربوں گیندیں (سورج) حرکت میں ہیں۔ ہر گیند کے گرد ایک ایک سینٹی میٹر کی چھوٹی گیندیں (سیارے )گھومتی ہیں۔ دورانِ گردش ان کا
اوپر کا حصہ نیچے اور نیچے کا اوپر ہو جاتاہے ۔ انہی چھوٹی گیندوں میںسے ایک کے اوپر سات ارب خوردبینی جاندار یعنی انسان تشریف فرما ہیں۔ ان بیچاروں کی بینائی اس قدر کمزور ہے کہ ساتھ والی گیند انہیں محض ایک نقطے کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ جس بڑی گیند یعنی سورج کے گرد وہ محوِ گردش ہیں ، اس کی تمام تر حرکات اسے کنٹینر کے ایک معمولی سے حصے تک ہی محدود رکھتی ہیں۔ ایسے میں کمزور بینائی والے یہ ذہین خوردبینی جاندار اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ وہ سب جس خلا میں اڑے جا رہے ہیں، وہاں سمت کوئی نہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ اوپر نیچے یا دائیں بائیں کا تصور ہی غلط ہے ۔ ان کا معمار یا خالق جب انہیں یہ بتانے کی کوشش کرتاہے کہ ان کے نیچے چھ اور دنیائیں آباد ہیں تو ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی۔بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ خوردبینی جاندار خلا میں ہر طرف گھومنے اور اپنے ننھے قدّو قامت کی وجہ سے سمت کا احساس ہی نہیں رکھتے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ وہ ایسی ٹیکنالوجی سے محروم ہیں، جو آنکھ بھر کر ان سات کائناتوں کو اوپر تلے رکھا ہوا دیکھ سکے ۔ 
بیچارہ انسان جائے تو جائے کہاں ؟قارئین ! ہم کمزور پیدا کیے گئے ہیں ۔یہ زندگی سمجھوتے اور تشنگی کا دوسرا نام ہے لیکن یہ سب عارضی ہے ۔ جلد ہی ہمیں اپنے اصلی روپ کی طرف لوٹنا ہے۔ تب اپنی قوت اور شان و شوکت دیکھ کر آپ حیران رہ جائیں گے۔ ہماری یہ پہلی زندگی صرف شواہد اکھٹے کرنے، حتمی نتیجہ اخذ کرنے اور پھر خود اپنی لگامیں کھینچے رکھنے کی کوشش تک محدود ہے۔ اس میں ایک لطف بھی ہے ۔ 
ایک سوال اور سنیے !اگر آسمان سے گرنے والی ایک چٹان کرّۂ ارض کی 70فیصد زندگی کا خاتمہ کر سکتی ہے تو ختم ہوجانے والے جاندار آخر پیدا ہی کس لیے کیے گئے ؟میرا جواب یہ تھا کہ ان سب جانوروں کا قصور کیا ہے ، جنہیں ہم اپنا پیٹ بھرنے کے لیے ذبح کرتے ہیں؟ اور وہ جو جنگلوںمیں ایک دوسرے کی خوراک بنتے ہیں ؟سب اس طرح بنائے گئے ہیں کہ ایک دوسرے کو پالتے رہیں ۔ دراصل یہ زندگی اُس مصنوعی ذہانت کے ایک چھوٹے سے امتحان کے سوا اور کچھ بھی نہیں ، جو خدا نے ہمیں عطا کی ہے ۔ سو اس کے علاوہ باقی سب بے معنی ہے ۔ ایک نکتہ اور بھی ہے۔ خالق یہ جانتا تھا کہ ایک دن ہم ان بڑے حادثات کا سراغ لگا لیں گے ،جنہوں نے زندگی کو تقریباً ختم ہی کر ڈالا تھا۔ اس سے سائنسی ترقی کے اس دور میں خود کو خدا قرار دینے والوں کو اپنی حیثیت کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں