پاک بھارت وزرائے اعظم کی ملاقات سے متعلق ٹی وی پروگرام کچھ اس طرح کی سرخیاں دکھا رہے تھے ''پاک بھارت تعلقات میں ایک نیا موڑ ـ‘‘، ''میاں نواز شریف کا گرم جوشی سے استقبال‘‘، ''امن کا پیغام لیے ، نواز شریف نریندر مودی کے پاس پہنچ گئے‘‘، ''پاک بھارت تعلقات ، ایک نئی تاریخ‘‘، ''نریندر مودی کی حلف برداری، نئے آغاز کے لیے ایک عظیم موقع‘‘وغیرہ وغیرہ۔وہ پسِ منظر اور حقائق بھلا دیے گئے ، جن میں یہ ''عظیم‘‘پیش رفت ہورہی تھی ۔ یہ کہ ایک ایسے شخص کو بھارتی عوام نے اپنا وزیراعظم چنا ہے ، جس کی انتخابی مہم مسلمان اور بالخصوص پاکستان مخالفت پہ استوار تھی۔وہ شخص جسے ایک ریاست کی وزارتِ اعلیٰ سونپی گئی تو اس نے مسلمان اقلیت کا قتلِ عام کیا ۔خوش فہمی کی جنّت میں براجمان، میڈیا بھول گیا کہ ہم ان چھوٹے بڑے پڑوسی ممالک میں سے ایک ہیں ، جنہیں نئے پردھان منتری نے اپنی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کی اجازت دی ہے ۔
تو وہی ہوا ‘جو ہونا تھا۔ جس وقت نریندر مودی ممبئی حملوں سمیت،اپنے مطالبات پیش کر رہے تھے، ہمارے حکمران ایک غیر متعلق شخص اٹل بہاری واجپائی کی تحسین فرماتے ہوئے پائے گئے ۔ 1999ء میں اپنا تختہ الٹے جانے کے وقت پاک بھارت تعلقات جس سطح پہ موجود تھے ،وہ وہیں سے آغاز کی معصومانہ خواہش ظاہر فرما رہے تھے ۔ پلوں کے نیچے سے بہت ساپانی بہہ
چکا اور لگتا یہ ہے کہ وزیر اعظم 1999ء ہی میں تشریف فرما ہیں۔ کیا انہیں اس دور کی ''خوشگوار ‘‘پاک بھارت دوستی کی وجوہ یاد ہیں ؟ ہندوستان نے دوسری بار ایٹمی دھماکے کیے تھے، جس کے بعد انڈین سیاستدان، حکومت اور میڈیا ہمیں للکارتا رہا ۔سترہ دن بعدنواز شریف کی حکومت نے عالمی دبائو نظر انداز کرتے ہوئے جوابی ایٹمی دھماکے کیے تو بھارتی سرکار پسپا اور دوستی کی طلبگار ہوئی۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ہندو لاشعور پہ مسلم اقلیت کی اس حکمرانی کے زخم بہت گہرے ہیں ، جس کا آغاز بہت پہلے ہوا تھا لیکن سولہویں صدی میں ظہیر الدین بابر کے زیرِ نگیںجو اپنے عروج کو پہنچی۔ جنابِ وزیراعظم !بھارت ہمارا حلیف نہیں ہو سکتا ۔طاقت کے توازن ، معیشت کے فروغ اور اندرونی سیاسی استحکام سے زیادہ سے زیادہ اسے ایک گوارا پڑوسی بننے پر مجبور کیا جا سکتاہے ۔
افسوس!وزیراعظم خالی ہاتھ لوٹے ہیں۔ انہیں الزامات کی ایک فہرست گنوائی گئی ۔ افسوس! افغان صدر کی ہرزہ سرائیوں کا جواب دینے کی زحمت نہ کی گئی۔ افسوس! ہم کشمیر کے قتلِ عام کا اشارتاً بھی ذکر نہ کر سکے ۔
اندرونی معاملات بے حد پیچیدہ ہیں ۔19اپریل کے واقعے پر حکومت متوازن دکھائی نہیں دیتی ۔ پیمرا کے اندر ایک جنگ جاری ہے ، عسکری قیادت بغور جس کا جائزہ لے رہی ہے ۔گزشتہ چند ماہ میں مذہبی سیاسی جماعتوں اور تحریکِ انصاف نے دہشت گردوں کے خلاف ایکشن رکوانے کی بھرپور مگر ناکام کوشش کی ہے۔جناب عمران خان موسمِ گرما کی اس شدّت کے باوجود حکومت کے خلاف ایک تحریک اٹھانے میں کامیاب رہے ہیں ۔ تحریکِ طالبان کی اندرونی کشمکش اپنے منطقی انجام کی طرف لپک رہی ہے۔ یہ سب سے اہم او رخوش آئند پیش رفت ہے ۔
گزشتہ چند ہفتوں میں خان سید سجنا اور شہریار محسود کی سربراہی میں، محسود طالبان کے دو گروہوں میں جاری تصادم کم از کم 100افراد کی جان لے چکا۔خان سیدعرف خالد سجنا کا پلڑا واضح طور پر بھاری تھا ۔ افغانستان کے صوبہ کنڑ میں تشریف فرما،جنرل ثناء اللہ نیازی کو شہید کر ڈالنے اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کو اپنا اگلا ہدف قرار دینے والے ملّا فضل اللہ سواتی، خان سید سجنا کو برطرف کرنے کی کوشش میں بری طرح ناکام رہے تھے۔ 2009ء کے سوات آپریشن میں زخموں سے چور فضل اللہ بمشکل افغانستان فرار ہوا تھا۔ اس کارروائی نے غالباً اس کے لاشعور پہ اتنے گہرے زخم لگائے کہ وہ بھول گیا کہ سپہ سالاری کے شوق کی تسکین میدانِ جنگ سے دورتشریف فرما ہو کر ممکن نہیں۔
جیسا کہ بار بار لکھا گیا، تحریکِ طالبان کی بنیاد اور اس کی اصل طاقت محسود جوان تھے ۔ بیت اللہ کے بعد جب حکیم اللہ محسود بھی قتل کر ڈالا گیا تو نہ صرف یہ کہ قبیلہ کمزور پڑا بلکہ قیادت کے لیے ایک تنازعہ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ انہی اختلافات کا نتیجہ تھاکہ افغان طالبان کے دبائو کے تحت ملّافضل اللہ امیر بننے میں کامیاب ہوا۔ مخمصہ یہ تھا کہ نہ صرف اس کی طاقت کے اصل مرکز، سوات کو فوج نے دھو ڈالا تھابلکہ محسود اسے نا پسند کرتے تھے ۔کراچی میں کارروائیوں سمیت، فضل اللہ نے پے درپے وہ اقدامات اٹھائے، جن سے اس قبیلے نے ہمیشہ اجتناب کیا۔ ملّا فضل اللہ کووہ زیادہ سے زیادہ اپنی اندرونی جنگ کے اختتام تک ہی گوارا کر سکتے تھے ۔خان سید جیت گیا اور ساتھ ہی محسودوں نے تحریکِ طالبان سے علیحدگی کا اعلان کر ڈالا ۔ مذہبی سیاسی جماعتیں یقینا اس پرآزردہ ہوں گی لیکن گزشتہ صدی میں پاکستان کے قیام سمیت، وہ اتنے سانحات برداشت کر چکیں کہ دکھ جھیلنے کی وہ عادی ہیں ۔
میر ا اندازہ یہ ہے کہ تحریکِ طالبان کی دو اکائیوں ، ملّا فضل اللہ اور خان سید کے حامیوں میں اگلے دنوں اور ہفتوں میں شدید تصادم ہوگا۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا، سوات فضل اللہ کے ہاتھ سے کب کا نکل چکا۔ اس کی اصل طاقت اب افغان طالبان کی پشت پناہی اور تحریکِ طالبان کے غیر محسود دھڑوں کی حمایت ہے ۔خود افغانستان کے حالات بدل رہے ہیں ۔ حالیہ صدارتی انتخابات میں عوام کی ایک غیر معمولی تعداد نے طالبان کی بندوق بردار شریعت مسترد کر دی ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ نئے صدر کی آمد اور امریکیوں کی رخصتی مکمل ہونے کے بعد حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں ۔ کیا ملّا فضل اللہ بدستور وہاں براجمان رہنے میں کامیاب رہیں گے ؟
خود کش حملوں جیسی ''صلاحیت ‘‘محسودوں کے پاس ہے ، کسی اورکے پاس نہیں ۔خان سید سجنا میدانِ جنگ میں موجود ہے ۔ ملّا فضل اللہ کے سوات کے برعکس ، خان سید کا شمالی وزیرستان فی الحال زندہ ہے ۔ پاک فوج اور خفیہ ایجنسیاں کیا سوچ رہی ہیں ؟ کیا اس تقسیم میں ان کی خفیہ حکمتِ عملی شامل ہے یا بن مانگے خدا نے ایک تحفہ ان کی جھولی میں ڈال دیا ہے ؟ کیا وہ شمالی وزیرستان پہ فی الفورپل پڑیں گی یا عسکریت پسندوں کو آپس میں لڑتے دیکھ کر محظوظ ہوں گی ۔ میرا خیال ہے کہ جولائی کے اختتام تک انہیں انتظار کرنا چاہیے ۔ انتظار کرنا اور چوکس رہنا چاہیے ۔