"FBC" (space) message & send to 7575

اللہ نورالسمٰوٰت و الارض (2)

گزشتہ کالم میں، خدا اور فزکس کے بارے میں، مادے اور توانائی کے بارے میں کچھ سوالات میں نے اٹھائے تھے۔ یہ کہ کائنات مادے اور توانائی ہی پر مشتمل ہے۔ البرٹ آئن سٹائن کا مشہور اصول کہ مادہ توانائی اور توانائی مادے کا روپ دھار سکتی ہے اور دھارتی ہے مثلاً ایٹم بم پھٹتے وقت مادہ توانائی میں بدلتا ہے۔ ابتدا میں یہ جہانِ رنگ و بو صرف اور صرف خالص توانائی پہ مشتمل تھا۔ پھر گیسیں پیدا ہوئیں، جن میں ہائیڈروجن غالب ترین ہے۔ ان گیسوں کے بادل بنے۔ ہائیڈروجن پہ مشتمل سورج وجود میں آئے۔ ان سورجوں کے مرکز میں فیوژن کے عمل نے جنم لیا۔ ہائیڈروجن گیس ہیلیم میں تو بدلنے ہی لگی، ساتھ ساتھ درجہ حرارت کی شدّت کو پہنچ کر، کئی دوسرے عناصر بھی وجود پانے لگے؛ حتیٰ کہ بھاری ترین لوہا بھی۔ 
کائنات کی ابتدا کا ذکر ہو اور خدائی ذرے کا حوالہ نہ دیا جائے، یہ ممکن نہیں۔ اس پر مجھے بہت دلچسپ اعتراضات موصول ہوئے۔ ایک صاحب نے لکھا کہ ''خدائی ذرّے‘‘ نام کی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نصف صدی قبل مشہور طبیعیات دان پیٹر ہگز کی طرف سے اس کا تصور پیش کرنے 
کے بعد جب اسے ڈھونڈا گیا تو یہ تلاش اس قدر طوالت اختیار کر گئی اور اتنی اس کے لیے جدوجہد کرنا پڑی کہ ایک موقع پر اسے "God Damn Particle" کہا جانے لگا۔ گاڈ ڈیم پارٹیکل کا اردو ترجمہ ''منحوس ذرہ‘‘ ہے، یعنی وہ ذرہ، جس پر خدا کی لعنت ہو۔ یہ صاحب کہتے ہیں کہ بعد میں کسی شخص نے (جو کہ سائنسدان نہ تھا) سستی شہرت کے لیے اسے God's Particle کہا ۔ اس سارے پسِ منظر میں میری طرف سے بار بار یہ اصطلاح استعمال کرنا کم علمی کی نشانی ہے۔
قارئین حقیقت یہی ہے کہ سائنسی کمیونٹی نے اس نام کو بے حد ناپسند کیا تھا۔ ڈاکٹر پیٹر ہگز، جنہوں نے 1964ء میں اس کا تصور پیش کیا تھا، خود وہ بھی اس اصطلاح سے جز بز ہوئے تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ خود وہ خدا پر یقین نہیں رکھتے اور یہ نام بہت سے لوگوں کو ناگوار گزرے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ نوبل انعام یافتہ لیون لیڈرمین، جن کے ناول نے اس ذرے کو یہ نام دیا، بھی اس کتاب کا عنوان "God's Particle" کی بجائے "God Damn Particle" ہی رکھنا چاہتے تھے۔ پبلشر نے انہیں قائل کیا کہ Damn کا لفظ ہٹا دیا جائے تو کتاب کی فروخت میں حیران کن اضافہ ممکن ہے۔ 
سائنسی کمیونٹی اس ذرے کو ''ہگز بوسون‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ متفقہ طور پر وہ یہ تسلیم کرتی ہے کہ یہی ذرہ مادے کو کمیت عطا کرتا ہے۔ وہ توانائی کو مادے میں بدلتا ہے۔ آسان ترین الفاظ میں، ہر نظر آنے والی اور اوجھل شے اسی نے تخلیق کی ہے۔ اس کے سوا اب اسے اور کیا نام دیا جائے؟ جہاں تک مغربی سائنسی کمیونٹی کا تعلق ہے، مذہب اور خدا کے تصور ہی سے اسے ہول آنے لگتا ہے۔ اسے اپنی آزادی بے حد عزیز ہے۔ اس میں اس سے زیادہ چرچ کا قصور ہے، کئی صدیوں تک جس نے معاشرے کو تو جبر کے شکنجے میں جکڑا ہی، سائنسدانوں کو تو مار ہی ڈالا۔ سترھویں صدی کے مشہور ماہرِ فلکیات گیلی لیو گیلی لی نے جدید دوربین کی ایجاد کے بعد سیارہ مشتری کا مشاہدہ کیا تو اس کے گرد کئی چاند محوِ گردش دیکھے۔ یہ بات تب بڑی خوفناک تھی کہ کرّہ ارض کے علاوہ بھی کسی سیارے کے گرد کوئی جسم زیرِ گردش ہو۔ اس لیے کہ چرچ کا اعلان اور ایک عام خیال بھی یہی تھا کہ ہماری زمین ہی کائنات کا محور و مرکز ہے۔ سچ ظاہر کرنے پر مذہب کے ٹھیکیدار سیخ پا ہوئے اور اسے نظر بند کر دیا گیا۔ اسی قید و بند کے دوران گیلی لیو مر گیا۔ اس پسِ منظر میں خدا کا نام سنتے ہی مغربی سائنسدانوں کو دورے پڑنے لگتے ہیں۔ ایک وجہ اور بھی ہے۔ یہ کہ وجودِ خدا کا اقرار کرتے ہوئے، انہیں اپنا آپ چھوٹا محسوس ہونے لگتا ہے؛ لہٰذا وہ اتفاق در اتفاق کی کہانی ہی میں زندہ رہنا چاہتے ہیں ۔ 
گزشتہ مضمون میں ایک غلطی، اکثر قارئین نے جس کی نشاندہی کی،یہ تھی کہ کرّہء ارض کی گردشی رفتار ایک لاکھ آٹھ ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ ہے، نہ کہ ایک لاکھ اسّی ہزار کلومیٹر۔ یہ چھپائی کی غلطی ہے۔ بہرحال اپنی گاڑیوں میں سو کلومیٹر فی گھنٹہ ہی پہ کمزور دل افراد کا دل گھبرانے لگتا ہے کجا کہ ایک لاکھ کلومیٹر سے زائد رفتار اور کجا کہ پانچ ہزار کلومیٹر فی سیکنڈ کی وہ رفتار، جس سے ایک سورج ملکی وے کہکشاں کے مرکز میں گھوم رہا ہے۔ پانچ ہزار کلومیٹر فی سیکنڈ کو گھنٹے میں بدلنے کے لیے اسے دو بار ساٹھ سے ضرب دے دیجیے۔ ایک کروڑ اسّی لاکھ کلومیٹر! 
ایک صاحب نے لکھا کہ انسان کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے اور ایسی باتوں میں ذہن الجھانا نہیں چاہیے۔ یہ بات درست نہیں۔ خدا آسمانوں اور زمین کی تخلیق پہ غور کرنے والوں کا ذکر بڑے ناز سے کرتا ہے۔ اسی غور و فکر کے دوران انسان ان نشانیوں تک پہنچتا ہے، خدا بار بار خود تک رسائی کے لیے جن کا حوالہ دیتاہے۔ گزشتہ کالم کے حوالے سے بعض بہت دلچسپ جوابات بھی موصول ہوئے لیکن ان کا ذکر پھر کبھی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں