بری طرح گاڑی کے مالک کا پسینہ بہہ رہا تھا ۔ جاپانی کمپنی کے تخلیق کردہ اس مشینی جانور پہ پچھلے دس برس میں وہ تین لاکھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر چکا تھا ۔تب یہ اس کے وہم و گمان تک میں نہ تھا کہ ایک دن مردہ بھینس کی طرح اسے ڈھونا ہو گا۔وہ بھی مئی کے مہینے میں، سورج جب سوا نیزے پر تھا۔ لگ بھگ پندرہ بارراہگیروں کی منّت سماجت کے بعد، دھکّا لگوا کے وہ اسے سٹارٹ کر چکا تھالیکن ادھر بریک پر پائوں رکھا، ادھر انجن بند۔ گاڑی کو سٹارٹ رکھنے اور جلد از جلد منزل پہ پہنچ جانے کی اس کوشش میں ، انجن کا درجہ حرارت دکھانے والی سوئی پہ اس کی نظر نہ پڑ سکی، کب کی جو خطرے کے نشان کو چھو رہی تھی ۔
ورکشاپ کے مالک کی شہرت یہ تھی کہ وہ ایسے نقائص بھی ڈھونڈ نکالتاہے ، جو اور کسی کے بس میں نہ ہوا کرتے ۔ دراصل وہ ایک انجینئر تھا اور ایک سرکاری ادارے میں باقاعدہ ملازم۔شام کے وقت وہ اپنی اس ورکشاپ پہنچ جاتا، جہاں کئی مکینک مصروفِ عمل ہوتے ۔
گھنٹوں پہ مشتمل اپنی جانچ پڑتال کے بعد اس نے یہ ''خوشخبری‘‘ سنائی کہ بلند درجۂ حرارت کی بنا پر انجن کو نقصان پہنچ چکا ہے ۔ نقص بھی بڑا دلچسپ تھا اور بقول اس کے ، کوئی اس خرابی کی تہہ تک پہنچ نہ پاتا۔ اس نے یہ کہا ''انجن کا درجۂ حرارت جب 98ڈگری پر پہنچتاہے تو اس میں لگا ہوا ایک سنسر گاڑی میں نصب کمپیوٹر کو فوراً یہ اطلاع پہنچاتاہے ۔ کمپیوٹر ایک چھوٹی سی ڈبی کو سگنل بھیجتاہے ، جس کا کام پنکھے (فین) کو حرکت دینے کے لیے کرنٹ خارج کرنا ہے‘‘۔ مسئلہ یہ تھا کہ یہ مخصوص ڈبی خراب ہوجانے کی وجہ سے بہت کم کرنٹ خارج کر رہی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پنکھا چلا تو سہی لیکن کم رفتار سے ۔ انجن گرم سے گرم تر ہوتا چلا گیا۔اس نے بتایا کہ مزید کچھ دیر گاڑی چلتی رہتی تو انجن مکمل طور پرناکارہ ہو جاتا۔
گاڑی کے مالک نے کہا : یہ کیسا کمپیوٹر ہے ؟ پنکھا چلنے کے باوجود جب انجن ٹھنڈا نہ ہوا تو چاہیے تو یہ تھا کہ کمپیوٹر اسے بند کر ڈالتا۔ یا کم از کم بول کر خطرے کی نشان دہی کرتا۔ اس لیے کہ اب تو جاپان میں بننے والی آٹھ دس لاکھ کی کار دروازہ کھلا رہ جانے کی صورت میں بھی اونچی آواز میں انتباہ کرتی ہے ۔ وہ دوسری گاڑی یا کسی بھی شخص کے زیادہ قریب آجانے اور ٹکرائو کا خطرہ پیدا ہونے پر فوراً آواز نکالنے لگتی ہے ۔ ورکشاپ کا مالک ہنس پڑااور اسے بتایا کہ وہ دس سال پرانی گاڑی کا مالک ہے...
قارئین جدید گاڑیاں خود میں نصب سنسرز کی مدد سے ڈرائیور کو مسائل سے آگاہ کرتی ہیں مگر ان کی کارکردگی محدود ہے ۔ کامل ٹیکنالوجی کہیں دیکھنے میں نہیں آتی ؛البتہ خود زندہ اجسام ، انسان اور جانوروں میں موجودمختلف نظام (Systems) دیکھیے تو آپ حیران رہ جائیں گے ۔سوائے دماغ کے ، ایک عضو عام طور پر ایک ہی کام انجام دیتاہے ۔ پھیپھڑے ہوا سے آکسیجن لیتے ، معدہ خوراک ہضم کرتااور دل خون کی مدد سے آکسیجن اور غذا جسم کے تمام خلیات تک پہنچاتا ہے ۔ حیرت انگیز طور پر اس طرح ایک ایسا شاندار نظام وجود میں آتاہے کہ تمام خلیات مسلسل توانا رہتے ہیں وگرنہ ذرا سی مدّت میں وہ مرنے لگتے ۔
ایک کمپیوٹر ہم سب کے سروں میں بھی نصب ہے ، انسانی و حیوانی جسم میں جس کی کارکردگی دوسرے سب اعضا سے اعلیٰ ہے ۔ وہ تمام اعضا سے مسلسل رابطے میں رہتا اور ان کی کارکردگی تو جانچتا ہی ہے ، ساتھ ہی ساتھ ان میں پیدا ہونے والی خرابیوں کے بارے میں بھی فوراً ہمیں آگاہ کرتاہے ۔ یہ جلد ، آنکھ ، کان اور دوسرے اعضا میں موجود حسّی خلیوں سے مسلسل معلومات حاصل کرتاہے ۔ یہ حسّی خلیے جدید سنسر ہی کی طرح کام کرتے ہیں ۔ جدید گاڑیوں میں دس بارہ سنسر موجود ہوتے ہیں لیکن ہماری جلدمیں موجود ہر خلیہ اپنی جگہ ایک سنسر ہے اور ان کی تعداد ارب ہا ارب تک جا پہنچتی ہے ۔ وہ نظام، جس کے ذریعے یہ دماغ تک پیغام پہنچاتے ہیں ، نہایت دلچسپ ہے ۔
دماغ نہایت پیچیدہ وائرنگ کے ذریعے جسم کے تمام حصوں سے منسلک ہے ۔اوّل یہ ریڑھ کی ہڈی سے جڑا ہوا ہے ۔ پھر ریڑھ کی ہڈی سے نہایت باریک نروز یا تاریں جسم کے ہر حصے میں پھیلی ہوئی ہیں ۔ انہی تاروں کی مدد سے دماغ جسم کو حرکت میں
لاتاہے ۔ مثال کے طور پر ، ہمیں اگر اپنا پائوں ہلانا ہے تو دماغ سے ایک برقی پیغام ریڑھ کی ہڈی اور وہاں سے پائو ں میں موجود نروز تک پہنچے گااور وہ حرکت کے قابل ہوگا۔ اسی طرح پائوں میں کانٹا چبھنے کی صورت میں تکلیف کا پیغام پائوں سے ریڑھ کی ہڈی اور پھر وہاں سے دماغ تک پہنچے گا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جسم کے کسی بھی حصے میں خرابی پیدا ہونے کی صورت میں دماغ فوراً ہی اس سے آگا ہو جاتاہے ۔ کچھ دن قبل مجھے اپنے پائوں کی دو انگلیاں سن ہوتی ہوئی محسوس ہوئیں ۔ ایسا لگتا تھا کہ گویا وہ پائوں کے ساتھ منسلک ہی نہیں ۔ ساتھ ہی ساتھ کمر میں بھی درد تھا۔ڈاکٹر نے کہا کہ کمر میں ایک نرو دب گئی ہے اور انگلیوں کے ساتھ اس کا رابطہ منقطع ہے ۔ فرض کیجیے کہ اگر ہماری گاڑی کے پہیّے میں مسئلہ ہوتو کیا انجن میں نصب کمپیوٹر اس سے آگا ہ ہو سکتاہے ؟ جی نہیں ۔
تازہ ترین خبر یہ ہے کہ اب روبوٹ کے لیے باقاعدہ انسان جیسی جلد تیار کی جارہی ہے کہ اس کی کارکردگی بڑھانے کے لیے اس کے سوا اور کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔ آپ کو اگر اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی کا مشاہدہ کرنا ہے تو اپنے جسم اور دماغ کا جائزہ لیجیے ۔ شاید یہیں سے خالقِ کائنات کی طرف آپ پہلا قدم اٹھانے میں کامیاب ہوجائیں ۔