قریب سے دیکھیے تو چاند ہرگز خوبصورت دکھائی نہیں دیتا‘ لیکن اس کے بغیر زندگی بے حد دشوار بلکہ شاید ناممکن ہوتی۔ میں شاعرانہ ذوق سے محروم ایک اجڈ گنوار شخص ہوں؛ لہٰذا میری اس بات کو آپ محض سائنسی پیرائے میں دیکھیے۔ کرّہء ارض اور ہمارے اس آسمانی ہمسائے کی جوڑی ایسا ایک عجیب اتفاق ہے، ہماری زندگی پر جو نہایت خوشگوار اثرات ڈالتا ہے۔ ایک بڑے چاند کی موجودگی ان وجوہ میں شامل ہے، جن کی بنا پر ٹھوس سطح رکھنے والے سیاروں کے درمیان ہماری زمین ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ گو کہ نظامِ شمسی کے دوسرے سیاروں سے منسلک چار دیگر چاند اس سے بڑے ہیں لیکن اگر کسی بھی سیارے اور اس کے چاند کے حجم کا آپس میں موازنہ کیا جائے‘ تو اس لحاظ سے یہ سب سے بڑا ہے۔ حجم یا رقبے کے لحاظ سے یہ زمین کا تقریباً ایک چوتھائی ہے۔ ایک چوتھائی اور بے حد نزدیک!
کرّہء ارض کے علاوہ نظامِ شمسی کا دوسرا اور چوتھا سیارہ، زہرہ اور مریخ بھی سورج سے اس مناسب فاصلے کی حدود میں ہیں، درجہ حرارت کے اعتبار سے جہاں زندگی ممکن ہو سکتی تھی۔ سائنسی زبان میں اسے گولڈی لاک زون کہتے ہیں۔ یہ فاصلہ ہی درجہ حرارت طے کرنے والا بنیادی عنصر ہوتا ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ سورج سے ایک جتنے فاصلے کے باوجود، کرّہء ارض کے مختلف حصوں پر بھی درجہء حرارت مختلف ہوتا ہے۔ دراصل اس ضمن میں وہ زاویہ بھی نہایت اہم ہے، جس سے روشنی اور حرارت رکھنے والی سورج کی شعاعیں ہمیں چھوتی ہیں اور یہاں چاند کا کردار بہت اہم ہے۔
زمین اپنے محور پر ایک خاص زاویے سے جھکی ہوئی ہے۔ یہ بات پوری طرح سمجھنے کے لیے کرّہء ار ض کو ایک لمحے کے لیے ایک ایسا فٹ بال تصور کیجیے، جس کے عین درمیان سے ایک بہت بڑی لوہے کی سلاخ عمودی طور پر گزر رہی ہے۔ یہ سلاخ زمین پر سیدھی کھڑی ہونے کی بجائے ذرا سی ٹیڑھی ہے۔ نتیجتاً کرّہء ارض بھی ایک طرف کو جھکا ہوا ہے۔ اب اس کے نتیجے میں جو زاویہ پیدا ہو رہا ہے، اسی کی وجہ سے کچھ حصوں پر سورج کی شعاعیں سیدھی اور کچھ پر ترچھی گر رہی ہیں۔ ہزاروں سالوں میں یہ زاویہ بدلتا رہتا ہے لیکن کبھی یہ 22 سے 24.5 ڈگری کی حدود سے باہر نہیں جاتا۔ زمین پر چاند کے غیر معمولی اثرات ہی اسے ان حدود میں مقید رکھتے ہیں۔ یہی زاویہ موسموں کی پیدائش میں
سب سے بڑا عنصر ہے۔ یہاں چاند کا کمال یہ ہے کہ وہ اس زاویے میں ایسی بڑی غیر متوقع اور تیز تر تبدیلیوں کو روکتا ہے، جو ممکن ہے کہ زمین کو برف کی تہوں میں دھنسا دیتیں اور جنہیں آج کا نازک مزاج آدمی برداشت نہ کر پاتا۔ اس کے مقابل اگر ہم مریخ کو دیکھیں تو چاند سے محروم اس سیارے کا زاویہ 13 سے چالیس ڈگری کی انتہائوں کے درمیان بدلتا ہے۔
زمین پر درجہء حرارت میں تیز رفتار تبدیلیوں کو روکنے کے لیے ایک دوسرا عنصر اس کا پانی سے ڈھکے ہونا ہے۔ سورج کی روشنی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنا، بخارات کی پیدائش اور بارش، یہ سب سمندروں ہی کے مرہونِ منت ہے۔ اس سے پیدا ہونے والے بادل بھی سورج کی شعاعوں کو روکتے اور اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ زندگی کی پیدائش اور اس کی نشوونما میں پانی کا کردار یوں بھی تین بنیادی عوامل میں سے ایک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کائنات میں زندگی تلاش کرتے ہوئے، سب سے پہلے ہم پانی یا اس جیسا کوئی مائع اور کسی بھی سیارے کی آب و ہوا ٹٹولتے ہیں۔
ایک نہایت عجیب بات زمین سے سورج اور چاند کا فاصلہ ہے۔ چاند سورج سے چار سو گنا چھوٹا لیکن اس کی نسبت زمین سے چار سو گنا ہی زیادہ قریب ہے۔ حجم اور فاصلے میں اس یکسانیت ہی کی بنا پر دونو ں ہمیں ایک ہی جتنے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی بنا پر مکمل سورج گرہن کے دوران چاند مکمل طور پر سورج کو ڈھانپ لیتا ہے۔ نظامِ شمسی کے کسی اور سیارے پر ایسا منظر وقوع پذیر نہیں ہوتا۔
آپ نے 1969ء کے وہ مناظر یقینا دیکھے ہوں گے، جن میں نیل آرمسٹرانگ اپنے ساتھی خلا باز کے ساتھ چاند کی سطح پر چہل قدمی کر رہا ہے۔ یہ کام وہ نہایت دقّت سے سر انجام دیتا ہے۔ اس کی کیمیت اور کششِ ثقل اتنی کم ہے کہ بذاتِ خود اس پر زندگی گزارنا کارِ دشوار ہوتا۔ وزن کا تعلق چونکہ کشش ثقل ہی کے ساتھ ہوتا ہے لہٰذا 60 کلو کا آدمی چاند پر 10 کلو رہ جاتا ہے۔ آدمی کرّ ہء ارض ہی کے لیے بنایا گیا ہے۔ 2024ء میں مریخ کے مجوّزہ یک طرفہ سفر مارس ون (Mars one) کے بارے میں بھی صاف صاف یہ بتایا جاتا ہے کہ اس کی کم کششِ ثقل جسم کو ایک حد تک سکیڑ کے رکھ دے گی۔ یہ لوگ پھر کرّہء ارض پہ زندگی گزارنے کے قابل نہ رہیں گے (اور ظاہر ہے کہ واپسی فی الحال ممکن بھی نہیں۔ یہاں میں زندگی کی حفاظت میں مدد دینے والے دوسرے عوامل کا ذکر نہیں کر رہا، کرّہء ارض پر جو زندگی سہل بناتے ہیں)۔ چاند کا ایک کردار اور بھی ہے اور یہ قرآنِ کریم میں درج ہے۔ اپنے بڑھنے اور گھٹنے کے ذریعے یہ وقت کے تعین اور حج کے دنوں کا تعین کرنے میں مدد دیتا ہے۔ چودہ صدیاں گزرنے اور خلا کا سفر کرنے کے بعد، سورج، زمین اور چاند کی حرکات دیکھنے کے جدید طریقے ایجاد ہونے کے بعد، خدا کی منشا ہرگز یہ نہ ہو گی کہ عید کے چاند پر مملکتِ خداداد پاکستان میں ایک دوسرے کا گریبان پھاڑ دیا جائے۔ زمانہ جادوئی رفتار سے آگے بڑھ رہا اور ہم پیچھے رہ گئے ہیں۔