پروفیسر احمد رفیق اختر سے کسی نے کہا کہ سائنس کو مذہب سے الگ رکھنا چاہیے۔ پروفیسر صاحب نے جواب یہ دیا کہ خدا اگر کچھ سائنسی حقائق واضح کرنا چاہے تو آپ اسے کیسے روک سکتے ہیں؟ اور یہ کہا کہ قرآن سائنس کی کتاب نہیں مگر کتابِ تخلیق تو ہے۔ پروفیسر صاحب کہتے ہیں کہ جن آیات میں تخلیق سے متعلق وہ عظیم ترین حقائق بیان کیے گئے ہیں، بنی نوعِ انسان بمشکل تمام حال ہی میں جن سے روشناس ہوا ہے، وہاں خدا کا لہجہ ہی بدل جاتا ہے۔ وہاں وہ سیّارۂ زحل کی طرف راکٹ اور روبوٹ روانہ کرنے والے دورِ جدید کے اس انسان سے مخاطب ہوتا ہے، جس کی گردن اکڑی ہوئی ہے۔ تب پندرہ صدیاں قبل نازل ہونے والی کتاب میں اچانک ایک عظیم ترین کائناتی راز بیان کرتے ہوئے بالفاظِ دیگر کہا گیا: تمہاری یہ جرات کہ میرا انکار کرو؟
ایک بار پہلے بھی میں نے کائنات کے بارے میں انسانی علم کی تاریخ بیان کی تھی۔ صرف اڑھائی ہزار سال پہلے تک ہم یہ سمجھتے تھے کہ زمین گول نہیں بلکہ ایک سیدھی سطح یعنی Surface Flat ہے۔ یونانی مفکر ارسطو نے پہلی مرتبہ کرّہء ارض کے گول ہونے کا اندازہ لگایا۔ کہا کہ ایک ثبوت یہ ہے کہ چاند گرہن کے دوران زمین کا سایہ چاند پہ پڑتا ہے اور یہ سایہ ہمیشہ گول ہوتا ہے۔ ارسطو نے غلط طور پر یہ کہا کہ زمین ساکت اور کائنات کا محور و مرکز ہے۔ وقت گزرتا گیا۔ حضرت عیسیٰ ؑ آئے اور اٹھا لیے گئے۔ ارسطو کے پانچ سو سال بعد دوسری صدی عیسوی میں مشہور ریاضی دان اور ماہرِ فلکیات بطلیموس آیا۔ اس نے ارسطو ہی کے نظریات کو بنیاد بناتے ہوئے ایک کائناتی ماڈل پیش کیا۔ یہ ایک
ایسا ماڈل تھا، جس کے مرکز میں زمین اور اس کے گرد آٹھ مداروں میں سورج، چاند اور اس وقت تک دریافت ہونے والے پانچ سیارے گردش کر رہے تھے۔ مضحکہ خیز بات یہ تھی کہ آخری مدار میں اس نے کائنات کے تمام ستاروں کو رکھتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ وہ سب بھی ہماری زمین ہی کے گرد گھومتے ہیں۔ بطلیموس کے یہ نظریات عام طور پر درست مان لیے گئے؛ حتیٰ کہ مغرب پہ حکمراں چرچ نے بھی اسے تسلیم کر لیا۔
وقت گزرتا گیا۔ بطلیموس کے چار سو سال بعد چھٹی صدی عیسوی میں حضرت محمدﷺ تشریف لائے۔ قرآن اور حدیث کی صورت میں وہ اصول اور ضابطے بتائے گئے، جو بنی نوعِ انسان سے خدا کا مطالبہ تھا‘ لیکن ساتھ ہی ساتھ کائنات اور تخلیق سے متعلق کہیں کہیں عظیم انکشافات بھی فرمائے گئے۔ خدا نے بہرحال آنے والے ہر زمانے کے آدمی کو یہ بتانا تھا کہ وہ اس سے زیادہ جانتا ہے۔ ابھی میں ان کا ذکر کرتا ہوں لیکن پہلے وہی انسانی علم کی تاریخ۔
پندرہویں صدی عیسوی میں یعنی آج سے صرف چھ سو سال قبل پہلی بار نکولس کاپرنیکس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ زمین نہیں، سورج کائنات کا محور ہے... اور وہ ساکت ہے۔ کہا کہ زمین اور دوسرے سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں۔ چرچ سے وہ اس قدر خوفزدہ تھا کہ کھلے عام کبھی اس نظریے کا پرچار نہ کر سکا۔ پھر سولہویں صدی میں دو عظیم فلکیات دان گیلی لیو اور جوہانس کیپلر نے اس نظریے کی حمایت شروع کی۔ گیلی لیو نے جب اس زمانے میں ایجاد ہونے والی جدید دوربین سے یہ دیکھا کہ سیّارۂ مشتری کے گرد کئی چاند محوِ گردش ہیں تو ظاہر ہے کہ ارسطو اور بطلیموس کے اس نظریے پر کاری ضرب لگی کہ زمین کائنات کا محور ہے۔ یہ سچ ظاہر کرنے پر چرچ نے گیلی لیو کو نظر بند کر دیا۔ اسی قید و بند کے دوران وہ مر گیا۔ انیسویں صدی کے اختتام پر جارجس ہنری نے پہلی بار وہ نظریہ پیش کیا، جسے بعد میں بگ بینگ تھیوری کا نام دیا گیا۔ یہی نظریہ آج تک زندہ و جاوید ہے۔ ستارے اور سیارے، کہکشائیں اور خلا، شروع میں سب جڑے ہوئے تھے۔ پھر ایک دھماکے سے یہ الگ ہوئے اور ایک دوسرے سے دور جانے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ کائنات پھیل رہی ہے۔ ہمارا مشاہدہ بھی اب یہی ہے کہ کہکشائیں تیزی سے ایک دوسرے سے دور جا رہی ہیں۔
اب دیکھیے قرآن میں کیا لکھا ہے ''کیا میرا انکار کرنے والے دیکھتے نہیں کہ زمین اور آسمان جڑے ہوئے تھے۔ پھر ہم نے پھاڑ کر انہیں جدا کر دیا...کیا (خدا کی طرف سے یہ معلومات ظاہر کرنے کے بعد) پھر بھی یہ ایمان نہ لائیں گے؟‘‘ پارہ نمبر17۔ سورۃ الانبیا، آیت 30۔
اور آسمان کو ہم نے قوّت کے ساتھ بنایا ہے اور ہم ہی اسے پھیلا رہے ہیں۔ پارہ 27، سورۃ الذاریٰت۔ آیت 47۔
پہلی آیت واضح طور پر بگ بینگ کا ذکر کر رہی ہے۔ ''زمین اور آسمان جڑے ہوئے تھے‘‘ انگریزی میں اسے کہیں گے "They were one mass"۔ ذرا غور کیجیے کہ زمین (اور دیگر سیارے) اور آسمان (اور اس میں موجود ستارے) اگر یکجا ہوں تو انہیں الگ کرنے کے لیے کس نوعیت اور کس شدت کا دھماکا درکار ہو گا۔
دوسری آیت اسی دھماکے کے نتیجے میں کائنات کے پھیلائو کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ قرآن میں کائنات کے لیے آسمان کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ''سات کائناتوں‘‘ کی بجائے ''سات آسمانوں‘‘ کا ذکر ہوتا ہے۔ ''وزینا السماء الدنیا بمصابیح‘‘ اور ہم نے آسمانِ دنیا کو چراغوں (ستاروں) سے زینت دی۔ یہیں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کیپلر اور دوسری جدید ترین دوربینوں کی مدد سے آپ جہاں تک ستاروں اور کہکشائوں کو جلوہ گر دیکھیں گے، وہ آسمانِ دنیا ہے۔ وہ ہماری کائنات ہے۔
کرّہء ارض کی عمر چار ارب ساٹھ کروڑ سال ہے۔ اب 24ویں سیپارے کی سورۃ حم سجدہ میں آیت 9 سے 12 کے درمیان کیا لکھا ہے کہ کس طرح چار دن یعنی چار ارب سال میں کرّہء ارض میں ضروریاتِ زندگی جمع کی گئیں اور ہمارے پاس موجود شواہد کیا ہیں؟ یعنی کس طرح زمین بن جانے کے چار ارب سال کے بعد پیچیدہ زندگی کا آغاز ہوا، اسے بیان کرنے کے لیے ایک تفصیلی تحریر درکار ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ اس سے قبل زندگی نے فقط اتنا سفر طے کیا تھا کہ یک خلوی یعنی single cell سے وہ کثیر خلوی (multi cellular) کا روپ دھار سکی تھی۔ یہ آج سے ساٹھ کروڑ سال پہلے یعنی کرّہء ارض کی تخلیق کے عین چار ارب سال بعد کا دور تھا، جب وہ جاندار وجود میں آئے، سائنسی زبان میں جنہیں سادہ جانور (Simple Animals) کہا جاتا ہے۔ یہ حقائق میں نے کسی مذہبی مفکر نہیں بلکہ وکی پیڈیا سے لیے ہیں۔ آپ گوگل میں Time line of evolutionary history of life لکھ کر سرچ کیجیے تو سب سے اوپر آپ کو یہی صفحہ ملے گا۔
حٰم سجدہ کی ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بمشکل تمام جو حقائق تم نے ابھی ڈھونـڈ نکالے ہیں، میں بہت پہلے سے وہ جانتا ہوں۔ اس کے بعد تم میرا انکار کیسے کر سکتے ہو؟
قارئین! ماجرا آپ کے سامنے ہے۔ اب یہ فیصلہ آپ کا ہے کہ تلاوت تک محدود رہنا ہے یا علم حاصل کرنے کی غرض سے خدا کی کتاب اور اس کے پیمبرؐ کے ارشادات پر غور کرنا ہے۔ میں بہرحال یہی کہوں گا کہ کائنات کی ابتدا اور اس کے اختتام کے بارے میں آپ کو یہاں ایسے انکشافات ملیں گے، جدید تحقیق جن کے اثبات پر مجبور ہے۔ قرآن مجید کا اس سے بڑا معجزہ اور کیا ہو گا؟