"FBC" (space) message & send to 7575

خلائی تحقیق، ماضی اور حال

فلکیات دان پُرجوش ہیں ۔ اگلے چند برسوںمیں کائنات کے اسرار اورنظامِ شمسی سے باہر زندگی کی تلاش میں انہیں مثبت پیش رفت کی امید ہے۔ اس کا سب سے بڑا سبب ٹیکنالوجی میں تیز رفتار پیش قدمی ہے ۔ ایک چھوٹے سے سیارے کے محدود وسائل، محدود توانائی اور اپنی مختصر سی زندگیوں کے ساتھ ہم اس قابل نہیں کہ نظامِ شمسی سے باہر نکل کر براہِ راست اپنی آنکھ سے یہ سب دیکھ سکیں ۔ آدمی چاند پہ اتر سکا ہے اور اب مریخ کا منصوبہ ہے۔ جہاں تک مشینوں کا تعلق ہے ، چاند اورہمارے قریبی سیاروں عطارد اور زہرہ سے لے کر انہیں بیرونی مدار کے بے حد دور دراز سیاروں کی جانب روانہ کیا گیا۔نظامِ شمسی سے باہر کسی دوسرے سورج تک رسائی بہرحال ایک خواب ہے اور خواب ہی رہے گی۔ 
اس سلسلے میں دور، بہت دور تک دیکھنے والی ٹیکنالوجی ہی ہمارا واحد سہارا ہے ۔ اسی کی بنا پر کھوج لگاتے ہوئے ہم کئی سیارے رکھنے والے مشہور و معروف سورج گلیزا 581تک پہنچ سکے ۔ آج ہم 200نوری سال کے اندر اندر ہر سورج کو انفرادی طور پر جانتے ہیں۔ انہیں ہم دیکھ سکتے ہیں ، چھو نہیں سکتے ۔ اس لیے کہ انسان اسی زمین کے لیے بنایا گیا ہے ، جس میں وہ مقیم ہے ۔اس لیے کہ جہاں تک ہم دیکھ سکتے ہیں ، جسمانی طور پر وہاں جانے کے لیے ارب ہا ارب سال درکار ہیں۔ ہمارے بس کی یہ بات نہیں ۔ اس لیے آنکھ بھر کر کائنا ت کو اوپر سے نیچے تک دیکھنے پر ہی ہمیں اکتفا کرنا چاہیے ۔یہ بھی ایک بہت بڑی کامیابی ہے ۔ 
آج ہم اعلیٰ ترین دوربینوں کے مالک ہیں۔ ان میںکچھ ایسی بھی ہیں جو زمین کے مدار میں گھومتی ہیں ۔ ان میں سے ایک، ہبل ساڑھے تین سو میل کی اونچائی پر محوِ گردش اور دور دراز کی خبریں لے کر آتی ہے لیکن اب اگلے بڑے قدم (Next Giant Leap)کا وقت ہے ۔ جی ہاں ، 2018ء میں امریکی خلائی ادارے''ناسا‘‘کی ''جیمز ویب ـدوربین ‘‘۔ہبل اگر ساڑھے تین سو میل کی دوری پر جاسوسی میں مصروف ہے تو جیمز ویب ساڑھے 9لاکھ میل دور ہوگی ۔چاند سے بھی چار گنا دور۔
ظاہر ہے کہ خلا میں اس قدر دور وہ کرّئہ ارض کے بادلوں اور نا موافق موسم جیسی رکاوٹوں سے محفوظ ہوگی ۔ 21فٹ قطر کے اس کے شیشے اور انفرا ریڈ شعاعوں سے لیس ہونا ۔ قصہ مختصر یہ کہ جیمز ویب کی صورت میں انسان اس قدر دور اور اس قدر واضح طور پر جھانک سکے گا کہ ماضی میں اس کی کوئی مثال نہ ہوگی ۔ یہ دوربین کہکشائوں اور سیاروں کی پیدائش اور ان کے ارتقا کا جائزہ لے گی۔ یہ کائنات کے اوّلین ستاروں ، ا وّلین کہکشائوں کا سراغ لگائے گی ۔ سب سے بڑھ کر یہ سیاروں کی فضا میں ان گیسوں کا کھوج لگائے گی ، جو زندہ اجسام یعنی جانوراور پودے خارج کرتے ہیں۔انگریزی میں اسے کہیں گے Gasses in the atmosphere of a planet produced by life۔ 
د وسرے الفاظ میں زندگی کی کھوج میں جیمز ویب کا کردار کلیدی ہوگا ۔
اقوامِ عالم مجموعی طور پر خلا ئی تحقیق کے میدان میں 42ارب ڈالر خرچ رہی ہیں ۔اس میںقریب چالیس فیصد حصہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا ہے ۔امریکی خلائی ادارہ ''ناسا‘‘کائناتی تحقیق میں بنی آدم انسان کا لیڈر ہے۔ 
جیسا کہ ہم جانتے ہیں ، ماضی کا سوویت یونین اور امریکہ خلائی میدان ، بالخصوص چاند تک پہلے رسائی کے لیے ایڑیاں رگڑتے رہے۔ 1959ء میں خلا میں پہلا راکٹ روانہ کرتے ہوئے ، سوویت یونین نے برتری حاصل کر لی تھی ۔ امریکی بھی اپنی تگ و دو میں مصروف تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے بطن سے جن راکٹوں نے جنم لیا تھا، انہیں اب خلا میں روانہ کیا جاتا تھا اور یہ واضح تھا کہ جلد یا بدیر انسان کو چاند پہ قدم رکھنا ہے ۔ 
تودونوں عالمی طاقتیں پے درپے خلائی جہاز روانہ کرتی رہیں ۔ ا س سلسلے میں 1967ء کا ایک واقعہ نہایت عبرت انگیز ہے ۔جلد بازی میں سوویت یونین نے ایک ایسا خلائی مشن روانہ کیا، تکنیکی طور پر جس میں کئی خرابیاں تھیں ۔ خلاباز ولادی میرکوما روف کواس مشن پر روانہ ہونا تھا۔تکنیکی خرابیوں سے وہ اور اس کے دوست خلاباز واقف تھے اور وہ اپنے خدشات سامنے لاتے رہے ۔اس سلسلے میں خلائی کیپسول ڈیزائن کرنے والے انجینئروں سے ولادی میر کا جھگڑا بھی ہوا۔ بہرحال زمین سے اڑان بھرتے ہی خرابیاں سامنے آنا شروع ہوگئیں ۔ نقطۂ آغاز اس شمسی پینل کے کھلنے میں ناکامی تھی ، جس نے سورج کی روشنی سے توانائی حاصل کر نا تھی۔ ریاستی جبر کے سامنے مجبور خلاباز کی بدقسمتی کا نقطہ ء عروج وہ تھا،جب خلا سے واپس زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہوئے،رفتار کم کرنے والے پیراشوٹ کھلنے سے منکر ہو گئے ۔ نتیجتاً وہ اپنی پوری رفتار سے زمین سے آٹکرایا۔ ذرا اس اذیت کا اندازہ لگائیے ، جس سے آسمانوں کی بلندیوں سے گرنے والے اس آدمی کو تادیر گزرنا پڑا ہوگا۔
آخر میں ڈیڑھ دو فٹ کا ایک جلا ہوا جسم ہی وہ آخری نشانی تھی، جسے ولادی میر قرار دے کر آخری رسومات انجا م دی گئیں۔اس حادثے نے بہرحال سوویت یونین کوآئندہ کے لیے محتاط اور نتیجتاً خلابازوں کے لیے بہتری کا دروازہ کھولا۔ 
حال ہی میں عالمی نشریاتی اداروں نے خلا ئی دوڑ سے متعلق 1960ء کی دہائی کا ایک امریکی منصوبہ نہایت دلچسپی سے شائع کیا ہے ۔ امریکیوں نے خود ہی اسے ظاہر کیا ہے ۔ سوویت یونین سے نبرد آزما امریکہ چاند پر اپنی فوجی تنصیبات قائم کرنے پر غور کرتا رہا۔ ضرورت پڑنے پر وہاں سے زمینی اہداف کو نشانہ بنایا جانا اس کا ایک حصہ تھا۔ ممکنہ طور پر چاند پر جوہری دھماکے بھی۔ بہرحال کبھی یہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔
یہ تو خیر سرد جنگ کا قصہ تھا۔ آج بھی اقوامِ عالم کائناتی تحقیق میں ایک دوسرے سے اس طرح تعاون نہیں کرتیں ، جیسا کہ انہیں کرنا چاہیے ۔ ان کوششوں کو مربوط اور سرمایے کے درست استعمال کی ضرورت ہے۔آج جب امریکہ کا بھیجا ہوا روبوٹ'' کیوریاسی ٹی‘‘ مریخ پہ چہل قدمی کر رہا ہے،بھارت بھی اسی سیارے کی طرف راکٹ روانہ کرتاہے ۔ غالباً اپنے جینز میں موجود احساسِ کمتری کے خاتمے اور اقوامِ عالم میں خود کو نمایاں کر نے کے لیے ۔
بنی نوعِ انسان کو اگرتیز تر رفتار سے کائناتی تحقیق کی منازل طے کرنا ہیں تو ایک ایسا ادارہ تشکیل دینا ہوگا جوٹکڑوں میں خرچ ہونے والے 42بلین ڈالر سے اجتماعی طور پر بہتر کوشش کر سکے۔ سرمایہ اور توانائی محدود ہے ۔ اس کا ضیاع روکنا ہوگا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں