سکیورٹی کے اعتبار سے پاکستان کا مسئلہ افغانستان سے جڑا ہے اور بھارت سے بھی ۔ کئی محاذوں پہ مثبت پیش رفت کے باوجود انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے ۔
گزرے برسوں میں افغانستان میں بھارتی فوجی اثر و رسوخ آخری حد تک بڑھ گیا تھا۔2011ء میں دونوں ممالک نے سٹریٹجک پارٹنرشپ کا معاہدہ کیا تھا۔ من موہن حکومت نے افغانستان کو روس کی جانب سے فراہم کیے جانے والے دفاعی سازو سامان کا بل ادا کرنے کا ذمہ اٹھایا تھا ۔ ان برسوں میں افغان سکیورٹی اہلکار بھارت میں تربیت پا تے رہے اور پاک افغان سرحد کے قریب بجموتی قونصل خانے بلوچستان میں فساد کا سبب تھے ۔ پاک افغان سرحد پہ ہمیشہ سے جاری بڑے پیمانے کی غیر قانونی آمدورفت ختم کیے بغیر پاکستان میں امن کا خواب بھی دیکھا نہیں جا سکتا۔ اسی پسِ منظر میں بلوچستان کی افغانستان سے جڑنے والی قریب پانچ سو کلومیٹر طویل سرحد پہ خندق کھودنے کا نصف کام مکمل کر لیا گیاہے۔ افغانستان ، بالخصوص افغان اسٹیبلشمنٹ اس اقدام سے خوش نہیں ۔بہرحال نئی افغان حکومت سرحدوں کی نگرانی سمیت تمام سکیورٹی معاملات میں پاکستان کے ساتھ تعاون پہ مائل ہے ۔
عراق اور یمن کی سرحدوں پہ دہشت گرد گروہوں سے سعودی عرب کو خطرہ درپیش ہوا تو اس نے اپنی ہزاروں کلومیٹر طویل سرحدیں دیوقامت باڑ لگا کر بندکرنا شروع کر دیں ۔ یہ باڑ سنسر ،ریڈار اور کیمروں سمیت جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ہے۔ ہمارے بس کی یہ بات نہیں ۔ اسی لیے فوجی جوان اپنے ہاتھ سے خندق کھود نے کا مبارک فریضہ انجام دے رہے ہیں ۔
افغانستان سے آنے والی تازہ اطلاعات انتہائی اہم ہیں ۔ اٹھارویں سارک کانفرنس میں صدر اشرف غنی کا یہ جملہ انتہائی معنی خیز تھا''"اپنی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں گے ‘‘۔ افغانستان اور بھارت کی کوئی سرحد مشترک نہیں ۔ افغان سرزمین بھارت کے خلاف استعمال ہو ہی نہیں سکتی ؛البتہ نریندرا مودی کے بھارت میں اشرف غنی کا یہ جملہ بڑی مایوسی سے سنا گیا ہوگا۔ بھارت کے لیے دوسری بری خبر یہ ہے کہ نئی افغان حکومت روسی اسلحہ خریدنے اور بھارت کی طرف سے اس کی قیمت ادا کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی ۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ بھارت کی امریکہ کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربت کے پسِ منظر میں روس پاکستان کے ساتھ دفاعی اورکاروباری تعلقات بڑھانے پہ مائل ہے ۔امریکی و یورپی اتحاد اور روس کے درمیان کشیدگی بھی آخری حدوں پر ہے ۔ دنیا کے قریب
90فیصد سے زائد ایٹمی ہتھیار روکھنے والے روس اور امریکہ دونوں ہی اپنے جوہری اثاثوں کو اپ گریڈ کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں ۔ امریکہ اگلے دس برس کے دوران ان پر 355بلین ڈالر خرچ کرے گا۔ روس نے اگلے چھ برس کے دوران فوجی و جوہری اخراجات کے لیے کل 560بلین ڈالر کا اعلان کیا ہے ۔ ا س سب کے باوجود روس سے بڑھتے ہوئے پاکستانی روابط پہ امریکہ نے ابھی تک اعتراض نہیں کیا ۔کم از کم میرے لیے تو یہ حیرت انگیز ہے ۔
ایک اور مثبت خوشخبری یہ ہے کہ امریکہ افغان سرحدی علاقے میں روپوش تحریکِ طالبان پاکستان کو بڑے پیمانے پہ ڈرون حملوں کا نشانہ بنا رہا ہے ۔24نومبر کو ننگر ہار میں ایسے ہی ایک حملے میں ملّا فضل اللہ کے بمشکل بچ نکلنے کی اطلاعات ہیں ۔ امریکی کانگریس کی انٹیلی جنس کمیٹی کے رکن ایڈم شیف کے مطابق طویل عرصے کے بعد پاکستان اور امریکہ میں دفاعی تعاون فروغ پا رہا ہے ۔ اس لیے کہ امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ شمالی وزیرستان آپریشن سے افغانستان کے لیے مثبت نتائج پیدا ہوئے ہیں ۔ خود ہمارے لیے یہ کارروائی کس قدر اہم تھی ، ا س کا اندازہ اس سے لگائیے کہ غیر معمولی تاخیر اور بڑی تعداد میں عسکریت پسندوں کے فرار ہونے کے باوجود ملک میں دہشت گرد کارروائیاں بڑی حد تک کم ہوئی ہیں ۔کپتان کا اعلان البتہ یہ ہے کہ اختیار اس کے پاس ہوتا تو کبھی وزیرستان میں فوج داخل نہ ہوتی ۔ اندازہ خود ہی لگائیے کہ اس بیان کو کس طرح سنا گیا ہوگا۔
افغان آرمی اور ملّا عمر کے ''مجاہد‘‘ بڑے پیمانے پر ایک دوسرے کا جانی نقصان کر رہے ہیں ۔ کیاعالمی برادری ، بالخصوصی دنیا کی دوسری بڑی طاقت چین کی کوششیں رنگ لائیں گی اور دونوں کے درمیان معاملات طے ہو سکیں گے ؟ اگر ایسا نہ ہو سکا توبڑا سوال یہ ہے کہ کیا افغان آرمی قائم و دائم رہ سکے گی ؟ کیاافغان معاشرہ عسکریت پسندوں کے خلاف اسی طرح متحرک رہے گا، جیسا کہ 2014ء کے صدارتی انتخابات میں پرجوش طور پر وہ شریک ہوا۔ افغان فوج کی تربیت کے معاہدے کے بعد پاکستان اب اسے فوجی سازو سامان فراہم کرنے کی طرف بھی مائل ہے ۔
پاکستان کا امن افغانستان سے مشروط ہے اور افغانستان کا ہم سے ۔ ایسا لگتاہے کہ پاکستانی عسکری قیادت اور افغان حکومت کو یہ بات پوری طرح سمجھ میں آگئی ہے ۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے ، اپنی انا کی قربانی دیتے ہوئے، اس نے قدم پیچھے ہٹائے اور خطے کی سب سے بڑی قوّت چین سمیت علاقائی کھلاڑیوں کو مثبت کردار ادا کرنے کا موقع دیا ہے ۔ جہاں تک نئی افغان حکومت کا تعلق ہے ، وہ یہ بات سمجھ گئی ہے کہ پاکستان کی قیمت پر بھارت سے فوجی تعلقات اس کے لیے فائدے سے زیادہ نقصان کا سبب ہوں گے ۔ جہاں تک پاکستانی حکومت کا تعلق ہے ، اس کی توجہ عمران خان کے پیدا کردہ سیاسی چیلنج پر مرکوز ہے ۔
پاکستان کا امن بھارت سے مشروط ہے ۔گزرے برسوں میں ، بالخصوص پرویز مشرف کے دور میں مسئلہ کشمیر سمیت تمام معاملات پر آخری حد تک لچک دکھانے کے باوجود بھارت حکومت او رملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اس خوں ریز مسئلے کو حل کرنے کی کوشش نہ کی ، جس نے دونوں طرف کے ڈیڑھ ارب عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے ۔ نریندرا مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد شدید سرحدی جھڑپوں اور اب مقبوضہ کشمیر میں 11سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت سے ظاہر ہے کہ معاملات تیزی سے بگڑ رہے ہیں ۔