سٹیون ہاکنگ نے جب اپنی معرکتہ آرا کتاب "A brief history of time"لکھنا شروع کی تو ایک خیر خواہ نے اسے مشورہ یہ دیا کہ مشکل سائنسی اصطلاحات کی بجائے عام فہم زبان استعمال کی جائے۔سائنسی زبان میں دو اشیا کا باہمی ربط واضح کرنے کے لیے مساوات (Equation)استعمال کی جاتی ہے ۔ ہاکنگ کے دوست نے اس سے یہ کہا :کتاب میں ہر نئی مساوات شا مل کرنے سے اس کی فروخت آدھی رہ جائے گی ۔ سٹیون ہاکنگ اس سے قبل پیچیدہ اصطلاحات سے بھرپور ایک کتاب لکھ چکا تھا اور اسے معلوم تھا کہ مشورہ نیک نیتی پر مشتمل ہے ۔پھر بھی بریف ہسٹری آف ٹائم میں ایک مساوات شامل کیے بغیر وہ نہ رہ سکا۔ مادہ برابر ہے توانائی کے2) (e=mc ۔کتاب نے فروخت کے ریکارڈ توڑ ڈالے ۔ ہاکنگ نے شکر ادا کیا کہ البرٹ آئن سٹائن کی اس مساوات کی وجہ سے فروخت نصف نہ ہوئی۔
1905ء میں جب آئن سٹائن نے اپنی یہ مساوات دنیا کے سامنے پیش کی تو اسے اندازہ نہ تھا کہ عسکری ، جغرافیائی اور سیاسی اعتبار سے وہ دنیا بدلنے جا رہا ہے ۔ اس لیے کہ ایٹم بم کی بنیاد اسی پر رکھی گئی ۔ امریکہ سے قبل اگرسپرپاور جرمنی جوہری ہتھیار بنانے میں کامیابی حاصل کر لیتا تو یورپ سمیت دنیا کا نقشہ آج بہت مختلف ہوتا۔ یقینا چین کا پڑوسی جاپان آج بھی ایک بہت بڑی فوجی قوّت ہوتا۔
اگست 1939ء میں ایک بار پھر یہ آئن سٹائن ہی تھا، جس نے امریکی صدر روزویلٹ کے نام مشہور سائنسدانLeo Szilard کے خط پر اپنے دستخط ثبت کیے ۔جوہری ہتھیاروں میں تباہی کی بنیاد بننے والے چین ری ایکشن پر تحقیق جاری تھی ۔ دونوں سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ یہ عمل انتہائی خطرناک ہتھیاروں کی بنیاد بن سکتاہے ۔ امریکی صدر کو آئن سٹائن نے کہا کہ جرمنی یہ خطرناک ترین ہتھیار بنا سکتاہے اور امریکہ کو اس میدان میں تیز رفتار پیش قدمی کرنی چاہیے۔جوابی خط میں امریکی صدر نے نہ صرف تائید بلکہ اس اہم ترین معاملے پر توجہ دلانے پر شکر کے کلمات کہے۔
جارح جرمنی کے خوف سے قطع نظر، آئن سٹائن امن کے نظریے(Pacifism)کا قائل تھا؛چنانچہ امریکی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سکیورٹی کلیئرنس نہ ملنے کی وجہ سے اسے امریکی جوہری تحقیق میں شامل نہ کیا گیا۔بعد میں آئن سٹائن نے کہا کہ اسے اگر معلوم ہوتا کہ جرمن ایٹم بم بنانے میں کامیاب نہ ہوں گے اور اگر اسے معلوم ہوتا کہ امریکہ سول آبادی پر ایٹم بم گرا دے گا تو کبھی اس خط پر وہ دستخط نہ کرتا۔اس لحاظ سے اس کے بارے میں امریکی فوجی اسٹیبلشمنٹ کا فیصلہ درست ثابت ہوا ۔
دنیا میں آج چار مقامات پر جوہری جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔عرب اسرائیل تنازعہ،پاکستان بھارت،روس بمقابل نیٹو او ر کوریا امریکہ محاذ۔ سویت یونین کے انہدام کے بعد پہلی بار روس اب جوہری اور میزائل پروگرام پر بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری کررہا ہے ۔ یورپ اور امریکی سمندری و فضائی حدودکے قریب روسی آبدوزوںاور جنگی جہازوں کی آمدرفت بڑھتی چلی جا رہی ہے ۔ یہ معاملہ مغربی میڈیا اور امریکی ذرائع ابلاغ کی بھرپور توجہ کا مرکز ہے ۔ امریکہ اور وس کے وہ باہمی معاہدے اپنی مدّت ختم ہونے کے بعد اختتام پذیر ہو تے جا رہے ہیں ، جن کے تحت دونوں دور تک مار کرنے والے میزائلوں کی تیاری اوریور پ میں ان کی تنصیب سے اجتناب برتا کرتے تھے ۔ یورپی اور امریکی اتحاد معاشی پابندیوں کے اس جال میں روس کو مقید کرنا چاہتاہے ،ایران جس میں قید رہا اور اب رہائی پانے کے لیے دشمن کی شرائط تسلیم کرتا چلا جارہا ہے ۔ بہرحال دنیا کی دوسری بڑی ایٹمی ، فوجی اور اسلحی قوت ایران سے بہت مختلف ہے ۔ آج بھی جوہری ہتھیاروںمیں وہ دنیا کا دوسرا بڑا ذخیرہ رکھتاہے ۔ روس دنیاکا سب سے بڑا ملک ہے ۔اسلحے کی عالمی فروخت میں اس کا حصہ 27فیـصد ہے ۔
اسی قسم کی پابندیا ں شمالی کوریا پہ عائد ہیں ۔گزشتہ برسوں میں اپنے ایٹمی پروگرام سے دستبردار ی قبول کرنے کے بعد ایک بار پھر وہ پلٹ چکا ہے ۔ امریکہ کو تو خیر وہ نشانہ نہیں بنا سکتا لیکن خطے میں امریکی دفاعی تنصیبات کو بڑی تباہی سے دوچار ضرور کر سکتاہے۔ خطے میں امریکی اتحادیوں ، جاپان اور جنوبی کوریا کو وہ صفحہ ء ہستی سے مٹاسکتاہے ۔
مشرقِ وسطیٰ جوہری تباہی کے دہانے پہ کھڑا ہے ۔ عراق
اور شام سمیت خطے کے کئی ممالک خانہ جنگی ، کئی سیاسی عدم استحکام کا شکار ہیں ۔ اسرائیل میں دائیں بازو کے انتہا پسند پوری طرح حاوی ہیں ۔ حالیہ چند ماہ میں یورپ کے روّیے میں بڑی تبدیلی دیکھی جا سکتی ہے۔ یورپی یونین اب اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ عرب اسرائیل تنازعے میںصہیونی ریاست فساد کی جڑ ہے ۔ یورپ اب یہ بات پورے وثوق سے جانتاہے کہ یہ اسرائیل ہے ، جو امن نہیں چاہتا لیکن امریکی حمایت اب بھی اسرائیل ہی کے پلڑے میں ہے ۔ اور روس سے برسرِ جنگ یورپ کو فلسطین کی قیمت پر امریکہ سے علیحدگی کسی قیمت گوارا نہیں ہو سکتی ۔دوسری طرف اسرائیلی روّیے میں جارحیت کے ساتھ ساتھ اب مایوسی بھی جھلکنے لگی ہے ۔بہترین دفاعی ، میزائل او رایٹمی صلاحیت کے باوجود سات دہائیوں سے طاری دشمن کے خوف نے اس کی نفسیات کو بری طرح مجروح کیا ہے۔ جولائی کی پچاس روزہ جنگ کے دوران اینٹی میزائل پروگرام آئرن ڈوم نے حماس کے راکٹوں سے اسے تقریباً سو فیصد تحفظ فراہم کیا۔ بمباری سے 2200فلسطینی ضرور شہید ہوئے لیکن جنگ جیتنے کے لیے زمین پہ اترنا پڑتاہے ۔۔۔اور جیسے ہی یہودی فوجی غزہ کی پٹی میں داخل ہوئے ، ان میں سے 66جہنم رسید ہوئے۔یکم جنوری 2014ء سے اب تک 15اسرائیلی فوجی خودکشی کر چکے ہیں ۔ ان میں نمایاں تعداد جولائی 2014ء میں فلسطین پر حملہ کرنے والوں کی ہے ۔ یورپی حکومتوں کی طرف سے فلسطین کو تسلیم کرنے کی حمایت اور سلامتی کونسل میں فرانس کی طرف سے اسرائیل کے خلاف ووٹ پر تل ابیب کے ردّعمل میں جھنجھلاہٹ صاف دیکھی جا سکتی ہے ۔
پاک بھارت ایٹمی جنگ بعید از قیاس نہیں۔ بھارت نے کبھی پاکستان کا وجود کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا۔ بنگلہ دیش کے قیام میں اس نے کھل کے ایک بڑا کردار ادا کیا۔ شمالی وزیرستان آپریشن سے قبل ہی پاک فوج کے ڈیڑھ لاکھ جوان افغان سرحد پر تعینات تھے۔ افغانستان کے راستے پاکستان کو زچ کرنے کے علاوہ، بھارت نے بدترین دہشت گردی کے شکار پاکستان کی مشرقی سرحد پہ دبائو بڑھا رکھا ہے ۔ اس سب کے باوجود میں یہ کہوں گا کہ طاقتور میزائل او رایٹمی پروگرام اور بہترین تربیت یافتہ افواج کے ہوتے ہوئے بھارت کی براہِ راست جارحیت سے ہمیں خطرہ لاحق نہیں۔ جنگوں میں مصروف ریاستوں میں پاکستان واحد ملک ہے ، جس کے جوان صفر فیصد شرح ِ خود کشی کے حامل ہیں۔ صاف ظاہر ہے ایک مذہبی قائد کے برعکس، جنہوں نے تحریکِ طالبان سے مقابلے میں مرنے والے جوانوں کو شہید قرار دینے سے انکار کر دیا تھا، پاک فوج اس بارے میں کسی ابہام کا شکار نہیں ۔ ایک بلند تر مقصد کے لیے وہ برسرِ پیکار فوج ، جو کسی احساسِ جرم کا شکار نہیں ۔
اب جب کہ قومی اتفاق رائے ہو چکا‘ کسی کو بھی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ یہ ماضی کی غلطیاں ہی تھیں جن کا نتیجہ سانحہ پشاور کی صورت میں نکلا۔ اب بھی جن جن اداروں میں ایک شخص بھی طالبان جیسی سوچ کا حامل موجود ہے‘ وہ ادارے خود ایسے لوگوں کی نشاندہی کریں۔ یہ لوگ اندر کی اطلاعات دے کر بہت زیادہ نقصان پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔ ان کا قلع قمع اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ گھر کے بھیدی ہیں اور لنکا ڈھانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ یہ ہم جیسے ہیں اور ہمارے درمیان ہی گھومتے پھرتے ہیں۔ انہیں پہچاننا زیادہ مشکل نہیں۔ بس تھوڑی احتیاط اور ہوشیاری کی ضرورت ہے۔