"FBC" (space) message & send to 7575

غم

زندگی زخم لگاتی ہے۔ حالات سے آدمی سمجھوتہ نہ کرے تو خونخوار درندے کی طرح زمانہ اسے ادھیڑ ڈالتا ہے۔ 
بنی اسرائیل پہ آزمائش کی گھڑی کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا: اور جب ہم نے تمہیں آلِ فرعون سے نجات دلائی۔ وہ تمہیں اذیت ناک عذاب دیا کرتے۔ تمہاری اولاد کو ذبح کر ڈالتے اور عورتوں کو زندہ رکھتے۔ (کنیزیں بنا لیتے)۔ اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش تھی۔ ذرا سوچیے، اولاد قتل اور اہلیہ اغوا کر لی جائے تو باقی زندگی کس رنگ میں آدمی جیے گا۔ یہی بنی اسرائیل آج دنیا کی ظالم ترین قوم میں بدل چکے۔ مظلوم سے ظالم کا سفر کچھ زیادہ نہیں۔ 
نبی کریمؐ کی حیاتِ مبارکہ پہ غور کیجیے۔ حادثے پہ حادثہ۔ رحمِ مادر میں والد سے محرومی۔ کم سنی میں والدہ اٹھا لی گئیں۔ یتیمی پہ یتیمی۔ دادا فوت ہوئے۔ خدا کے حکم پہ نبوت کا اعلان کیا تو زمانہ بھوکے بھیڑیے کی طرح ٹوٹ پڑا۔ اہلِ مکّہ نے تذلیل کو شعار کیا۔ گلیوں بازاروں میں تضحیک کی جاتی، گند اچھالا جاتا۔ جوان عمری میں محبوب رفیقہء حیات رخصت ہوئیں۔ اسی برس چچا ابو طالب وفات پا گئے۔ ایسا گھائو لگا کہ اس برس کو غم کا سال قرار دیا۔ لختِ جگر نے دم توڑا اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ یہ زندگی ہے محبوبِ خالقِ کائنات اور وجہء تخلیق کی۔
زندگی آزمائش ہے، مسلسل آزمائش۔ اسرائیلی بمباری سے خاک و خوں میں نہاتے بچوں کے ورثا ہوں یا سانحہء پشاور کے شکار۔ ملکی تاریخ کے ایک کامیاب اور نامور ترین سرکاری افسر کی ہیبت سے زمانہ کانپتا تھا۔ بیٹی پیدا ہوئی تو ذہنی طور پر معذور۔ ڈاکٹروں نے بتایا: دماغ تشکیل دینے والے جینز میں ایک خرابی ہے۔ خاندان میں شادی کرنے والے بعض افراد کی اولاد میں ایسے نقائص کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ ہے زندگی کا ایک خطرناک، رلا دینے والا موڑ۔ تقدیر سے کون لڑ سکتا ہے۔ 
یہ جہانگیر صاحب ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا جگر گوشہ ذہنی بیماری کا شکار۔ ایک سالہا سال مرگی کے بدترین دوروں کی زد میں۔ خود کو سنبھالنے سے بھی وہ قاصر ہیں۔ بیٹی پیدا ہوئی اور بیماری کے ہاتھوں دم توڑ گئی۔ جہانگیر صاحب نے کام کاج چھوڑا اور اولاد کو سنبھالنے لگے۔ تیس برس کا جوان بیٹا آج بھی ان کے بغیر سو نہیں سکتا۔ کھانا وہ ان کے ہاتھ سے کھاتا ہے۔ ایک دن کہنے لگے ''جو کچھ اللہ نے دے رکھا ہے، وہ خرچ کر رہا ہوں۔ جب ختم ہو جائے گا تو وہی مالک ہے۔‘‘
ممتاز بی بی کئی گھروں میں کام کرتی ہے، تب جا کے بچوں کا پیٹ بھرتا ہے۔ شوہر مرگی کا مریض۔ ایک بار اینٹیں اٹھاتے جو گرا تو پوری دیوار ڈھے گئی۔ ایسے آدمی کو کون کام دے، جو ایک مستقل ذمہ داری بن جائے۔ تو واجد علی تیس برس تک اپنے گوشت کے جسم پر مرگی کے برقی دورے برداشت کرتا رہا۔ پیروں فقیروں اور حکیموں سے علاج معالجہ اس کے کس کام آتا، جو انسانی ذہن کی ابجد بھی جانتے نہیں۔ ایک بار گائوں کے ایک ''روحانی پیشوا‘‘ کے حضور اسے لے جایا گیا۔ بابا جی نے اس کے گرد ایک دائرہ کھینچا، ہاتھ میں ڈنڈا اٹھایا اور یہ کہا: اس سے باہر نہ نکلنا۔ ڈنڈا پڑے گا تمہارے جسم پر، ضرب اس جن کو لگے گی، جو دماغی دوروں کا باعث ہے۔ میٹرک فیل سہی لیکن اتنی عقل بہرحال وہ ضرور رکھتا تھا کہ پیشگی شکریہ ادا کرتے ہوئے وہاں سے بھاگ نکلا۔ اب ادھیڑ عمری میں پہلی بار ڈاکٹر ملک حسین مبشر سے وہ علاج کرا رہا ہے۔ کئی ماہ گزر چکے، دورہ نہیں پڑا۔ 
اور یہ لطیف ہے۔ خاندانی تنازعے پر قتل کر کے اشتہاری ہوا۔ دربدر کی ٹھوکریں کھائیں۔ خدا خدا کر کے صلح ہوئی تو ایک سکیورٹی کمپنی میں گارڈ بھرتی ہو گیا۔ شام چھ سے صبح چھ بجے تک سامنے بنچ پہ بیٹھا رہتا اور ماہوار دس ہزار روپے پاتا ہے۔ کل منہ بسور رہا تھا کہ میرا لختِ جگر پڑھتا نہیں‘ جب آپ کے بچوں کا دل بھر جائے اور کھلونا لیپ ٹاپ وہ پھینک دیں تو مجھے دیجیے گا‘ شاید میرا بیٹا اے بی سی سیکھ جائے۔ 
اور سٹیون ہاکنگ؟ کالج کے دوران وہ ایک گھڑ سواری سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ پھر پچاس سالہ خوفناک معذوری سے اسے واسطہ پڑا‘ لیکن اپنے میدان کا وہ سب سے بڑا شہسوار بنا۔ طبیعیات میں آئن سٹائن کا جانشین، کیمبرج یونیورسٹی میں نیوٹن کی نشست۔ گال کے ایک مسل کے سوا، جسم کے کسی حصے کو وہ حرکت نہیں دے سکتا۔ بول نہیں سکتا، کھا نہیں سکتا۔ اسی پھڑپھڑاتے ہوئے گال کے ساتھ کمپیوٹر کی مدد سے وہ یہ کہتا ہے: آج میں اس سے زیادہ خوش ہوں، جتنا اس خوفناک معذوری سے پہلے تھا۔ ہر حال میں کوشش کے سوا ہم انسانوں کے پاس کوئی اور راستہ نہیں۔کوئی نہیں۔ اور کوئی راستہ ہے ہی نہیں۔ جس رنگ میں زندگی آپ پہ حملہ آور ہوتی اور جن حالات سے ہمیں واسطہ پڑتا ہے، ان سے لڑنا ہوتا ہے۔ ہر حال اور ہر صورت میں لڑنا ہوتا ہے۔ ہمارے بس میں کچھ بھی نہیں۔ آدمی اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کا انتخاب کرنے میں آزاد نہیں۔ ماں کے پیٹ میں اور زندگی کے ابتدائی برسو ں میں آپ کے دماغی خلیات (نیورون) کس ترتیب سے ایک دوسرے سے جڑتے ہیں، اس پر آپ کی ساری زندگی، آپ کے طرزِ فکر اور طرزِ عمل کا انحصار ہوتا ہے۔ دماغی خلیات کے یہی روابط کسی کو صوفی اور کسی کو ڈاکو بنا دیتے ہیں۔ یہ خالصتاً ایک قدرتی سائنسی عمل ہے، جس میں مداخلت ہمارے بس میں نہیں۔ خیال غیب سے دماغ میں اترتا ہے۔ قرآن میں لکھا ہے: تم کچھ چاہ بھی نہیں سکتے مگر یہ کہ اللہ رب العالمین چاہے۔
دنیا کچھ ہے، نظر کچھ اور آتی ہے۔ میں، آپ، ہم سب ایک مصنوعی دنیا میں جی رہے ہیں۔ ایک تجربہ گاہ میں ہمارے طرزِ عمل کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ انسانی آنکھ پل بھر میں اپنے سامنے کی سینکڑوں اشیا کا ڈیٹا جس رفتار اور جس انداز سے دماغ کی طرف بھیجتی اور پلک جھپکنے میں جس طرح وہ اس کا تجزیہ کرتے ہوئے فیصلہ سازی کرتا ہے ، اس کا مطلب صرف ایک غور و فکر کرنے والا ذہن ہی جان سکتا ہے۔ 
غم سے بات شروع ہوئی اور کتنی طویل ہو گئی۔ آج اس دل کو زخم لگا ہے مگر میں سوچتا ہوں کہ اس سے آگے بھی ربّ کائنات نے کچھ لکھا ہو گا۔ یہ خدا کا فرمان ہے: تمہیں صبر کیسے آئے، تم علم جو نہیں رکھتے۔ 
ہمیں صبر کیسے آئے، ہم علم جو نہیں رکھتے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں