"FBC" (space) message & send to 7575

حقیقت

کس تیزی سے یہ خطہ تبدیل ہوا ہے ۔ تیرہ سالہ افغان جنگ کے دوران دوسری بڑی عالمی طاقت چین مکمل طور پر لا تعلق رہی۔ اب وہ افغانستان میں ایک بڑے فریق کے طورپر متحرک ہے ۔ افغان طالبان اوراشرف غنی حکومت کے درمیان جن مذاکرات کا تذکرہ ہے ، ان میں اس کا بھی ایک بڑا کردار ہے ۔ایک وجہ تو واضح ہے ۔ پاکستان اور افغانستان کے قریب واقع صوبے ژن جیانگ میں ایغور النسل باشندوں کی علیحدگی کی تحریک ،ایسٹ ترکستان''اسلامک ‘‘ موومنٹ۔یقینا سیاسی اور اقتصادی وجوہ بھی چینی قیادت کے پیشِ نظر رہی ہوں گی۔ یوں عالمی منظر نامے اور بالخصوص خطے میں تیزی کے ساتھ وہ اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی طرف مائل ہے ۔ بھارت اس کی پیروی کی اپنی سی کوشش رہا ہے ۔ حوالے کے طور پر ملاحظہ ہو 16فروری کا بھارت سری لنکا جوہری معاہدہ ۔ حالیہ مہینوں میں بحیرئہ ہند میں آسٹریلیابھارت تزویراتی تعاون میں اضافہ ہوا ہے ۔ ادھرامریکہ آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ بحری تعلقات میں تیز رفتار اضافہ کر رہا ہے ۔ اس تمام جدوجہد کا ہدف ایشیا میں چین کے برّی اور بحری اثر و رسوخ کو کم کرنا ہے ۔ خطے میں بھارت کو ایک بڑا کردار سونپتے ہوئے، جس طرح امریکہ چین کو محدود کرنا چاہتاہے ،شاید اسی طرح پاکستان کے ساتھ اشتراک سے چین بھارت کو ۔
640ارب ڈالر کے دفاعی بجٹ کے ساتھ صرف امریکہ ہی عسکری عالمی قوّت ہے یا ماضی میں قائم کردہ اپنی قوّت کے بل
پر کسی حد تک روس۔ 190ارب ڈالر کے ساتھ دوسرے نمبر پر چین ہے ۔ بھارت کے لیے ڈوب مرنے کا مقام یہ ہے کہ محض 7ارب ڈالر کا دفاعی بجٹ رکھنے والا پاکستان اس کے لیے لوہے کا چنا ہے۔ جن مختصر مالی وسائل کے ساتھ پاکستانی فوج مشرق سے مغرب تک پھیلے خطرات اور ملک بھر میں پھیلے دہشت گردوں کا مقابلہ کر رہی ہے ، کوئی دوسری مثال اس وقت دنیا کے کسی خطے میں موجود نہیں ۔معاشی طور پر امریکہ سے نصف حجم رکھنے والے چین کو آپ دوسری اقتصادی عالمی قوّت کہہ سکتے ہیں ۔ بھارت کا نمبر دسواں ہے ۔چینیوں کا خمار سمجھ میں آتاہے ، بھارت کا نہیں ۔ ہمیشہ اپنے کردار کو وہ بڑھا چڑھا کر پیش کرتاہے ۔ جون 2013ء میں دوہا کے جن طالبان امریکہ مذاکرات کو کرزئی حکومت نے سبوتاژ کیا تھا، بھار ت کرسی سر پہ اٹھائے ان میں شرکت کا باقاعدہ مطالبہ کرتا رہا تھا۔ افغانستان کی کوئی سرحد اس سے نہیں ملتی ۔ عسکری طور پر بھارت نہیں ، پاکستان 13برس تک اس جنگ میں شریک رہا ہے ۔
یوکرائن کے تنازعے اور دولتِ اسلامیہ کے فساد نے عالمی منظر نامے پر افغانستان کی اہمیت کم کر دی ہے ۔ بہرحال چین کی شراکت کے بعد افغان سرزمین کے معاملات سدھارنے کا یہ ایک سنہری موقع ہے ۔ احتیاط لازم ہے لیکن پاکستان کو بہرحال پیش قدمی کرنی چاہیے۔ جہاں تک افغان طالبان کا تعلق ہے ، دو ہی صورتیں ہیں ۔ یا تو اقتدار میں انہیں شراکت دی جائے یا مکمل خاتمہ ۔ یہ صلاحیت امریکہ کے پاس ہے اور نہ صدر اشرف غنی کی حکومت اس کی استعداد رکھتی ہے ۔ افغان آرمی کی طرف سے جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق اگرچہ جہاں طالبان سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہے ہیں ، وہیں افغان آرمی اور پولیس بھی انہیں بڑے جانی نقصان سے دو چار کر رہی ہے ۔ تیسرا حل یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پیش کردہ منصوبے کے مطابق پاک افغان سرحد پہ غیر قانونی آمدورفت بند کی جائے ۔ باڑ کے ساتھ ساتھ بارودی سرنگیں بھی ۔ امریکی مائل تھے ، سخت گیر اور ضدّی حامد کرزئی نے یہ ہونے نہ دیا وگرنہ پاکستان اور افغانستان میں سکیورٹی کے بہت سے مسائل ہمیشہ کے لیے حل ہو جاتے ۔
جہاں تک مارشل لا لگانے اور حکومت کرنے کا تعلق ہے ، جنرل مشرف کی حمایت کوئی احمق ہی کر سکتاہے ۔ ادھر یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ قبائلی علاقوں میں فوج بھجوانے کا فیصلہ سو فیصد درست تھا۔ یہ اقدام اگر نہ کیا جاتا تو معاملات فوج کے ہاتھ سے بھی نکل چکے ہوتے اور دعوے سے میں کہتا ہوں کہ صورتِ حال کو قریب سے دیکھنے والا کوئی بھی شخص یہی فیصلہ کرتا۔ جنرل مشرف کے غیر اعلانیہ اتحادیوں ، بالخصوص مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں قائم متحدہ مجلسِ عمل کی حکومت نے قومی سلامتی کے معاملات میں ملک کو سخت نقصان سے دوچار کیا۔ اسی دور میں سوات اور وزیرستان سمیت قبائلی علاقوں میں تباہی کی بنیاد رکھی جا رہی تھی ۔
بہرحال پاکستانی فوج جنرل مشرف کے دور ہی سے ایک سوچے سمجھے منصوبے پر عمل پیرا ہے ، جس کے تحت قبائلی علاقے سمیت ملک بھر میں دہشت گردوں سے وہ نبرد آزما ہے ۔جنرل اشفاق پرویز کیانی کے دور میں جنوبی وزیرستان اور بالخصوص سوات کی کارروائی ایک بہت بڑی جنگی فتح تھی ۔ شمالی وزیرستان آپریشن کے مطالبے پر ہر بار جنرل کیانی کاموقف یہی تھا کہ مناسب وقت پر فوج وہاں جائے گی۔ بڑی اچھی طرح پوری عسکری قیادت یہ بات سمجھتی تھی کہ شمال کا صفایاکیے بغیر امن ممکن نہیں ۔ دوسری طرف گمراہی پھیلانے والوں نے اس آپریشن کو قوم کی زندگی اور موت کا مسئلہ بنا دیا تھا۔
ملالہ یوسف زئی کا واقعہ پیش آیاتو سوشل میڈیا پر ان پیغامات کی بارش ہو رہی تھی کہ یہ ایک ڈرامہ ہے ، جو شمالی وزیرستان آپریشن کی راہ ہموار کرنے کے لیے رچایا گیا ۔ زمینی صورتِ حال یہ تھی کہ پاک امریکہ فوجی تعلقات شدید کشیدگی کا شکار تھے ۔ دنیا بھر میں مارے جانے والے بچوّں اور عورتوں کی تصاویر ان پیغامات کے ساتھ ایک دوسرے کو ارسال کی جاتیں کہ یہ شمالی وزیرستان میں ڈرون حملوں کا ہدف ہیں ۔ کیا کسی کو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہزاروں ڈالر مالیت کے میزائلوں سے بے گناہ افراد کو نشانہ بناتے ہوئے امریکہ اپنے خلاف نفرت کی فصل اگا رہا تھا؟ ادھر جماعتِ اسلامی اور عمران خان کی طرف سے پیش کیاگیا اور بڑی حد تک قابلِ قبول نظریہ یہ تھا کہ قبائلی علاقوں سے فوج کو نکالتے ہوئے امریکی جنگ سے لا تعلقی اختیار کر لی جائے تو فوراً ہی ملک میں امن قائم ہو جائے گا ۔الامان ، الحفیظ!
حاصلِ گفتگو یہ ہے کہ سکیورٹی کے معاملات کو سیاست سے الگ رکھیے ۔ بالخصوص وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ایک کے حق میں کلمۂ خیر کہنے کے لیے دوسرے کو پتھر مارنا ضروری ہے ، اپنے روّیے پر نظرِ ثانی کریں ۔ وہ ایک غلط روایت کی بنیاد ڈال رہے ہیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں