"FBC" (space) message & send to 7575

خود اپنی آنکھ سے

عربی محاورے کے مطابق وقت ایک کاٹتی ہوئی تلوار ہے لیکن اس کی اصلیت کیاہے ؟ اسے ہم چھو نہیں سکتے ، دیکھ نہیں سکتے ۔ پھر بھی اس کا وجود شک و شبہے سے بالاتر ہے ۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دو واقعات کے رونما ہونے کا درمیانی عرصہ وقت کہلاتاہے ۔ وقت کی موجودگی کا ایک ثبوت ہمارے استعمال کی اشیا اور خود ہمارے اپنے اجسام کا بوسیدہ ہو جانا ہے ۔ وقت گزرتاہے تو جوانی سے ہم بڑھاپے کا رخ کر لیتے ہیں ۔ ایک نئی گاڑی کھڑی بھی رہے تو بوسیدہ ہو جاتی ہے ۔ چاند کو زمین کے گرد ایک چکر پورا کرنے کے لیے ایک خاص مدّت درکار ہے اور سورج کو کہکشاں کے گرد گھومنے کے لیے بھی ۔
سائنس کے مطابق آغازِ کائنات کی بنیاد بننے والے عظیم دھماکے ''بگ بینگ ‘‘سے وقت اور مادے (Time and Space)کی شروعات ہوئی تھیں ۔ا س سے قبل نہ تو کوئی مادہ تھا اور نہ ہی وقت اپنا وجود رکھتا تھا۔ اسی پسِ منظر میں مشہورِ عالم سائنسدان سٹیون ہاکنگ نے ایک مضحکہ خیز بات کی۔ خدا کے وجود کے بارے میں سوال کیا گیا تو ہاکنگ نے یہ کہا: بگ بینگ سے پہلے وقت جب تھا ہی نہیں تو خدا کے پاس وہ وقت کہاں سے آیا ، جس میں وہ کائنات تشکیل دیتا۔
1927ء میںGeorges Lemaitreنے پہلی بار ایک نظریہ پیش کیا۔ اس نے کہا کہ یہ پھیلتی ہوئی، وسعت پذیر کائنات شروع میں کسی واحد نقطۂ آغاز، کسی مختصر سی جگہ تک محدود ہوگی ۔ دو برس بعد ایڈون ہبل نے مشاہدہ کیا کہ کہکشائیں تو بڑی برق رفتاری سے ایک دوسرے سے دور بھاگ رہی ہیں ، جیسے کسی دھماکے نے انہیں اس پر مجبور کر دیا ہو ۔ 1964ء میں مخصوص قسم کی شعاعوں اور لہروں (Radiation)کی صورت میں کائنات کے رگ و پے پر نقش وہ حتمی ثبوت ڈھونڈ لیے گئے جو اس عظیم دھماکے بگ بینگ پر مہرِ تصدیق ثبت کر تے تھے۔
سائنسی دنیا اس نتیجے پر پہنچی کہ اس دھماکے سے قبل تمام سیارے اور تمام سورج ، کائنات کی ہر شے اورہر عنصر ایک جگہ پر اکٹھے تھے۔ مادے کی مختلف اقسام ، جن سے یہ دنیا بنی ہے ،انتہائی مختصر جگہ پر نہایت کثیف اور گرم حالت میں موجود تھیں۔ اس بات کو یوں سمجھیے کہ روئی کے مقابلے میں لوہا اس لیے وزنی ہے کہ اس کے ایٹم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے نہایت قریب قریب واقع ہوتے ہیں ۔ ایک سورج اپنا تمام ایندھن جلانے کے بعد جب موت کی طرف بڑھتاہے تو ابتدا میں وہ تیزی سے پھیلتاہے ۔ پھر وہ ٹھنڈا ہو کر اس قدر سکڑ جاتاہے کہ اگر اس کے ایک چمچ مواد کا وزن کیا جائے تو وہ ٹنوں وزنی ہوگا ۔
مادہ یعنی وہ تمام عناصر جن سے یہ کائنات بنی ہے اور جس کا ہم روزمرہ زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں ، اس کا آغاز بھی بگ بینگ ہی سے ہوا تھا۔ پانی ، آکسیجن ، ہائیڈروجن، لوہا، فاسفورس، غرض کائنات ، بشمول ہماری اس زمین اور خود ہمارے اجسام کے اندر موجود عناصر بھی اسی دھماکے کے بعد رفتہ رفتہ وجود میں آئے تھے ۔ بگ بینگ کے نتیجے میں کائنات کاسب سے ہلکا اور سب سے وافر عنصر ہائیڈروجن گیس وجود میں آئی تھی ۔ کائنات میں موجود تمام ستارے (سورج) اسی ہائیڈروجن کی جلتی ہوئی گیندیں ہیں ۔ سورجوں کے مرکز میں یہ ہائیڈروجن جل کر ہیلیم گیس میں بدلتی ہے ۔ ہیلیم سے پھر آکسیجن، کاربن اور دوسرے بھاری عناصر بنتے ہیں ۔ ستارے کی موت کے دوران شدید ترین درجہ ء حرارت اور دبائو کے تحت جو دھماکے ہوتے ہیں ، ان میں لوہے جیسے بھاری ترین عناصر وجود میں آتے اور کائنات میں بکھر جاتے ہیں ۔ یہاں مذہبِ اسلام کا دلچسپ رخ دیکھیے کہ کتنے بڑی سائنسی حقیقت کس قدر سادہ الفاظ میں بیان کر دی جاتی ہے ۔
''کیا میرا انکار کرنے والوں نے دیکھا نہیں کہ آسمان اور زمینیں جڑی ہوئی تھیں ۔ پھر ہم نے انہیں پھاڑ کر جدا کر دیا ‘‘۔ سورۃ الانبیا ۔ آیت 30۔
و انزلنا الحدید۔ سورۃ الحدید آیت 25۔ اور ہم نے لوہا نازل کیا۔
1500برس قبل خدا کے سوا کون یہ بات اس قدر اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا تھا کہ لوہا زمین پر نازل کیاگیا۔اس کے سواکون جانتا تھا کہ یہ زمین کے اندر نہیں بلکہ کسی بہت بڑے سورج کے مرکز میں پیدا ہوا ہے ۔
''اور آسمان کو ہم نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور ہم ہی اسے پھیلا رہے ہیں‘‘ ۔ سورۃ الذاریات ۔ آیت 47۔
بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ مذہب اور سائنس کو جدا رکھنا چاہیے ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ خدا بعض سائنسی حقائق بیان کرنا چاہے تو اسے کون روک سکتاہے ۔ یہاں جو آیات میں نے نقل کی ہیں ،ان میں بہت بڑے سائنسی بیانات (Statements)موجود ہیں ۔
لطف کی بات یہ ہے کہ اصحابِ کہف سمیت، کم از کم دوواقعات قرآنِ کریم میں درج ہیں ، جہاں کچھ لوگوں پر وقت اس انداز سے گزرتاہے کہ انہیں نقصان پہنچائے ، انہیں بوڑھا اور بوسیدہ کیے بغیر ان پر سے چپ چاپ گزرجاتاہے ۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ وقت ہے کیا؟ صحیح بخاری حدیث نمبر4826، صحیح مسلم حدیث 2246میں درج ہے ۔ حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے : نبی کریمؐ نے فرمایا: ''اللہ فرماتاہے کہ آدم کی اولاد اس وقت مجھے تکلیف پہنچاتی ہے جب وہ زمانے کو برا کہتی ہے ؛حالانکہ زمانہ تو میں ہی ہوں ۔ میرے ہی قبضہ ء قدرت میں تمام امور ہیں ۔ رات اور دن کو میں ہی تو گردش دیتا ہوں‘‘ ۔ تو کیا وقت خدا ہی کی ایک خصوصیت (Property)ہے ؟ کیا یہ اسی کے وجود کا حصہ ہے ؟ ؟؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ بگ بینگ کے بعد پیدا ہونے والی ہائیڈروجن گیس کا ماخذ کیا تھا؟ بعد میں جس سے کائنات میں موجود تمام عناصر نے رفتہ رفتہ جنم پایا؟
پروفیسر احمد رفیق اختر کے الفاظ میں ، کائنات کی ابتدا سمیت مختلف موضاعات پر سائنس آپ کو کنفیوژ دکھائی دے گی ۔ وہ بہت سے امکانات Possibilitiesکا ذکر کرے گی کہ یوں بھی ہو سکتاہے اور یوں بھی ۔ دوسری طرف خدا آپ کو ایک ایک حتمی اور پختہ رائے دے گا۔ آئیے خود اپنی آنکھ سے قرآن اور حدیث کو پڑھیں اور لطف اٹھائیں !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں