ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس سے شروع ہونے والی کہانی رینجرز کے نائن زیرو پر چھاپے اور چوہدری نثار علی خان کی برطانوی ہائی کمشنر سے ملاقات کے بعد منطقی انجام کی طرف بڑھتی نظر آرہی ہے ۔ اس دوران ولی بابر کے قاتل فیصل موٹا اور زہرہ شاہد قتل کیس کے ملزم کلیم کی گرفتاری، صولت مرزا اور عمیر صدیقی کے انکشافات سمیت سنسنی خیز واقعات پیش آئے ہیں ۔ ایم کیو ایم کے 8اہم رہنمائوں کی بیرونِ ملک روانگی پر پابندی نے بھی صورتِ حال واضح کر دی ہے ۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے مسئلے پر شریف حکومت کا وزن عسکری قیادت کے پلڑے میں محسوس ہوتا ہے۔ تبھی تو برطانوی ہائی کمشنر کو نائن زیرو پر چھاپے کے نتائج اور الطاف حسین پر قائم مقدمے سے آگاہ کیا گیا۔ عمران فاروق قتل کیس کی پیروی کو حکومتِ پاکستان کا فرض قرار دینے سے یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ آئی ایس آئی کی تحویل میں موجود دو ملزمان کی برطانوی پولیس تک مکمل رسائی میں کوئی رکاوٹ اگرموجود تھی تو وہ اب ختم ہو جائے گی۔
جناب الطاف حسین برطانیہ میں زیرِ تفتیش نہ ہوتے تو صورتِ حال ایم کیو ایم کے لیے اس قدر ناسازگار نہ ہوتی۔ حالات کا دھارا اس جماعت کے خلاف بہہ رہا ہے اور اس کا وجود ہی اب خطرے میں محسوس ہوتا ہے ۔ بقا کی جنگ میں متحدہ کو سلامت گزرنا ہے تو اسے بڑے تلخ اور سخت فیصلے کرنا ہوں گے ۔ اعلیٰ قیادت سمیت ، ہر اس افراد کی قربانی ، پارٹی کے لیے جو بوجھ ہے۔ یہ مشکل لگتاہے کہ ایم کیو ایم ایک فرد کے وجود پر قائم جماعت ہے ۔ دوسرے درجے کی وہ قیادت اس میں موجود نہیں ، ہنگامی صورتِ حال میں جو رہنمائی کا فرض ادا کر سکے ۔
ادھر سیاسی طور پر خطرہ بڑھتا چلا جا رہا ہے ۔ 2013ء کے انتخابات میں صورتِ حال یہ تھی کہ عین پولنگ کے دوران جماعتِ اسلامی نے بائیکاٹ کر دیا تھا۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد کو یہ کہنا پڑا کہ کراچی میں شفاف الیکشن کرانے میں وہ ناکام رہے ۔ اس ساری صورتِ حال کے باوجود ایم کیو ایم کے گڑھ حلقہ این اے 245 سے تحریکِ انصاف کے امیدوار ریاض حیدر نے 54ہزار ووٹ حاصل کر لیے تھے ۔ اس پسِ منظر میں اسمبلیوں میں استعفے جمع کرادینے کے باوجود نبیل گبول کے خالی کردہ حلقہ این اے 246سے الیکشن لڑنے کا اعلان تحریکِ انصاف کا نہایت دانشمندانہ اقدام ہے۔ کپتان زور و شور سے تحریک چلائے تو نوجوانوں میں مقبولیت کے بل پر پی ٹی آئی یہاں سے جیتنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے ۔ اس صورت میں کراچی کی انتخابی سیاست ہمیشہ کے لیے بدل کے رہ جائے گی اور تین دہائیوں سے قائم ایک جماعت کی مضبوط گرفت سے وہ نکل جائے گا۔اپنے پتّے درست طور پر کھیلے تو سب سے بڑھ کر تحریکِ انصاف ہی ایم کیو ایم کا خالی کردہ خلا پُر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے‘ بالخصوص اس صورت میں جب پختون خوا حکومت میں اس کی اتحادی جماعتِ اسلامی کراچی میں بھی اس کی ہم نوا ہو ۔
یہ نہیں کہ جرائم پیشہ افراد صرف ایم کیو ایم ہی میں شامل ہیں ۔ کراچی بدامنی کیس میں سپریم کورٹ یہ قرار دے چکی ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ اے این پی اور پیپلز پارٹی بھی شریکِ جرم ہیں ۔ بھتہ وصولی باقاعدہ صنعت اور کاروبار کی شکل اختیار کر چکی اور ان سب جماعتوں کے لیے یہ سرمایے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شہر سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کی 80فیصد نمائندگی رکھنے والی ایم کیو ایم اس کھیل کی سب سے بڑی کھلاڑی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ رینجرز کا سب سے بڑا نشانہ بھی وہی ہے ۔اے این پی اور پیپلز پارٹی نے مسلّح دھڑے بہت بعد میں تشکیل دیے ۔ اب بھی اس قدر طاقتور وہ بہرحال نہیں ۔
طویل عرصے کے بعد پہلی بار کراچی میں امن کی امید نہایت توانا ہے ۔ پاکستانی معیشت بڑی حد تک دو کروڑ آبادی کے اس شہرپر منحصر ہے ؛لہٰذا امن کے قیام سے قومی مالی صورتِ حال پر بڑے خوشگوار اثرات مرتّب ہوں گے ۔ پہلی بار فوجی ادارے رینجرز کے ہاتھ وہاں تک پہنچے ہیں ، جہاں سول سکیورٹی ادارے بے بس تھے ۔اس کا سہراموجودہ اور سابق عسکری قیادت کے سر ہے ۔ جنرل راحیل شریف اور سندھ رینجرز کے موجودہ سربراہ جنرل بلال ہی نہیں ، آئی ایس آئی کے چیف جنرل رضوان جب سندھ رینجرز کے سربراہ اور جنرل کیانی جب آرمی چیف تھے،تبھی سے فوجی ادارہ پوری توانائی سے ان تیاریوں میں مشغول تھا۔ یہ الگ بات کہ مشکل وقت میں ایم کیو ایم کو اقتدار میں شراکت کی پیشکش کرنے والے آصف علی زرداری کی حکومت تب ایک بڑی رکاوٹ تھی۔ اس کے باوجود مجھے یاد ہے کہ جن جرائم پیشہ افراد کو پکڑا جاتا، سوشل میڈیا پر ان کے اعترافِ جرم کی ویڈیوز جاری کی جاتیں۔ مجرم اپنا نام ، شناختی کارڈ نمبر، گھر کا پتہ ،والدین اور بہن بھائیوں کے نام، سبھی کچھ بتاتا ۔وہ اپنے جرائم کی نوعیت اور سیاسی جماعت سے اپنے تعلق کی مکمل وضاحت کر تا۔ اس پسِ منظر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ 2009ء کے سوات اور جنوبی وزیرستان آپریشن کی طرح ، جو شمالی وزیرستان آپریشن کی بنیاد بنے ، کراچی کے معاملے میں بھی عسکری قیادت ایک سوچے سمجھے منصوبے پر پچھلے دور ہی سے عمل پیرا ہے ۔
یہ بات البتہ درست ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں کراچی میں تباہی کی بنیادیں کھودی گئیں اورمحض اپنے سیاسی مفاد کے لیے انہوں نے آنکھیں بند کیے رکھیں ۔ یہی طرزِ عمل انہوں نے سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت کے بارے میں اختیار کیا ، جس کی ناک تلے قبائلی علاقے میں تحریکِ طالبان ملک گیر تباہی کی تیاری کر رہی تھی۔ مذہبی سیاسی جماعتوں کا ایک موثرحصہ مذہب اور زبان کی بنیاد پر دہشت گردوں کے لیے نرم گوشہ رکھتاہے ۔ یہی لوگ شمالی وزیرستان آپریشن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ۔بہرحال کراچی میں امن قائم ہو ا (جس کے امکانات اب ہمیشہ سے زیادہ روشن ہیں ) تو فوجی قیادت کے لیے یہ دو گنا مثبت اثرات کا حامل ہوگا۔ ایک تو عوام میں اس کی ساکھ بڑھے گی ۔ دوسرا ملکی سلامتی کے حوالے سے اس پر عائد دبائو میں کمی واقع ہوگی ۔
مجرم کی سیاسی ، مالی ، لسانی اور مذہبی حیثیت سے قطع نظر ، پوری قوّت سے قانون کا نفاذ ہی وہ واحد رستہ ہے ، جو قیامِ امن کی راہ ہموار کر سکتاہے ۔یوحنا آباد میں بے گناہوں کو جلانے والوں کے ساتھ بھی یہی طرزِ عمل اختیار کرنا ہوگاوگرنہ ایک مکروہ روایت قائم ہوگی اور بار بار دہرائی جائے گی ۔ ایک دہائی سے قوم دہشت گردی کی جس آگ میں جل رہی ہے ، اس میں مسجد اور دربار سمیت اکثریت یا کسی بھی اقلیت کی عبادت گاہ محفوظ نہیں ۔ یہ دور کی بات تو نہیں ، جب خود فوجی افسروںاور جوانوں کے بچوں کا پشاور سکول میں قتلِ عام کیا گیا۔ دہشت گردی کی کسی کارروائی کے نتیجے میں بھی بلووں اور لوٹ مار کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔