"FBC" (space) message & send to 7575

ایک نیا دوست

حمزہ قاسم نے یہ کہا : بلال بھائی ، اب ہم دونوں دوست بن چکے ہیں ۔برسوں سے پروفیسر احمد رفیق اختر کے شاگرد ہونے کے باوجود، یہ ہماری پہلی ملاقات تھی ۔ اب تک اس نے یمن اور مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال پر تبادلہ ء خیال کیا تھا ۔ میں اس کے خیالات سے قطعاً متفق نہیں تھا؛لہٰذا خاموش رہا۔ 
اس کا یہ کہنا تھا کہ عرب حکمران غلط ہیں اور یمن پر حملہ بھی ۔ میرا اندازِ فکر یہ تھا کہ خطے کی کئی حکومتیں گرنے کے بعد اور کئی ممالک کے خانہ جنگی میں مبتلا ہونے کے بعد سعودی تشویش بے جا نہیں ۔ یہ بات درست ہے کہ عرب ممالک نے بے تحاشا غلطیاں کیں ۔ مثلاً مصر میں اخوان کی آئینی حکومت گرانے کے لیے فوج کی پیٹھ ٹھونکی اورپھر اس پہ خزانوں کے منہ کھول دیے ۔بہرحال، یمن میں ایران نواز مسلّح گروہ کا راج ایسا ہی ہوگا ، جیسے عراق میں سعودی عرب اپنی حامی حکومت قائم کرنے کی کوشش کرے ۔ تہران کب اسے برداشت کرے گا۔ پھر یہ کہ یمن کی حکومت نے خلیجی ریاستوں سے مداخلت کی باقاعدہ درخواست کی تھی ۔
جہاں کہیں اسلحے کے بل پر مرکزی حکومت کا وجود ختم کیا گیا ، وہاں لیبیا اور عراق کی طرح فساد اور خانہ جنگی ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ پاکستان کو یمن کے جھگڑے سے دور ہی رہنا چاہیے۔ سعودی عرب کے اندر اگر پاک فوج کے جوانوں کو تعینات کیا جاتا ہے تویہ درست اقدام ہی نہیں ، بڑی سعادت کی بات ہوگی۔ عالمِ اسلام میں پاکستان کا وقار اس سے بلند ہوگا۔ 
پھر بات سائنس کی طرف مڑ گئی ۔ میں نے کہا: رینگنے والے جانور، مثلاً سانپ میں پیچیدہ جذبات نہیں ہوتے ۔ ''اس لیے کہ ان کے دماغ میں جذبات والا حصہ ہی نہیں ۔ سانپ تو اپنے بچّے کھا جاتاہے ‘‘حمزہ نے کہا اور میں چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگا۔ میںنے کہا : رینگنے والے جانوروں کا دماغ صرف اسی قدر ہوتاہے کہ زندگی کے بنیادی افعال سر انجام دے سکے ۔ معدے، دل اور پھیپھڑوں کو حرکت دینا، افزائشِ نسل وغیرہ ۔ پیچیدہ جانوروں ، مثلاً میملز میں دماغ کادوسرا حصہ ، جذبات والاخانہ بھی مکمل ہوتاہے ؛چنانچہ کتّے کو آپ آخری حد تک وفادار دیکھتے ہیں ۔مادہ میمل میں ممتا اسی طرح کارفرما ہوتی ہے، جیسے کہ ہم انسانوں میں ... یہاں حمزہ پھر بول پڑا ''تیسرا حصہ کارٹیکس ہے ۔ کیا آپ نے پروفیسر صاحب اور ڈاکٹر جلیل کا لیکچر "Does a man think?" نہیں سنا، جس میں اس موضوع پر تفصیلی بات کی گئی ہے ؟‘‘
میں نے اس مشہور لیکچر کے بارے میں سرسری طور پر ہی سن رکھا ہے ۔غالباً اس میں بتایا گیا ہے کہ خود سے تو انسان کچھ سوچتا ہی نہیں ۔ وہ تو غیب سے وارد ہونے والے مثبت اور منفی خیالات میں سے ایک کا انتخاب کرتاہے ۔ فالھمھا فجورہا و تقوٰھا ۔ (پھر ہم نے نیکی اور برائی ، دونوں قسم کے خیالات اس پر وارد کر دیے (مفہوم)۔ وما تشائون الا ان یشاء اللہ رب العالمین۔ اور اللہ رب العزت کی مرضی کے بغیر تو تم کچھ چاہ بھی نہیں سکتے ۔ (مفہوم)
میں نے ایک کتاب پڑھی تھی ، جس کا عنوان تھا "Marvels and mysteries of the human mind" ۔ مشہور سائنسدان پال میکلین نے دماغ کے ان تین حصوں کی تفصیل بیان کی ہے۔انسانوں میں دماغ کا تیسرااور اوپر والا حصہ کرّۂ ارض کے تمام جانداروں سے زیادہ مکمل اور شاندار ہے ۔ اسی میں ہماری تمام تر کامیابیوں کا راز پوشیدہ ہے ۔ اسی میں زبان ہے اور منصوبہ بندی بھی ۔ 
حمزہ سونے کا کاروبار کرتاہے ۔میں نے اس سے پوچھا ''اس زمین پر سونا کہاں سے آیا‘‘اس نے کہا ''جہاں سے ہم انسان آئے ہیں ۔ Star Dust ۔ ہم سب ستارے ہیں ‘‘۔ میں ششدر رہ گیا۔ جی ہاں ، قارئین یہ بات درست ہے ۔کائنات کے تمام عناصر، بشمول ان کے ،جن سے ہمارا یہ جسم بنا ہے ، ستاروں (سورجوں )کے مرکز میں پیدا ہوتے ہیں ۔ سورج ہی اہم ہیں ۔ وہی غالب ہیں ۔کرّہ ٔارض جیسی یہ تمام زمینیں تو ان کے بچے کھچے مواد سے وجود میں آئی ہیں ۔ سورجوں کے مقابل یہ زمینیں پرکاہ کے برابر حیثیت نہیں رکھتیں ۔
آج بھی ایک اعتبار سے انسان کو ستارہ کہا جا سکتاہے ۔سورج کیا ہے ؟ جلتی ہوئی ہائیڈروجن گیس کا گولہ۔ ہمارا جسم 60فیصد تک پانی پر مشتمل ہے اور یہ پانی کیا ہے ؟ یہ ہائیڈروجن اور آکسیجن ہی تو ہے ۔انسان صرف چند عناصر کا ایک مجموعہ ہے اور یہ عناصر کائنات میں جا بجا بکھرے پڑے ہیں ۔ 99فیصد انسانی جسم چھ عناصر (ہائیڈروجن ، آکسیجن، کاربن، نائٹروجن ، کیلشیم اور فاسفورس)پہ مشتمل ہے ۔ایک خاص ترتیب سے خدا نے انہیں جوڑ کر انسان تشکیل دیا ۔ جب وہ چاہتاہے، یہ ترتیب بگاڑ دیتا ہے۔ انسان بیماری اور موت کا شکار ہو جاتاہے ؎
زندگی کیا ہے، عناصر میں ظہورِ ترتیب 
موت کیا ہے ،انہی اجزا کا پریشاں ہونا 
حمزہ نے ماہر طبیعیات اور فلکیات دان Michio Kakuاور Neil Degrasseکا حوالہ دیا۔ اس نے کارل سیگن کی مشہورِ عالم کتاب اور ٹی وی سیریز ''Cosmos‘‘کا ذکر کیا۔ میں نہال ہو گیا۔ ایک مخلص دوست ، جس سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ 
ایک پوری نسل، نوجوان نسل کو پروفیسر احمد رفیق اختر نے کائنات پہ غور و فکر کا عادی بنا دیا ہے ۔یہ وہ لوگ ہیں ، جو زندگی کو سمجھتے ہیں ، اس کی آزمائشوں کو سمجھتے ہیں ۔ یہ جانتے ہیں کہ دنیا عقل کے ایک امتحان کی خاطر پیدا کی گئی ہے ۔کیا روزگار، اولاد اور دوسرے دھندوں میں پھنسا ہوا انسان کائنات میں موجود نشانیوں کی مدد سے اپنے رب پہ ایمان لاتا ہے یا نہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں ، اپنے سوالات لے کر جو استاد کی خدمت میں باقاعدگی کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں ۔ انہی کو وہ ترجیح دیتے ہیں ۔ 
پروفیسر احمد رفیق اختر کی صحبت میں عقل کا دروازہ کھلنے لگتاہے ۔ ایک بار اس موضوع پر گفتگو تھی کہ انسان تو انسان ، جانور بھی اپنی اولاد کی کیسی مکمل نگہداشت کرتے ہیں ۔ استاد نے کہا : اللہ بار بار کہتاہے کہ دلوں میں یہ محبت اس نے خود ڈالی ہے ۔ کہا ، و ہ چاہے تو یہ محبت واپس کھینچ سکتاہے اور جب وہ ایسا کرتاہے تو بلّی اپنے بچّے چھوڑ کر بھاگ جاتی ہے ۔ جب وہ اپنے آپ کو سنبھالنے اور شکار کے قابل ہو جاتے ہیں تو یہ محبت واپس کھینچ لی جاتی ہے ۔میں یہ سوچنے لگا کہ اس کے لیے کرنا ہی کیا ہے ۔ دماغ کے جذبات والے خانے limbic systemمیں ایک ذرا سی تبدیلی ۔ اس پسِ منظر میں یہ عجیب بات نہیں کہ حشر کے دن خونی رشتے دار ایک دوسرے کو پہچاننے سے انکا ر کر دیں گے ۔
اگر میں اس کے لیے تربیت یافتہ ہوتا اور اگر میرے پاس مناسب آلات ہوتے تو میں اس بلّی کے دماغ کا تجزیہ کرتا ، حال ہی میں جس نے اپنے بچّے چھوڑ دیے ہوں ۔ اس کا موازنہ پھر اس جانور کے دماغ سے کرتا ، جو اپنے نومولود بچّوں کی نگہداشت کرر ہا ہو۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں