بظاہر طویل لیکن درحقیقت سیمور ہرش کی کہانی صرف ایک جملے پہ مشتمل ہے ۔ آئی ایس آئی کے بارے میں سبکدوش امریکی انٹیلی جنس افسر زہر میں بجھے ہوئے یہ الفاظ ادا کرتاہے :(امریکہ کی طرف سے یہ بات واضح ہونے کے بعد کہ وہ ایبٹ آباد میں اسامہ کی موجودگی سے آگاہ ہو چکا ہے ) پاکستان کا تعاون حاصل کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئی کہ آئی ایس آئی کے افسران اپنی بلٹ پروف لیموزین گاڑیوں ، سکیورٹی اہلکاروں اور اپنے گھروں کے اخراجات ادا کرنے کے لیے امریکی امداد کے محتاج تھے ۔بھارتی میڈیا اس صورتِ حال سے سب سے زیادہ محظوظ ہوا ہے ۔ زی ٹی وی کے الفاظ یہ ہیں ''25ملین ڈالر کے عوض پاکستانی انٹیلی جنس افسر نے بن لادن امریکہ کو بیچ ڈالا‘‘ این ڈی ٹی وی نے ان الفاظ کا اضافہ کیا ''تب اسامہ آئی ایس آئی کا قیدی تھا‘‘۔
عالمی اسٹیبلشمنٹ کا پروردہ کوئی امریکی صحافی یا حسین حقانی جیسا آلہ ء کار کسی امریکی اخبار میں یہ انکشاف کرتا تو یکسر اسے نظر انداز کر دیا جاتا۔ سیمور ہرش کی کہانی یورپ میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے میگزین‘ لندن ریویو آف بکس سے جاری کی گئی ہے۔ جس کے مطابق سی آئی اے کو اسامہ کی موجودگی کے بارے میں آئی ایس آئی کی طر ف سے باقاعدہ مطلع نہیں کیا جاتا بلکہ انعام کے لالچ میں مبتلا ایک افسر ذاتی حیثیت میں یہ انکشاف کرتاہے۔ امریکہ پاکستان پہ کسی قسم کی برہمی ظاہر نہیں کرتا۔ جنرل کیانی اوباما کو اسامہ کی موجودگی کا یقین دلانے کے لیے اتنے بے چین نظر آتے ہیں کہ اس کا ڈی این اے بھجوانے کا اہتمام کرتے ہیں ۔ دوسری طرف دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد کو خود ہلاک یا امریکہ کے حوالے کر کے اپنا لوہا منوانے کی بجائے ، وہ امریکی آپریشن پر اتفاق کرتے ہیں ۔ ساتھ ہی امریکی صدر کے اس وعدے پر وہ معصومیت سے یقین کر لیتے ہیں کہ آپریشن کے ایک ہفتے بعد امریکہ اسامہ کی کوہِ ہندو کش میں ہلاکت کا اعلان کر دے گا۔
ہرش کے مطابق امریکی اور پاکستانی فوج نے ایک دوسرے کے تعاون سے یہ آپریشن مکمل کیا ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اس قد رہم آہنگی کے باوجود جنرل کیانی ایک ایسے منصوبے پر اتفاق کیوں کرتے ہیں، پاک فوج کی ساکھ کو جس سے نقصان ہوتا۔ اسامہ کی ہلاکت کے چھ ماہ بعد امریکہ نے سلالہ میں دو درجن پاکستانی فوجیوں کو شہید کر ڈالا۔ سات ماہ تک نیٹو سپلائی بند رہی ؛حتیٰ کہ زچ ہو کر امریکہ کو دبے لفظوں معذرت کرنا پڑی ۔ اس تمام صورتِ حال کے باوجود کبھی امریکی انتظامیہ اور سی آئی اے نے یہ نہ کہا کہ پانچ برس تک اسامہ آئی ایس آئی کی تحویل میں تھا اور ہم پاگلوں کی طرح اسے ڈھونڈتے رہے ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسامہ پاکستان میں تھا ہی نہیں ۔ ایبٹ آباد آپریشن ایک ڈرامہ تھا ۔کچھ کے مطابق اسامہ کئی برس قبل ہی مر چکا تھا۔ شواہد اس کی تردید کرتے ہیں ۔ اسامہ کی تین بیوائوں اور اولادوں سے نہ صرف
پاکستانی خفیہ اداروں نے تفتیش کی تھی بلکہ عدالت نے ان کے بیانات سننے کے بعد انہیں سزا بھی سنائی تھی ۔ اس کے بعد انہیں سعودی عرب کے حوالے کر دیا گیا ۔ اگر یہ ایک ڈرامہ تھا تو اسامہ کے اہلِ خانہ اس کا انکشاف کرتے ۔اگر یہ ڈرامہ تھا تو پاکستانی فوج اور عدالتوں کی مدد کے بغیر نہ رچایا جا سکتا تھا ۔ پاک فوج ایک ایسے منصوبے میں کیونکر شریک ہوتی ، جس سے بالآخر اس کی سبکی ہوتی ۔
ہرش سیمور کی کہانی تو خیر ایک مزاحیہ فلم ہے ۔ بری خبر یہ ہے کہ دہشت گردی کی شدّت میں کمی آنے کے باوجود وہ ختم نہ ہو گی ۔ سوات کی طرح شمالی وزیرستان میں بھی فوج کو اپنی گرفت برقرار رکھنا ہوگی ورنہ جنگجو واپس لوٹ آئیں گے ۔ شمالی وزیرستان آپریشن میں غیر معمولی تاخیر کے سبب ان کی ایک بڑی تعداد افغان سرحدی علاقے میں روپوش ہو گئی ۔بلوچستان کی افغانستان سے منسلک سرحد پر قریب پانچ سو کلومیٹر طویل خندق کھود دی گئی ہے، پختون خو امیں یہ بھی ممکن نہیں ۔ یہ علاقہ دو ہزار سے پچیس سو فٹ بلند پہاڑوں پر مشتمل ہے ۔پھر یہ کہ خندق ، باڑ اور بارودی سرنگیں بچھانا ہی کافی نہیں ، ان پر پہرہ دینا پڑتا ہے ورنہ ان رکاوٹوں میں آہستہ آہستہ دراڑیں تلاش کر لی جاتی ہیں ۔
پاکستان اور افغانستان میں غیر معمولی ہم آہنگی خوش کن ہے لیکن داخلی طور پر افغان معاشرے کی جڑیں بہت کمزور ہیں ۔ اشرف غنی اور عبد اللہ عبداللہ کا سیاسی اشتراک کمزور بنیادوں پر استوار ہے ۔ افغانستان بیرونی امداد پہ زندہ ہے، اس کی اپنی کوئی معیشت نہیں۔ عسکری طور پر وہ نہایت کمزور ملک ہے ۔ افغان نیشنل آرمی کی صورت میں امریکہ بہادر نے بے روزگار نوجوانوں کے ٹولے اکٹھے کر لیے۔ ان کی ایک بڑی تعداد ہتھیاروں سمیت روپوش ہو جاتی ہے یا طالبان کے ساتھ جا ملتی ہے ۔ ایسے ہی ایک سپاہی نے 5اگست 2014ء کو کابل میں تربیت کے دوران میجر جنرل ہیرولڈ گرین کو قتل کر دیا تھا۔ یہ ویت نام جنگ کے بعد سب سے اعلیٰ امریکی افسر کا قتل تھا۔ افغان آرمی طالبان کو‘ بڑا جانی نقصان پہنچانے کے دعوے کرتی رہتی ہے ۔ ایسے دعووں کو جانچنے کا ایک ہی پیمانہ ہوتاہے۔ کیا دہشت گرد کارروائیوں اور مختلف علاقوں پر طالبان کے قبضے میں کمی واقع ہوئی یا نہیں ۔ افسوس کہ اس کا جواب نفی میں ہے ۔
سب سے کمزور عنصر افغان فوج کی تشکیل ہے ۔ افسروں کی ایک بڑی تعداد کا تعلق شمال کی اقلیت سے ہے ۔ پاک فوج میں اٹھارہ سال ملازمت کے بعد ایک افسر لیفٹیننٹ کرنل بن کر ایک بریگیڈ کی قیادت کا اہل ٹھہرتا ہے۔ فوج افسران کے بل پر چلائی جاتی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ افغان فوج جو کہ ابھی چند برس قبل ہی تشکیل پائی ہے ، اس میں جنرل رینک کے افسران کا تجربہ کیا ہے ؟ پھر یہ کہ اس فوج میں ریٹائرمنٹ کا کوئی ٹھوس طریقِ کار تشکیل نہیں دیا گیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ افسران کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے ، جتنی کہ ہونی چاہیے۔ اس سے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم میں خرابی پیدا ہوتی ہے ۔ قومیت کا مسئلہ ایسا شدید ہے کہ کارروائی پر بھیجنے سے پہلے دیکھا جاتاہے کہ جوان اور افسر پشتون اکثریت سے تعلق رکھتے ہیں یا اقلیتی گروہوں سے ۔ افغان آرمی کو ایک قومی فوج بننے میں ابھی شاید ڈیڑھ دو عشرے لگیں۔
حاصلِ گفتگو یہ کہ کم از کم عسکری طور پر افغانستان میں امن کا فی الحال کوئی امکان نہیں اور یہ براہِ راست پاکستان کی صورتِ حال پر اثر انداز ہوگا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اس دوران سخت جان پاکستانی فوج ملک کو عراق اور افغانستان بننے سے بچائے رکھے گی ۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے مسئلے کا کوئی جلد (Short Term)حل ممکن نہیں ۔ پاک فوج مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک بھارتی سازشوں ، طالبان ، کراچی اور بلوچستان کے دہشت گردوں سے مقابلے میں مصروف ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے میں پولیس اور سول انٹیلی جنس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے ۔ شہروں میں چھپے ہوئے دہشت گردوں پر ہاتھ ڈالنا بنیادی طور پر انہی کا کام ہے اور مرکز سے زیادہ یہ صوبوں کی ذمہ داری ہے ۔