"FBC" (space) message & send to 7575

خود پر رحم کیجیے

کچھ دنوں سے ہسپتالوں کے چکر لگا رہا ہوں ۔ ڈاکٹر وں کے مطابق میرے معدے کا کچھ حصہ خوراک کی نالی میں گھس آیا ہے۔ کھانا حلق کی طرف لوٹنے کی کوشش کرتاہے ۔ ریڑھ کی ہڈی کے مہروں میں وقفہ کم ہوگیا ہے ۔فٹ بال کھیلنے یا غلط ڈیزائن کی کرسی پر بیٹھتے ہی کمر درد شروع ہو جاتاہے ۔ وٹامن ڈی 3کی شدید کمی ہے ؛لہٰذا وزن اٹھاتے ہی بازو لرزنے لگتاہے ۔ ایک بیماری اور بھی ہے، انگریزی میں جسے پولی نیورو پیتھی (جو کچھ بھی یہ ہوتی ہے) کہتے ہیں۔ میرا پیٹ نکل رہا ہے ۔وزن بڑھا تو مسائل میں اضافہ ہوجائے گا۔ میں دن میں چائے کے پانچ کپ یعنی دس چمچ چینی اور کیفین لیتا ہوں ۔ میرے سونے اور جاگنے کا کوئی وقت نہیں ؛چنانچہ اکثر کام ادھورے رہ جاتے ہیں ۔جدید تحقیق کے مطابق نیند کا وقت مقرر نہ ہونا دماغ کے لیے نقصان دہ ہوتاہے۔نتیجہ اس کا یہ ہوتاہے کہ اکثر سات گھنٹے کی نیند مکمل کرنے کے بعد آنکھ کھلنے پر دماغ اتنی توانائی محسوس نہیں کرتا کہ آدمی بستر سے اٹھ سکے ۔ وہ کچھ دیر لیٹے رہنے کو ترجیح دیتا ہے اور اسی دوران دوبارہ آنکھ لگ جاتی ہے ؛حتیٰ کہ چار پانچ قیمتی گھنٹے ضائع ہو جاتے ہیں ۔میں کام کے دوران بھی ہر پانچ دس منٹ کے بعد موبائل پر فیس بک کھول لیتا ہوں ۔ یہ کھیل تماشے کی ایسی دنیا ہے ، جہاں وقت گزرنے کاپتہ ہی نہیں چلتالہٰذا توجہ مفقود رہتی ہے۔ اگر آپ کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو رہاہے تو آپ زندگی نہیں جی رہے بلکہ زندگی آپ کو بسر کر رہی ہے ۔
رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے ، نہ پا ہے رکاب میں
ارشاد ہوا: زندگی پر سوار ہو جائو، اس سے پہلے کہ وہ تم پر سوار ہو جائے ۔ (مفہوم)۔ فرمایا : دو نعمتوں کے بارے میں اکثر لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں ۔ ایک صحت اور ایک فرصت۔ (مفہوم)
راولپنڈی سی ایم ایچ کے بریگیڈئیر اسد قریشی کو ایشیا میں ریڑھ کی ہڈی کا سب سے بڑاماہر کہا جاتاہے ۔ وہاں بھیڑ ہوتی ہے ، ہفتوں بعد کا وقت ملتا او رگھنٹوں انتظار کرنا پڑتاہے ۔انتظامی امور بہتر بنا کر مریضوں کو بہت سی پریشانیوں سے بچایا جا سکتا ہے۔ یہاںمیری ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی ،چار سال قبل جس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی ۔ کمر سے نیچے کا جسم ہمیشہ کے لیے مفلو ج اور یہ سب شادی کے ڈیڑھ ماہ بعد ہوا تھا۔ بیوی نے اسے چھوڑ دیا۔ ''میری ماں مجھے سنبھالتی ہے‘‘ 35سالہ جوان نے بتایا۔اس کی آنکھیں خشک تھیں ، جب اس نے یہ کہا ''بیماری دینے سے پہلے وہ اسے جھیلنے کا حوصلہ دیتاہے‘‘۔ یہ ہوتی ہے آزمائش اور یہ ہوتی ہے جواں مردی۔
ہم اشرف المخلوقات ہیں مگر زندگی ایک سلیقہ مانگتی ہے ۔ اگر آپ کوئی جسمانی کام نہیں کرتے ۔ دن میں تین دفعہ دو دو روٹیاں یا پراٹھے ڈکارتے ہیں تو یہ خود پر ظلم ہے ۔ مریضانہ طرزِ زندگی ، جو چالیس کے پیٹے میں داخل ہوتے ہی بیماریاں لائے گا۔توند نکل آئے گی اور شوگر سے واسطہ پڑے گا۔ فشارِ خون خطرناک حد تک بلند ہوا تو فالج سے لے کر کومے ، دل کے دورے ، حتیٰ کہ موت تک کچھ بھی ہوسکتاہے ۔
خود کو سنبھالیے ۔ روٹی چاول کم سے کم (موٹے افراد کے لیے )پھل، سبزیاں ، سلاد ، دیسی مرغی اور مچھلی زیادہ۔ وزن گھٹانے میں 80فیصد کردار خوراک جب کہ 20فیصد ورزش کا ہے ۔ اکثر لوگ شدید ورزش اور کم خوراک ایک ساتھ آزماتے ہوئے، خود پر ظلم کرتے ہیں ۔ بھوکے رہ کر وزن گھٹانا نہ صرف معدے کو تباہ کرتاہے بلکہ چربی بعد میں پھر لوٹ آتی ہے ۔ مناسب غذا اور مناسب ورزش سے بتدریج آدمی فٹ ہونے لگتاہے ۔ کمر درد میں مبتلا افراد کے لیے دوڑنے کی نسبت تیراکی بہت بہتر ہے ۔پانی وزن سہار لیتاہے ۔ جب تک تیراکی نہیں آتی ، پانی میں چلتے رہنا بھی مفید ہے ۔
انسان دو ٹانگوں پر سیدھا کھڑا ہے ۔ ریڑھ کی ہڈی کی یہ منفرد ساخت خدا کا بہت ہی بڑا تحفہ ہے لیکن یہ کچھ احتیاطوں کا متقاضی ہے ۔ مہذب معاشروں میں بچوں کو اٹھنے بیٹھنے کا وہ طریقہ سکھایا جاتاہے ، جو کمر پر دبائو نہ ڈالے ۔ اگر آپ میز پر جھک کر کام کرتے ہیں اور اگر کرسی کا ڈیزائن ایسا ہے کہ وہ کمرکے نچلے حصے کو سہارا نہیں دے رہا تو ایک نہ ایک دن تکلیف پیدا ہوگی ۔ ریڑھ کی ہڈی کا درد انسان کو مکمل طور پر محتاج بنا سکتاہے ۔
یہ تو تھا تصویر کا ایک رخ۔ میں نے کروڑ پتی ، ارب پتی افراد کو دیکھا ہے ۔ جسمانی طور پر فٹ لیکن خدا سے دور کا بھی واسطہ نہیں ۔ اندر ہی اندر وہ پریشانی کا شکار رہتے ہیں او رکیوں نہ ہوں ۔ایک کھرب پتی نے ایک بار یہ کہا تھا:مجھے ایسا لگتا ہے کہ دماغ کی رگیں پھٹ جائیں گی ۔ کچھ نامور سیاستدانوں کو قریب سے دیکھا ۔ مصنوعی اور نمائشی طرزِ زندگی ۔کھانے کی میز پر نوکر ایک کے بعد دوسرا سالن اٹھائے سر پہ آکھڑاہوتاہے۔ اپنے حریفوں کو چِت کردینے کی پریشانی بلکہ فرسٹریشن میں وہ مبتلا رہتے ہیں ۔ اس سے اپنی سادہ او ربے ضرر زندگی ہی بھلی ۔
دماغ سے پیغامات ریڑھ کی ہڈی اور وہاں سے باریک تاروں (Nerves)کے ذریعے پورے جسم میں جاتے ہیں ۔ اگر آپ مسلسل پریشانی کا شکار ہیں تو دماغ یاکمر میں مسئلہ پیدا ہوگا ۔ نروز کو نقصان ہو سکتاہے ۔ اپنی پریشانیوں اور ان سے نجات کے ممکنہ طریقوں پر غور کیجیے ۔ لائحہ ء عمل بنائیے اور جدوجہد کیجیے ۔ حالات کے رحم و کرم پر رہنا کوئی حل نہیں ۔ روزانہ کوئی جسمانی کام کیجیے ۔ پیدل چلیے ۔ سب سے بڑی بات یہ کہ خدا کو یاد کرتے رہیے ۔
ٹین ایج میں اکثر بچّے ذہنی دبائو کا شکار رہتے ہیں ۔ذہن میں ایسے سوال اٹھتے ہیں ، جن کا جواب ان کے پاس نہیں ہوتا اور اظہار سے وہ گھبراتے ہیں ۔ والدین کو اپنی اولاد سے اتنا بے تکلف ہونا چاہیے کہ وہ ایسے تکلیف دہ خیالات کا اظہار کر سکے ۔یہ وہ موقع ہوتاہے ، جب ماہرِ نفسیات سے مناسب رہنمائی اور ادویات کے ذریعے وہ عمر بھر کی تکلیف سے رہائی پا سکتے ہیں ۔ اگر ایسا نہیں ہو سکا او ر آدمی شدید ڈپریشن کا شکار ہو کرکسی ذہنی بیماری کا شکار ہو ہی گیا ہے تو اسے خود ماہرِ نفسیات یا نیورو فزیشن کے پاس جاناچاہیے۔ اپنی کیفیت اور اپنی پریشانی اسے بتانی چاہیے اور یہ کوئی شرم کی بات نہیں ۔ بڑے ذہین افراد بھی نفسیاتی دبائو کا شکار ہواکرتے ہیں ۔
اگر آپ کا دماغ جسم کو احکامات جاری کر رہا ہے ۔ اگر آپ کا دل، معدہ ، پھیپھڑے ، گردے اور جگر کام کر رہے ہیں۔ اگر آپ چلتے پھرتے ہیں توآپ خوش نصیب ہیں ۔ صحت منداور کامیاب زندگی چند قدم کے فاصلے پر ہے ۔ سوال صرف یہ ہے کہ آپ چاہتے کیا ہیں ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں