رسولِ اکرمﷺ نے یہ دعا فرمائی تھی : اے اللہ ، میں برص، جنون ، جزام اور سب بری بیماریوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
ذہنی دبائو وہ بدترین بیماری ہے ، جو انسان کو اجاڑ کے رکھ دیتی ہے ۔ذمہ داری کے احساس سے پیدا ہونے والی وقتی پریشانی تو خیر فائدے مند ہوتی ہے۔ مثلاًجیسے جیسے امتحان قریب آتا ہے، طالبِ علم دبائو کا شکار ہوتا ہے اور نتیجتاً مطالعے میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتاہے ، جب ذہن مسلسل پریشانی کا شکار رہے اور یہ پریشانی ضرورت سے زیادہ ہو۔ اس صورت میں نتیجہ بھیانک ہو سکتاہے ۔ ممکن ہے کہ دماغ میں موجود مائع کیمیکلز کا وہ تناسب تادیر بگڑ جائے ، جو انسان کو پرسکون رکھتاہے ۔ اس کے نتیجے میں آدمی ایک عجیب تکلیف بلکہ اذیت کا شکار رہے گا ۔ ہو سکتاہے کہ اس کا دل بجھ کے رہ جائے ۔ اس صورت میں مستقل طور پر وہ مایوسی ، تھکن اورجسمانی کمزوری محسوس کرتا رہے گا اور یوں کام کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔ کرے گا بھی تو بڑی مشکل سے ۔ اگر پہلے وہ شہسوار تھا تو اب کینچوا بن کے رہ جائے گا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی دو انتہائوں کے درمیان بھٹکتا رہے گا۔ کبھی وہ انتہائی بے دلی اور مایوسی کا شکار ہوگا تو کبھی جوش سے کانپنے لگے گا۔ اسے Bipolar Disorderکہتے ہیں ۔ اس صورت میں وہ کوئی بھی انتہائی قدم اٹھا سکتاہے ۔ یہ توہوگئی سوچ، طرزِ عمل اور روّیے میں پیدا ہونے والی بے قاعدگی۔ مسلسل ذہنی دبائو آپ کو ایسی حالت تک پہنچا سکتاہے ، جہاں ایک دماغی خلیے سے دوسرے تک برقی رو کی ترسیل کا نظام بگڑنا شروع ہو جائے۔ ہمارے دماغ میں ساری کی ساری فیصلہ سازی اور اس کی تکمیل اسی پر منحصر ہوتی ہے ۔ اس صورت میںہو سکتاہے کہ آپ تکلیف کی شدّت سے چیخیں مارنے اور دیوار سے سر ٹکرانے لگیں ۔ اس برقی رو میں نقص پیدا ہو تو آدمی کو دورے پڑنا شروع ہو سکتے ہیں ۔
مسلسل پریشانی ، احساسِ جرم اورپچھتاوے جیسے احساسات تلے دبا ہوا آدمی بعض اوقات ایسی حالت تک پہنچ جاتاہے ، جہاں اس کی ساری کی ساری توجہ صرف ایک نکتے،یعنی اس کی اپنی پریشانی تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے ۔ نفسیات کی زبان میں اسے Obsessionکہتے ہیں ۔ جب یہ کیفیت مستقل ہو جاتی ہے تو آدمی نارمل نہیں رہتا۔ وہ کھاتا پیتااور دوسری بنیادی ضروریات پوری ضرور کرتاہے لیکن ایک روبوٹ کی طرح ۔ ہو سکتاہے کہ وہ گھنٹوں اپنے ہاتھ دھوتا رہے ۔ یہ تصور بالکل غلط ہے کہ ذہنی بیماریاں کم علم ، اَن پڑھ یا غلط کاریوں میں ملوث افراد تک محدود ہوتی ہیں ۔ زیادہ ذہین، زیادہ اخلاقیات کے حامل بھی بدرجہ ء اتم ان کا شکار ہو سکتے ہیں ۔ بعض اوقات انسان کی اپنی ذہانت بھیس بدل کر خود ہی اس کے لیے پریشانیاں ڈھونڈتی رہتی ہے ۔ یوں وہ اپنے آپ سے مسلسل برسرِ جنگ رہتاہے ۔
احساسِ کمتری مسلسل اور شدیدپریشانی کی وجہ بن سکتاہے۔ انسان میں اپنی ذات سے محبت پیدا کی گئی ہے اور کم و بیش یہ ساری جبلّتوں کا محرک ہے ۔ مثلاًاگر آپ کسی پر فقرہ کسیں تو اس میں غصے کی جبلّت سر اٹھائے گی ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ خود سے محبت کرتاہے اور اپنی تذلیل اسے گوارا نہیں ۔ آدمی اپنے اندر نقص برداشت نہیں کرسکتا، خاص طور پراس وقت ،جب اس کی طبیعت زیادہ حساس ہو۔ جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ وہ دوسروں سے کم صورت ہے ، اس کی ناک موٹی ، قد چھوٹا اور بال گرے ہوئے ہیں تو وہ مسلسل پریشانی کا شکار رہتاہے ۔ احساسِ کمتری کا سب سے بڑا توڑ تحصیلِ علم ہے ۔ علم ایک ایسی چیز ہے ، جو کمتری کے احساس کو بہا لے جاتی ہے ۔
جانوراخلاقیات سے محروم ہوتے ہیں۔ نہ انہیں کسی رشتے کی پرواہوتی ہے اور نہ ہی ان کا کوئی عقیدہ ہوتاہے۔ انسانی اعلیٰ اخلاقیات او ر بنیادی عقائد بھی نفسیاتی دبائو کی وجہ بن سکتے ہیں ۔ہم اپنے بچّوں کو اللہ کی واحدانیت اور اس کے خدا ہونے کا سبق بچپن ہی سے ازبر کرا دیتے ہیں ۔ ہو سکتاہے کہ لڑکپن میں اس کے ذہن میں ایسے سوالات جنم لیں ، جن کا اظہار کرتے ہوئے وہ خود پر کفر کا فتویٰ لگنے کا خطرہ محسوس کرتا ہو۔ ہو سکتاہے کہ ایسے خیالات کی بنا پر اندر ہی اندر وہ خود کو کافر یا مجرم سمجھتے ہوئے مسلسل پریشانی کا شکار ہو جائے ۔ اگر وہ حساس طبیعت کا مالک ہے تو صورتِ حال او ربھی خطرناک ہوگی ۔ یہ وہ وقت ہے ، جب اسے ایک ماہرِ نفسیات اور ایسے استاد تک رسائی کی ضرورت ہے ، جو اس کے سوالات کا جواب دے ، اس کی تحلیلِ نفسی کرے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ماہرینِ نفسیات تک رسائی کو معاشرے میں تحقیر کی نظر سے دیکھا جاتااور طعنے کے طور پر برتا جاتا ہے ۔اس کا بنیادی سبب جہالت ہے ۔
ہمارے واعظ احساسِ گناہ بلکہ احساسِ جرم میں مبتلا رہتے اور معاشرے کو بھی اس کی تلقین کرتے ہیں۔
اندرونی خیالات کے علاوہ بیرونی مسائل بھی ذہنی تکالیف کا سبب بن سکتے ہیں ۔مثلاًوہ بچّے جو اپنے والدین کو مسلسل لڑتا جھگڑتا دیکھیں ۔ نوجوانوں میں روزگار کا خوف شاید سب سے زیادہ ہوتا ہے ۔ بنیادی طور پر یہ بقا کی جبلّت (Instinct of survival)سے پیدا ہوتاہے ۔ جانداروں کو یہ جبلّت اپنی بقا اور زندگی کی حفاظت کے لیے عطا کی گئی ہے لیکن جیسا کہ شروع میں عرض کیا، پریشانی کو اس کی حدود میں رہنا چاہیے ۔ان مسائل کا حل ایمان ہے او رایمان کی بنیاد علم ہے ۔
اگر آپ کو اپنی زندگی پیاری ہے تو ذہنی صحت سدھارنے کے لیے کئی سمتوں میں جدوجہد کرنا ہوگی ۔ کلامِ مجید کا کچھ حصہ ، تین چار سیپارے لازماً حفظ کر لینے چاہئیں اور روزانہ آدھ سے ایک گھنٹا ان کی تلاوت کرنی چاہیے ۔ Obsessionکے مرض میں یہ بہت مفید ثابت ہوتاہے ۔ روزانہ کچھ دیر خدا کو اس کے ناموں سے یاد کرنا چاہیے ۔ یا رحمن‘ یا رحیم‘ یا کریم ۔ یا سلام‘ یا مومن یا اللہ۔ یا ولی‘ یا نصیر ۔ اگر ایسے مسائل آپ کے ذہن میں موجود ہیں ، جو مسلسل اذیت پہنچا رہے ہیں تو کسی ماہرِ نفسیات کی رہنمائی میں آپ کو تحلیلِ نفسی سے گزرنا چاہیے ۔ بعض اوقات آدمی ایسی سٹیج پر ہوتا ہے ، جہاں سے ادویات (Medication)یا برقی رو کے جھٹکے دیے بغیر اس کی واپسی ممکن نہیں ہوتی ۔ اگر ماضی کا کوئی واقعہ ، خواہ اس کی نوعیت کچھ بھی ہو ، آپ کو مسلسل اذیت پہنچا رہا اور احساسِ جرم (Guilt)میں مبتلا کیے ہوئے ہے تو وہ آپ کو Obsession تک لے جا سکتاہے ۔اگر ماضی میں آپ کوئی بدترین عمل کر چکے ہیں اور وہ آپ کو تکلیف پہنچا رہا ہے تو روزانہ کثرت سے ، پانچ سو سے ایک ہزار دفعہ آیتِ کریمہ پڑھیے او رایک نئی زندگی کی شروعات کیجیے ۔ روزانہ کچھ دیر ایسی جسمانی سرگرمی بھی ذہنی صحت کے لیے ضروری ہے ، جس میں آپ کا سانس پھولے۔ جو مسائل آپ کو تنگ کر رہے ہیں ، ان کے حل کے لیے لائحۂ عمل ترتیب دیجیے اور اس طرف پیش قدمی کیجیے ۔