"FBC" (space) message & send to 7575

وزیرِ اعظم کا دورئہ امریکہ اور علاقائی سیاست

ایک تیز تر تبدیلی ایشیا میں طاقت کا توازن بدل رہی ہے ۔ سیاسی عدم استحکام اور بالخصوص کمزور اور ناقص حکومت کے باوجود پاکستان اہم ہے ۔اس وقت جب دہشت گردی کا اژدہا عالمی امن کو نگل رہا ہے ، علاقائی اور عالمی سیاست میں پاکستان اہم ہی رہے گا۔ 
وزیرِ اعظم نواز شریف کے دورئہ امریکہ سے قبل مشیرِ خارجہ سرتاج عزیز نے یہ کہا ہے : امریکہ خطے میں عدم توازن اتنا آگے نہ بڑھائے کہ جنوبی ایشیا کی سلامتی ہی خطرے میں پڑ جائے ۔ جنوبی ایشیاکی سیاست میں تبدیلی آئی ہے اور اس کے ساتھ ہی خطے میں اپنے اثر و رسو خ کی جنگ شدّت اختیارکرتی چلی جا رہی ہے۔حالات کے جبر نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کو پاکستان کا قلیل مدتی حلیف بنا رکھا ہے ۔ اس کے باوجودآخری تجزیے میں خطے میں اثر و رسوخ کی دیر پاکشمکش میں امریکی وزن بھارت ہی کے پلڑے میں ہے ۔ 
عسکری طور پر افغانستان کی صورتِ حال تیزی سے بدلی ہے۔ بڑے حملوں کے ساتھ طالبان نے اپنی قوت دوبارہ منوائی ہے ۔اشرف غنی کی حکومت اور افغان فوج کا کردار تو محدود ہوا ہی ہے ، مستقبل کے افغانستان میں امریکہ کا بڑا کردار نظر نہیں آتا۔ اس کی جگہ چین اور بالخصوص پاکستان نے لے لی ہے ۔ امریکی افواج اور افغان فورسز کے برعکس ، پاکستان اپنی سرزمین پر دہشت گردی کے خلاف دیر پا جنگ میں کامیاب نظر آتا ہے ۔ اسی سبب ، بھارتی خواہش کے باوجود امریکہ کے لیے خطے میں پاکستا ن کا کردار محدود کرنا آسان نہیں ۔ 
امریکی اور پاکستانی حکام کی طرف سے ایسے ممکنہ ایٹمی معاہدے کی تردید کی گئی ہے ، جس سے پاکستان کو نیو کلیئر سپلائرز گروپ تک رسائی اور بدلے میں پاکستانی ایٹمی و میزائل پروگرام کسی حد تک محدود اور امریکی نگرانی کے ماتحت کیا جا سکے ۔امریکی حکام کویہ تشویش بہرحال لاحق ہے کہ پاکستانی میزائل پروگرام کی رینج بڑھتی چلی جا رہی ہے ۔2750کلومیٹر تک مارکرنے والے شاہین تھری کے بعد مشرق میں اب وہ بھارت کے آخری کونے تک وار کر سکتاہے اور مغرب میں اسرائیل تک ۔ امریکی موقف یہ ہے کہ بھارت کے ہر کونے تک رسائی حاصل کرنے کے بعد پاکستان کو اپنے میزائل پروگرام کو اسی حد تک منجمد رکھنا چاہیے ۔ 
نریندر مودی کی قیات میں بھارت تیزی سے جنون کی طرف بڑھا ہے ۔ اپنے قلیل مدّتی انتخابی مفادات کی تگ و تازمیں بھارتی وزیرِ اعظم اپنی قوم کو اجتماعی خودکشی کے اس راستے پر لے جا رہے ہیں ، جہاں مختلف مذاہب اور طبقات میں بٹا ہوا یہ معاشرہ بالآخر خانہ جنگی کا شکار ہو سکتاہے ۔ انڈیا خطے اور عالمی سیاست میں ایک بڑے کردار کے حصول میں جلد بازی کا شکار نظر آتاہے ۔ اپنی حیثیت مرتبے اور قد سے بڑا کردار چاہتا ہے اور وہ بھی ہنگامی بنیادوں پر ۔عوامی جذبات ابھارنے اور مقبولیت پانے کی دوڑ میں سیاسی اشرافیہ اور میڈیا روزانہ کی بنیاد پر ایسے غیر معقول او رغیر متوازن بیانات اور دعوے جاری کرتاہے ، بعد میں جن کا حصول ممکن نہیں ہوتا۔ اس روّیے سے ایک ایسی فضا ضرور پیدا ہو جاتی ہے ، جس میں فیصلہ سازی کے عمل میں زمینی حقائق نظر انداز کر دیے جاتے ہیں ۔ اس کا ایک مظہر 2008ء کے ممبئی حملوں کے بعد کا روّیہ تھا۔ یہ بات صاف ظاہر تھی کہ بھارتی انتہا پسندی کے خلاف یہ مذہبی انتہا پسندوں کا حملہ تھا ، پاکستانی سرکار کا جس میں قطعاً کوئی کردار نہ تھا۔پاک سرزمین خود ایک عشرے سے بدترین دہشت گردی کے نشانے پر تھی ۔ ایسے میں انڈین حکومت ، سیاسی قیادت، میڈیا اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے ایسی فضا پیدا کی ، جیسے پاکستانی سرزمین پر اپنے اہداف پر بھارتی حملے اب طے شدہ ہیں اور کسی بھی وقت ان کا آغاز ہو سکتاہے ۔ ''سرجیکل سٹرائیکس ‘‘کی اصطلاح انہی دنوں بڑی تیزی سے عام ہوئی ۔ یہ بات صاف ظاہر تھی کہ دہشت گردی کی جنگ میں گلے تک دھنسی ہونے کے باوجود ریاستِ پاکستان اتنی قوت کی حامل ضرور ہے کہ بھارت اس سے اعلانیہ جنگ کے قابل نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جنگ کی دھمکیوں کے بعد بالآخر بھارت کو پسپائی اختیار کر نا پڑی۔ 
پاک روس تعلقات میں تیز رفتار پیش رفت ہوئی ہے ۔روسی سرمائے سے 2ارب ڈالر کی کراچی لاہور گیس پائپ لائن کے علاوہ، جدید ایم آئی 35ہیلی کاپٹروں سمیت‘ روس پاکستان کو دفا عی ساز و سامان فراہم کرنے کے معاہدے کر رہا ہے ۔ ماضی میں دفاعی تجارت ممکنہ بھارتی تحفظات کے پیشِ نظر ممکن نہ ہو سکی، تاریخی طور پر جو روسی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے ۔عشروں بعد سویت یونین کے جانشین روس نے انگڑائی لی ہے ۔ یوکرین سے شام تک دنیا کے سب سے بڑے فوجی اتحاد نیٹو کے مقابل روس ایک بڑا عسکری کردار ادا کرتا نظر آتاہے ۔ دنیا پھر سے بائی پولر شکل اختیار کررہی ہے ۔ اس صورتِ حال میں یورپ اور امریکہ اشتعال کا شکار ہیں مگر خوف کا بھی ۔ روسی معیشت امریکہ کا آٹھواں حصہ ہے لیکن میزائل او رایٹمی پروگرام کے لحاظ سے وہ امریکہ ہی کے ہم پلہ ہے ۔بڑھتے ہوئے پاک روس تعلقات کے پسِ منظر میں پاکستانی دفترِ خارجہ کی طرف سے شام میں ''روسی جارحیت‘‘کی مذمت کو تعجب سے دیکھا گیا۔روس ہی نہیں ، شام میں جارحیت کا ارتکاب کرنے والے ممالک کی ایک لمبی فہرست پائی جاتی ہے ۔ 
چین اٹھ بیٹھا ہے ۔ گو کہ فوری طور پرخطے میں کسی عسکری محاذ آرائی میں وہ شریک نہیں لیکن عام طور پر پسِ منظر میں رہنے والی یہ ریاست اب عالمی اور بالخصوص علاقائی سیاست میں بڑی متحرک نظر آتی ہے ۔ افغانستان میں امریکی خلا اس نے پر کیا ہے ۔ جنوبی چین کے سمندر میں متنازع جزائر پر تیز رفتاری سے وہ تعمیرات میں مشغول ہے ۔ جاپان جیسے علاقائی حریف جس پر سخت تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں اور ان سب کا سرپرست امریکہ بھی ۔ 
عالمی میڈیا اور سفارتی پروپیگنڈے میں پاکستان بھارت کا مقابلہ کرنے میں ناکام نظر آتاہے ۔بہرحال اس ساری صورتِ حال میں بالخصوص انسدادِ دہشت گردی میں عالمی برادری کے نزدیک پاکستانی کردار بھارت سے کہیں بڑا ہے۔ ایک برس قبل امریکہ میں جنرل راحیل شریف کے غیر معمولی استقبال سے واضح ہوتاہے کہ عالمی برادری بالآخر پاکستانی کردار کی معترف ہے ۔خطے اور دنیا کی بدلتی ہوئی صورتِ حال البتہ پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی متقاضی ہے ۔ ایسے میںشام میں روسی جارحیت کی مذمت جیسے بیانات سے قبل کچھ دیر غور وفکرضرور کر لینا چاہیے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں