شروع شروع میں قربان علی کو ڈاکٹر جوناتھن رائٹ کانظریہ مضحکہ خیز بلکہ غیر انسانی لگا۔ تمام مثبت انسانی روّیوں کی یکسر نفی ۔ آج پلٹ کر جب اس نے کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر کا پہلا لیکچر یاد کیاتو بے اختیار اس کی آنکھیں نم ہو گئیں ۔ ایک بار پھر وہ سوچنے لگا : کیا برا تھا، اگر سیکھنے کی غیر معمولی طلب اعلیٰ تعلیم کے لیے اسے بیرونِ ملک نہ کھینچ لاتی ۔ آگہی اس پہ نازل نہ ہوتی اور خوش کن دھوکے کی دنیا میں ، وہ اپنی عمر تمام کر دیتا۔
ڈاکٹر جوناتھن نے کہا تھا ''بے لوث محبت، ایثار،مامتا، قربانی ، سب مثبت انسانی روّیو ںکی بنیاد جھوٹ ہے ۔ درحقیقت یہ existہی نہیں کرتے ۔ـ‘‘ ڈاکٹر جوناتھن چالیس برس تک ایثار کا مظاہرہ کرنے والوں پر تحقیق کرتا رہا تھا۔ اس نے ہزاروں ایسے افراد کے تفصیلی انٹر ویو کیے ، جو دوسروں کی خاطر عشروںتکالیف اٹھاتے رہے ۔ اس تحقیق کے اختتام پر اس کی کتاب Intelligent Beast(ذہین درندہ) سامنے آئی تھی ۔ اس کتاب نے فروخت کے عالمی ریکارڈ توڑ ڈالے تھے ۔ ساتھ ہی اس نے تلخ حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے ، انسانی سوچ کو ایک نئی سمت عطا کی ۔ کروڑوں لوگوں پر یہ انکشاف ہوا تھا کہ روز مرّہ کی زندگی میں ، کیسے وہ خونی رشتے داروں کے جذباتی استحصال کا شکار ہوتے ہیں ۔
Intelligent Beastکے صفحہ 41پر لکھاتھا''زندہ رہنے ، اپنی نسل آگے بڑھانے اور بقا کی جنگ میں تمام جانور کروڑوں برس
تک غیر معمولی تکلیف دہ حالات سے گزرتے رہے ہیں ۔ آج جن جانوروں کو ہم کامیاب و کامران دیکھتے ہیں ، جسمانی قوت کے علاوہ عیاری میں بھی باقیوں سے وہ برتر ہیں ۔ آپ شیر کی مثال لیجیے۔ شیروں کے ہر گروہ میں ، جب نر بلوغت کی عمر کو پہنچتے ہیں تو گروہ کے بڑے شیر انہیں نکال باہر کرتے ہیں ۔ وہ ٹھوکریں کھاتے،سخت جان اور سفاک تر ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ جب وہ اپنی قوت کے عروج پر پہنچتے ہیں تو اپنی نسل بڑھانے کے لیے وہ میدان میں اترتے ہیں۔ وہ شیروں کا ایک ایسا گروہ ڈھونڈتے ہیں ، جس کے محافظ، بڑے شیر نسبتاً عمر رسیدہ ہوں ۔ موقع دیکھ کر وہ ان پر ٹوٹ پڑتے ، انہیں ہلاک کر دیتے ہیں ۔ اس کے بعد چن چن کر وہ بڑے شیروں کی اولاد کو قتل کرتے ہیں ۔ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ حیوانی جبلّتیں حملہ آور جوان شیروں کو یہ منطق خوب سمجھا دیتی ہیں کہ بچّوں کو قتل نہ کیا گیا تو چند برس بعد وہ ان کے مدّ مقابل ہوں گے ۔ مقتول بچّوں کو جنم دینے والی شیرنیاں کچھ دن غیض و غضب کی حالت میں رہتی ہیں لیکن پھر وہ سمجھوتہ کرلیتی ہیں ۔ خوب اچھی طرح انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی بقا کا دارومدار اب غول کی قیادت سنبھالنے والے ، باہر سے آنے والے جوان درندوں پر ہے ۔ ہر قیمت پر جلد از جلد انہیں اپنی نسل آگے بڑھانا ہوتی ہے ۔ملاپ کا ایک موسم ضائع کرنا بھی وہ
گوارا نہیں کرتیں۔ یوں خود کو وہ اپنی اولاد کے قاتلوں کے حوالے کر دیتی او ر ان کے ساتھ وفادار رہتی ہیں ؛تاآنکہ چند برس بعد باہر سے آنے والے نئے اور طاقتور شیر پرانوں پر ٹوٹ پڑیں ۔ یوں ایک بار پھر یہی کھیل دہرایا جاتاہے ۔
''کروڑوں برس کی جنگ میں جانوروں کے ہر گروہ نے اپنی بقا کے اصول وضع کی.....انسان ان میں سب سے خطرناک ، سب سے عقلمند تھا ۔‘‘ ڈاکٹر جوناتھن نے کہا تھا '' جانوروں اور اپنے ہم نسلوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اس نے ہتھیار بنائے۔اس کا سب سے خطرناک ہتھیارتو عقل ہی تھا۔ اس عقل کو اس نے اپنے خاندان ، دوستوں اور عزیز و اقارب پر استعمال کیا۔ وہ انہیں محبت کا دھوکہ دینے
لگا۔ چالیس سالہ تحقیق میں یہ بات میرے سامنے آج پوری طرح واضح ہے کہ انسانی محبت کی بنیاد جذباتی استحصال ہے ۔ مثال کے طور پر ماں باپ جب اپنی اولادکی نگہداشت کرتے ہیں تو جواباً وہ اس سے اپنے بڑھاپے کی سکیورٹی مانگ رہے ہوتے ہیں ۔ شوہر جب اپنی بیوی کی ضروریات پوری کرتاہے تو جواباً وہ اس سے اچھا روّیہ طلب کرتاہے۔ اگر یہ بے لوث محبت ہوتو اپنے بڑھاپے کی نگہداشت اور اچھے روّیے کی متقاضی نہ ہو ۔ بسا اوقات جب اولاد سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہوتیں تو انسان شکایت کرنے لگتاہے ۔ وہ انہیں برا بھلا کہتااور احساسِ جرم میں مبتلا کرتا ہے ۔ چالیس سالہ تحقیق میں ، میں نے ہر طرح کے مثبت رویوں کا مظاہرہ کرنے والے انسانوں کا مطالعہ کیا ہے اور معاف کیجیے ، ہر ایک کے اندر ایک غرض چھپی تھی ۔یوں میں اس نتیجے پر پہنچا کہ مثبت انسانی روّیے ایک ایسا دھوکہ ہیں ، جو انسان نے اپنے ہم نسلوں کے جذباتی استحصال کے لیے ایجاد کیا ہے ۔ نہ صرف یہ کہ دوسروں کو وہ اس سے دھوکہ دیتاہے بلکہ خود بھی ساری زندگی اسی مغالطے کا شکار رہتاہے کہ بے غرض ہو کر وہ کسی کی مدد کر رہا ہے ۔ ‘‘
ڈاکٹر جوناتھن سے قربان علی نے صوفی ازم کے بارے میں سوال کیا تھا ۔ اس نے کہا تھا''ہزاروں برس سے مشرقی سرزمینوں کے درویش خدا کے بندوں کی رہنمائی قطعاً بے غرض طور پر کرتے آئے ہیں ‘‘ ڈاکٹر جوناتھن اس پر دل کھول کر ہنسا تھا۔ اس نے کہا تھا : جیسا اور جس قدر انسانی استحصال مذہب کے نام پر مریدوں کا ہوا ہے ، تاریخ
ِ انسانی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ان حالات میں قربان علی بھلا کیا سوچ سکتا تھا؟ اس کی پیدائش کے دوران اس کی ماں انتقال کر گئی تھی ۔ اس کے مزدور باپ نے اس کی خوب نگہداشت کی تھی ۔ قربان علی بلا کا ذہین اور محنتی تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ برطانوی حکومت کے وظیفے پر بیرونِ ملک وہ تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ ہر ہفتے اسے اپنے باپ کا ایک خط موصول ہوتا تھا۔ یہ بات اس کے لیے بڑی تکلیف دہ تھی کہ اس کے باپ کی ظاہری محبت کے پسِ منظر میں یہ غرض چھپی تھی کہ بڑھاپے میں وہ اس کی نگہداشت کرے ۔
واپسی کے سارے ہوائی سفر میں، وہ یہی سوچتا رہا۔ ائیرپورٹ سے گاڑی میں بیٹھ کر گھر روانہ ہوا تو بھی ۔ غیر معمولی حالات کا اندازہ اسے تب ہوا ، جب گھر کا دروازہ اس نے کھلا دیکھا۔ اپنے باپ کو وہ ڈھونڈ نہ سکا تو پریشانی کے عالم میں اپنے پڑوسی محمد طفیل سے ماجرا دریافت کرنے لگا۔ ''تمہارا باپ تو چھ ماہ پہلے ہی فوت ہو چکا ہے ‘‘ محمد طفیل نے کہا''جب اسے یہ یقین ہوا کہ وہ مرنے والا ہے تو خطوں کا ایک انبار اور کچھ رقم وہ میرے حوالے کر گیا تھا ۔ میں ہی ہر ہفتے اس کا خط تمہیں بھجوایا کرتا تھا ۔ وہ یہ چاہتا تھا کہ تم آرام سے اپنی تعلیم مکمل کر لو ‘‘۔ یہاں قربان علی کو معلوم ہوا کہ ڈاکٹر جوناتھن کا نظریہ سو فیصد غلط تھا۔وہ سکتے میں بیٹھا رہ گیا۔
ساری رات قربان علی شدّتِ غم سے تڑپتا رہا۔ صبح جب اس کے رشتے دار اس سے ملنے آئے تو وہ مجذوب ہو چکا تھا۔