"FBC" (space) message & send to 7575

نون لیگ کو مبارک ہو!

پنجاب کے بلدیاتی انتخابات میں نون لیگ کی 3129 سیٹوں کے مقابلے میں تحریکِ انصاف نے 843 نشستیں جیتی ہیں۔ یہ کم و بیش ایک اور چار کا تناسب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ضمنی اور بلدیاتی انتخابات میں حکمران جماعت کو ہرانا کارِ دشوار ہوتا ہے۔ پولیس اور پٹوار سمیت، تمام حکومتی محکمے اور ملازم سرکاری امیدوار کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ خزانے کا منہ کھل جاتا ہے۔ برسوں سے رکے ہوئے ترقیاتی کام ہنگامی بنیادوں پر تکمیل پاتے ہیں۔ علاقے کے بارسوخ افراد حکومت ہی کو ترجیح دیتے ہیں کہ انہیں اپنے کام کرانا ہوتے ہیں۔ یہ باتیں جزوی طور پر درست ہیں۔ سیاست کی ابجد سمجھنے والے بھی جانتے ہیں کہ انتخابی سائنس میں ہر حلقے کی اپنی ایک منفرد صورتِ حال ہوتی ہے۔ دو جمع دو چار کی طرح، ایسے کوئی عالمگیر اصول نہیں، جو پورے ملک تو کیا، دو باہم متصل حلقوں میں بھی بالکل ایک ہی طرح سے لاگو کیے جا سکیں۔ اسلام آباد اس کی واضح مثال ہے، جہاں حکمران جماعت کے تمام ہتھکنڈوں کے باوجود اسد عمر کی قیادت میں تحریکِ انصاف نے قابلِ قدر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ 
گزشتہ اڑھائی برس کے دوران، لیگی حکومت نے ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دیے کہ ایک موزوں حکمتِ عملی کے ساتھ بلدیاتی انتخابات میں اسے منہ کے بل گرایا جا سکتا تھا۔ قائدِ اعظم سولر پارک، جسے 100 میگاواٹ سے آغاز کرکے بتدریج 
ایک ہزار تک بجلی پیدا کرنا تھی، بمشکل تمام 18 میگاواٹ کا ہدف حاصل کر پایا ہے۔ ایک انگریزی روزنامہ کی خبر یہ ہے کہ شریف حکومت اب وہ سرمایہ کار ڈھونڈ رہی ہے، جسے یہ عظیم الشان منصوبہ بیچا جا سکے۔ ساہیوال میں صرف کوئلے سے چلنے والے منصوبوں کے لیے پاکستان ریلوے کے مردے میں نئے سرے سے جان ڈالنے کی تیاری ہے۔ یہ ریل کے بوسیدہ ڈھانچے کو از سرِ نو تعمیر کرنے کے متراد ف ہے کہ مسافروں کی بجائے وہ کوئلہ ڈھوتی رہے۔ نندی پور کے مردے میں جوں ہی زندگی کی رمق محسوس ہوتی ہے، وزرائِ کرام مبارک سلامت کے نعرے بلند کرتے ہوئے میڈیا پر نمودار ہوتے ہیں۔ اس اثنا میں وہ ایک بار پھر ڈھے پڑتا ہے اور اس کے ساتھ ہی حکومتی ہرکارے اپنی خوشخبریوں سمیت غائب ہو جاتے ہیں۔ یہ عمل اتنی بار دہرایا گیا ہے کہ پانی و بجلی کے وزیر موصوف کو پریس کانفرنس سے قبل بتایا جاتا ہے کہ اب کی بار انہیں بندش کے اسباب بیان کرنا ہیں‘ یا اس کی فقیدالمثال کامیابی پر روشنی ڈالنا ہے۔ دونوں قسم کے دلائل پر مبنی کاغذات ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ ایک طرف نجکاری کا غلغلہ ہے کہ کاروبار حکومت کا کام نہیں۔ دوسری طرف میٹرو بس اور اورنج لائن ٹرین کی صورت میں نئے ادارے تشکیل دیے جا رہے ہیں۔ تین نسلوں سے لوہے کا کاروبار کرنے والی حکومت پاکستان سٹیل مل کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے میں ناکام ہے۔ 
دہشت گردی عسکری قیادت کا دردِ سر ہے۔ سندھ میں صورتِ حال یہ ہے کہ رینجرز کی تمام تر قربانیوں کے باوجود مجرموں کی سرکاری پشت پناہی جاری و ساری ہے۔ متعدد ملزموں کے حکومتی سرپرست بیرونِ ملک بیٹھے ہیں۔ سول ادارے ناکام ہیں۔ گرفتار ہونے والوں کی اکثریت بالآخر نظام میں موجود خامیوں کی بدولت بچ نکلنے میں کامیاب رہتی ہے۔ صرف ایک دورے میں پانچ لاکھ ڈالر لے جانے والی ماڈل ضمانت پر ہے۔ مرکز میں لیگی حکومت اپنی اتحادی سائیں حکومت پر دبائو ڈالنے میں ناکام ہے کہ وہ ووٹ کی مقدس طاقت سے وجود میں آئی ہے۔ نیب اگر کسی حد تک بروئے کار ہے تو عسکری قیادت ہی کے دبائو پر۔ 
یہ وہ صورتِ حال ہے، جس میں تحریکِ انصاف نون لیگ کو ناکوں چنے چبوا سکتی تھی۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا، ہر حلقے کی اپنی منفرد صورتِ حال ہوتی ہے۔ اسلام آباد کے نواحی علاقے روات سمیت، جہاں کہیں علاقے میں اثر و رسوخ رکھنے والا ایسا کوئی امیدوار موجود تھا، جو اپنے زورِ بازو سے دھاندلی روک سکتا، وہ سرخرو ہوا۔ جہلم کی 110 میں سے پی ٹی آئی دس سیٹیں جیتی ہے۔ 2003ء میں یہاں نعیم عالم اور مقصود الٰہی نے تحریکِ انصاف کی بنیاد رکھی اور اسی برس اکرم شہید پارک میں پارٹی کا جلسہ منعقد ہوا۔ 2003ء سے 2008ء تک مرکز میں پرویز مشرف اور ضلعے میں ان کے وفاداروں کے ساتھ وہ حالتِ جنگ میں رہے۔ زندہ ہوتے تو احسن رشید مرحوم گواہی دیتے کہ جہلم ان ضلعوں میں سے ایک تھا، جہاں سے نون لیگ کا صفایا ممکن تھا۔ 2011ء میں پارٹی الیکشن منعقد ہوئے تو نعیم عالم جہلم کے صدر منتخب ہوئے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں ضلعے کے منتخب صدر کی سفارشات ردّی کی ٹوکری میں پھینک دی گئیں۔ نتیجتاً بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات کی صورتِ حال اور بھی عبرت انگیز ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ الیکشن سر پہ آنے کے بعد، کیا کوئی پارٹی اپنے منتخب عہدیداروں کے ساتھ یہ سلوک روا رکھ سکتی ہے؟ جہلم اس نوعیت کی واحد مثال نہیں۔ 30 اکتوبر 2011ء کو لاہور کے تاریخی جلسے سے قبل فیصل آباد میں سینیٹر طارق چوہدری نے وہ عظیم الشان جلسہ منعقد کرایا تھا، جس نے لاہور میں کامیابی کی بنیاد رکھی۔ آج وہ کہاں ہیں؟ 2013ء کے عام انتخابات میں جنوبی پنجاب میں مخدوم جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی نے پارٹی کے ساتھ سوتیلی اولاد والا سلوک کیا۔ اس کی ایک جھلک ان دنوں شائع ہونے والے سر خالد مسعود خان کے کالموں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس دوران جسٹس وجیہہ الدین احمد اور ڈاکٹر شعیب سڈل جیسے اپنے بے غرض دوستوں کو کپتان نے کھو دیا یا انہیں لاتعلقی پر مجبور کر دیا۔ یہ وہ لوگ تھے، جنہیں انتخابی سیاست میں کوئی دلچسپی تھی اور نہ وہ کسی منصب کے آرزومند تھے؛ البتہ پارٹی اور ملک کو ان کی صلاحیتوں سے بے پناہ فائدہ ہو سکتا تھا۔ 
سیاست میں مستقبل بعید کی پیش گوئی ممکن نہیں۔ حالات کا بدلتا ہوا دھارا ہی فیصلہ کن ہوتا ہے۔ 2008ء کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کے قتل نے پیپلز پارٹی کے اقتدار کی راہ ہموار کی تھی۔ یہ بات صاف واضح ہے کہ کوئی بڑی غیر معمولی تبدیلی نہ آئی تو 2018ء کا الیکشن نون لیگ با آسانی جیت جائے گی اور تحریکِ انصاف کے باہم برسرِ پیکار دھڑے ایک دوسرے کا خون پیتے رہ جائیں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں