مشہور ویب سائٹ livescience.com پر انسانوں کی منفرد خصوصیات دی گئی ہیں۔ وہ چیزیں، جو ہم انسانوں کو دوسرے جانوروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ روحانیت سے تہی دامن سائنس انسان کو جانوروں ہی میں شمار کرتی ہے۔ ایک ایسا جانور، جو دوسروں کا استحصال کرنے میں کامیاب رہا۔ لاکھوں برس کی جنگ میں، انسان اس لیے کامیاب رہا کہ وہ ہر چیز کو ایک نام دیتا ہے۔ خود پر گزرنے والے ہر واقعے کو وہ اپنی یادداشت میں محفوظ رکھتا، مستقبل میں اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ ہر شے کو ایک نام دینے کے ساتھ ساتھ وہ اس کی منفی اور مثبت خصوصیات کو محفوظ رکھتا ہے۔ وہ اشیا کی ظاہری شکل و صورت سے بڑھ کر، ان کی مخفی خصوصیات تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ ماضی کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، وہ مستقبل میں ان سے مستفید ہو سکتا ہے۔
سائنس آپ کو صرف اتنا بتا سکتی ہے کہ اعلیٰ زبان سے لے کر منصوبہ بندی تک کی یہ صلاحیتیں انسانی دماغ کے اس اوپر والے حصے میں موجود ہیں، دوسرے جانوروں میں جو نامکمل ہی رہ گیا۔ ایسا کیوں ہوا، یہ نامعلوم ہے۔ ارتقا کی زبان میں Natural Selection کی جو اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، وہ بھی اس کی وضاحت سے قاصر ہے۔ لبّ لباب اس کا یہ ہے کہ جو جاندار بقا کی جنگ میں، اپنی زندگیوں کی حفاظت میں زیادہ چست و چالاک، نئے ماحول اور نئے خطرات سے نمٹنے میں زیادہ چوکس ثابت ہوئے، صرف وہی باقی رہے۔ باقی نیست و نابود ہو گئے۔ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن جس قسم کی گہری ذہانت انسان میں پائی جاتی ہے، صرف اتفاق قرار دے کر، اس کی وضاحت ممکن نہیں۔ اگر قدرتی اور حادثاتی طور پر اس قدر عظیم الشان عقل انسانی جھولی میں آ گری تو زندگی سے بھرپور اس زمین پر اس کی کچھ اور مثالیں بھی ہوتیں۔ کچھ نہ کچھ سوچ بچار دوسرے بھی کرتے۔ اپنی سہولت کے لیے وہ اوزار اور مضبوط ٹھکانے بناتے۔ انسانی جبر سے محفوظ رہنے کی کچھ سبیل کرتے۔ جانوروں میں اوزار استعمال کرنے کی اکّا دکّا جو مثالیں ہیں، وہ یہ کہ بن مانس پانی عبور کرنے سے پہلے بعض اوقات ایک چھڑی سے اس کی گہرائی کا اندازہ لگاتے ہیں۔ بعض اوقات کوّوں کی ایک نسل گاڑیوں کی گزرگاہ پر اخروٹ پھینک دیتی ہے کہ پہیوں تلے آکر وہ ٹوٹ کر بکھر جائیں۔
جہاں تک پانچ حسیات سے کام لینے کا تعلق ہے، جانور یقینا انسان پر حاوی ہیں۔ ان کی آنکھ، کان اور جلد سے تصاویر، آواز اور لمس اسی رفتار سے دماغ تک پہنچتا ہے، جیسا کہ ہم انسانوں میں۔ اس ڈیٹا کا جائزہ لے کر ان کا دماغ اسی طرح اعضا کو حکم صادر کرتا ہے، جس پر عمل درآمد میں وہ ہم انسانوں سے کہیں تیز ہیں۔ مثلاً خطرہ بھانپ کر جس برق رفتاری سے ایک بلّی اپنی جان بچانے کو چھلانگ لگاتی ہے، ایسی چستی ہم انسانوں میں نہیں۔
انسانی عقل کرّہء ارض کے خطرناک حالات میں نیچرل سلیکشن اور survival of the fittest کے تحت وجود میں آئی ہوتی تو کہیں نہ کہیں دوسروں میں بھی اس کے آثار دکھائی دیتے۔ وہ پانچ حسیات کی مدد سے بنیادی ضروریات زندگی اور اپنی بقا سے کچھ اوپر اٹھتے۔ ہزاروں حیوانی نسلوں میں سے کوئی ایک انسانوں سے آدھی عقل کا مالک بنتا۔ دو چار بنیادی سے اوزار وہ ڈھال لیتا۔ یہاں عملاً صورتِ حال یہ ہے کہ سبھی کی عقل ایک ہی مقام تک آ کر رک گئی ہے اور وہ مقام ہے، اپنی جان کی حفاظت کا۔
خیر انسانی عقل کا ماخذ تو ایک دوسری بحث ہے۔ لائیو سائنس میں انسانوں کی جو منفرد خصوصیات دی گئی ہیں، کلام کی صلاحیت ان میں سرِ فہرست ہے۔ میرے جیسے کچھ حضرات فضول بھی بولتے ہیں لیکن عام بول چال کے علاوہ انسان فصیح ہے۔ اس قدر اعلیٰ لسانی صلاحیتوں کا سبب یہ ہے کہ دماغ میں ایک خصوصی speech center واقع ہے۔ ہمارے گلے میں آلہء صوت چمپینزی کی نسبت نیچے واقع ہے۔ یہ مقام (Position) بولنے میں ایک کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ انسان میں زبان کے نیچے کی ہڈی بھی منفرد ہے۔ دوسرے جانوروں کے برعکس یہ دوسری ہڈیوں سے جڑی ہوئی نہیں اور یوں الفاظ کی ادائیگی میں مدد کرتی ہے۔
دوسرے جانوروں کے برعکس انسان دو ٹانگوں پر سیدھا کھڑا ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لیے انسانی جسمانی ساخت میں جو تبدیلی آئی ہے، وہ زچگی کے دوران انسانی مادہ کو انتہائی حد تک تکلیف دیتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آدمؑ کو ممنوعہ پھل چھونے پر اکسانے کی پاداش میں خدا کی طرف سے یہ سزا مقرر کی گئی ہے‘ لیکن میں اس سلسلے میں حتمی طور پر کچھ نہیں جانتا۔ یہ بات البتہ درست ہے کہ انسانوں میں بچّے کی پیدائش سب جانوروں سے بڑھ کر تکلیف دہ ہے۔ انسان جب دو ٹانگوں پر سیدھا کھڑا ہوتا ہے تو اس کے ہاتھ اوزار استعمال کرنے کے لیے آزاد ہوتے ہیں۔ موجودہ حیرت انگیز انسانی ترقی میں یہ عنصر بہت فیصلہ کن ثابت ہوا ہے۔ پھر انسانی ہاتھ کی تشکیل بھی مختلف ہے۔ کلائی کی ہڈیوں کے ساتھ انگلیاں اس طرح پیوست ہیں کہ اوزار استعمال کرتے ہوئے ہم زیادہ قوت صرف کر سکتے ہیں۔
انسان کا دماغ سب سے بڑا ہرگز نہیں۔ سپرم وہیل کرّہء ارض پہ سب سے بڑا دماغ رکھتی ہے‘ لیکن اگر جسم اور دماغ کے حجم کا موازنہ کیا جائے تو انسان کا دماغ سب سے بڑا ہے۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ دماغ کا نچلا حصہ بنیادی جسمانی افعال، جیسا کہ سانس لینا، گردے، معدے اور دیگر اعضا کو حرکت دینے میں استعمال ہوتا ہے۔ دوسرا حصہ جذبات کی آماجگاہ ہے۔ تیسرے اور اوپر والے حصے میں عقل ہوتی ہے اور یہی حصہ انسانوں میں سب سے کامل ہے؛ لہٰذا دماغ کا محض حجم بڑا ہونا ہی فیصلہ کن نہیں۔ اس کے مختلف حصوں کی تشکیل، ان کا باہمی ربط اور جسمانی حجم سے اس کا موازنہ بھی اہم ہے۔ یہاں ماضی کے ایک انسان ہومو سیپین نی این ڈرتھل کی مثال قابلِ غور ہے۔ اس کا سر ہم سے نسبتاً بڑا تھا لیکن بالآخر وہ مکمل طور پر ناپید ہو گیا۔ انسانی دماغ دنیا میں سب سے زیادہ توانائی ہضم کرتا ہے۔ وہ نہایت تیزی سے کام کرتا؛ چنانچہ انسانی جسم میں پیدا ہونے والی بیس فیصد توانائی کھا جاتا ہے۔
انسان واحد جانور ہے، جو کپڑے پہنتا ہے۔ مذہب ہی اس کا محرک ہے۔ انسان آگ سے کام لیتا ہے، کھانا پکاتا ہے۔ مصنوعی حرارت سے لطف اندوز ہوتا، مصنوعی روشنی سے گھروں میں چراغاں کرتا ہے۔ انسانوں میں جذبات پیچیدہ تر ہیں۔ آدمی کے سوا کبھی کسی جانور کو شرماتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ انسانی بچّہ بے حد کمزور ہوتا ہے، اسے عشروں تک والدین کا تحفظ درکار ہوتا ہے۔ زیادہ تر جانور اپنی موت سے پہلے تک نسل بڑھاتے رہتے ہیں۔ انسانی مادہ میں یہ صلاحیت جلدی ختم ہو جاتی ہے۔
انسان واحد جانور ہے، جو کائنات میں موجود عناصر ہی سے وجود میں آنے کے باوجود ان عناصر کا جائزہ لے سکتا ہے۔ ایٹموں کا ایک مجموعہ ایٹموں کا جائزہ لے سکتا، ان سے مستفید ہو سکتا ہے۔ حرفِ آخر یہ کہ انسان بے شک نمایاں و ممتاز ہے لیکن اس میں خود انسانی کوشش کا دخل نہیں۔ اس لیے کہ اپنا دماغ اس نے خود تشکیل نہیں دیا۔