"FBC" (space) message & send to 7575

پاکستان میں فیصلہ کن جنگ ختم ہو چکی

گیارہ ستمبر2001ء سے شروع ہونے والی جنگ پاکستان کی حد تک ختم ہونے کو ہے۔ سمجھیے کہ ہاتھی نکل گیا، دم باقی ہے۔ سخت جان پاکستانی فوج ان خوفناک تیرہ برسوں کے اختتام پر غالب نظر آتی ہے۔ یہی نہیں، ان دہشتناک مہ و سال میں اس کے اوسان پوری طرح بحال رہے۔ تیرہ سالہ جنگ سے گزر کر اب یہ ایک خالص جنگجو فوج ہے۔ سوات، جنوبی اور شمالی وزیرستان سمیت فاٹا ایجنسیوں میں ایک حکمتِ عملی کے تحت مختلف دستوں کو موقع دیا گیا۔ اب وہ سب جنگ کی بھٹی سے گزرے ہوئے تجربہ کار سپاہی ہیں۔ یہ عرصہ تکلیف دہ تھا مگر جوانوں اور افسروں کی جیسی capacity building اس نے کی ہے، ویسی امن کے مہ و سال میں، جنگی مشقوں میں ممکن نہیں تھی۔
عراق، افغانستان، لیبیا، شام، مصرسمیت وہ تمام ممالک جنہیں کسی نہ کسی صورت دہشت گردی یا خانہ جنگی کا سامنا رہا، وہاں مضبوط مرکزی حکومت کا وجود تقریباً ختم ہو گیا اور اس کے نتیجے میں امن و امان بھی۔ پاکستان اور افغانستان میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ ایک مضبوط، سخت جان اور تربیت یافتہ فوج ہی ہے۔ 2009ء میں ہر روز ہمیں خود کش حملوں کا سامنا تھا۔ اس کے بعد سوات، جنوبی وزیرستان سمیت مختلف قبائلی ایجنسیوں، کراچی اور بلوچستان میں پے در پے آپریشن ہوتے رہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قوم کو سب سے زیادہ نقصان کنفیوژن سے ہوا ہے۔ اس کا سہرا مولانا فضل الرحمٰن، مولانا
سمیع الحق، جماعتِ اسلامی سمیت مذہبی سیاسی جماعتوں اور عمران خان کے سر ہے۔ ''قائدِ اعظمؒ نے قبائلی علاقے میں فوج بھجوانے سے انکار کر دیا تھا۔ ہمارے قبائلی بھائی خود افغان سرحد کی حفاظت کے لیے کافی ہیں‘‘ اس طرح کی جذباتی تقاریر سے حقائق کی مکمل نفی کی جاتی رہی۔ 1947ء میں جن حالات میں پاکستان وجود میں آیا تھا، وہ قطعی طور پر مختلف تھے۔ سوویت یونین کی افغانستان میں آمد کے بعد افغان جہاد کا دور شروع ہوا، پاکستان کو بہرحال جس سے گزرنا تھا اور جس کے نتیجے میں عسکریت پسندی میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ کپتان سمیت، مذہبی سیاسی جماعتوں نے اسے یکسر نظر انداز کر دیا۔ آج یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ قبائلی علاقے میں فوج بھجوانے کا فیصلہ سو فیصد درست تھا۔ صورتِ حال یہ تھی کہ اثر و رسوخ رکھنے والی قبائلی شخصیات اور مَلک دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل کیے جا رہے تھے اور دوسری طرف مذہبی سیاسی جماعتیں اور عمران خان قبائلی علاقے میں فوج بھجوانے اور فوجی کارروائیوں کی شدید ترین مخالفت کرتے رہے۔ قابلِ ذکر یہ ہے کہ 2002ء سے 2007ء کے درمیان متحدہ مجلسِ عمل کی حکومت کے دوران قبائلی علاقے میں دہشت گردوں کو منظم و مضبوط ہونے کا موقع ملا۔ 
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کے باقی و برقرار اور غالب رہنے میں سب سے بڑا کردار جنرل کیانی کا ہے۔ جنرل راحیل شریف کے سپہ سالار بننے سے قبل ہی سوات اور جنوبی وزیرستان سمیت قبائلی ایجنسیوں میں فیصلہ کن جنگ لڑی جا چکی تھی۔ شمالی وزیرستان میں کارروائی کے لیے بھی جنرل راحیل شریف کے پاس ایک موثر ماڈل موجود تھا۔ افغانستان میں امریکہ ناکام رہا تھا۔ ناکامی کی حد یہ تھی کہ چھ سو ارب ڈالر دفاعی بجٹ رکھنے والی امریکی فوج پاک افغان سرحد پر باڑ اور بارودی سرنگیں تک بچھانے میں ناکام رہی تھی اور اپنی ناکامی کا ملبہ وہ پاکستانی فوج پہ گرانا چاہتی تھی۔ انہی دنوں سلالہ پر حملے میں دو درجن پاکستانی فوجی شہید کر ڈالے گئے۔ یہ بات درست ہے کہ امریکی افغانستان میں ناکام رہے تھے مگر وہ ایک اور طرح کی گوریلا جنگ تھی، جس میں دشمن چھپ کر حملہ آور ہوتا ہے۔ آمنے سامنے کی باضابطہ جنگ میں امریکی فوج کا ایک بھرپور حملہ پاکستان کو ناقابلِ یقین حد تک نقصان سے دوچار کر سکتا تھا۔ اس دوران اپنے اوسان اور وقار بحال رکھنے، امریکی ناکامی کے اصل اسباب اس پہ واضح کرنے، افغانستان میں بھارت کے لیے ایک بڑے فوجی کردار کی ہر ممکن مزاحمت کرنے کا سہرا جنرل کیانی ہی کے سر ہے۔ یہ ایک خوفناک حد تک پیچیدہ ہدف تھا، جس میں امریکی جنرلوں اور دفاعی لیڈرشپ کی ذہنی ساخت سمجھ کر ہی آگے بڑھا جا سکتا تھا۔ امریکی ناراضی کا سامنا کرنا، اسے چین کو ایک بڑا کردار سونپنے پر آمادہ کرنا ایک عظیم کامیابی تھی۔ یہ ایک سیدھے سادے جنرل کے بس کا رو گ نہیں تھا، خوشامدی جس کے ساتھ ہمیشہ پا بہ رکاب رہتے اور اسے اس کی عظمت کا یقین دلاتے رہتے ہوں۔ ملکی سلامتی کی جنگ میں زرداری حکومت کی سربراہی میں کام کرنا اور اپنے جذبات قابو میں رکھنا بھی جنرل کیانی ہی کے بس کی بات تھی۔ یوسف رضا گیلانی کے ملاقاتی نے جب یہ کہا کہ وزیرِ اعظم ہائوس سے باہر نکلتے ہوئے اس کا دل ویران تھا‘ تو جنرل کیانی نے یہ کہا: ہر شام میرا دل ویران ہوتا ہے۔ 
فیصلہ کن جنگ ختم ہو چکی۔ اکّا دکّا دہشت گرد حملے جاری رہیں گے اور یہ انتہائی تکلیف دہ بھی ہو سکتے ہیں۔ اڑھائی ہزار کلومیٹر کی پاک افغان سرحد فساد کی جڑ ہے۔ جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے، افغان امن عمل میں تمام تر تعاون اور نیک خواہشات کے باوجود پاکستان کو وہاں فساد کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ خدا کرے کہ میں غلط ثابت ہوں مگر اندازہ یہی ہے کہ مزید دو تین برس بدترین خوں ریزی ہونا باقی ہے۔ کمزور افغان حکومت پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک کا انتخاب نہیں کر سکی۔ غیر ملکی افواج کی واپسی کے بعد طالبان نے بڑے شہروں پر یلغار کی ہے۔ خود طالبان کی صفوں میں بھی اقتدار کی جنگ جاری ہے۔ امریکی ڈرون حملے اب طالبان کی بجائے داعش کو ہدف کر رہے ہیں۔ داعش میں شمولیت اختیار کرنے والے جنگجوئوں کی طالبان سے کشمکش کا فیصلہ ہونا بھی باقی ہے۔ دو سے تین سال میں صورتِ حال پوری طرح واضح اور اصل طاقتور فریق ابھر کر سامنے آئے گا۔ اس کے بعد ہی امن اور استحکام کی امید کی جا سکتی ہے ۔ 
پاکستانی فوج کیا ہے، یہ بھارت جانتا ہے۔ چین، امریکہ، ایران اور عرب جانتے ہیں۔ خطے میں دہشت گردی کے خلاف اگر کوئی حقیقی رکاوٹ ہے تو وہ پاکستانی فوج ہے۔ ملکی سلامتی کے حقیقی تقاضوں کو عسکری لیڈرشپ پوری طرح سمجھتی ہے۔ سیاسی قیادت نے تو 46 ارب ڈالر کے راہداری منصوبے کو متنازع بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، ملک کا معاشی مستقبل جس سے بدل سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں