"FBC" (space) message & send to 7575

چور

میں حیرت زدہ رہ گیا۔ سوشل میڈیا اور دیگر ویب سائٹوں پہ صرف انہی اشیا کے اشتہارات نمایاں تھے، جن کی مجھے ضرورت تھی۔ ایسا لگ رہا تھا، جیسے ان تمام کو میری ذاتی پسند نا پسند بخوبی معلوم ہو۔ میری ضرورت کی اشیا مختلف معیار اور مختلف رنگوں میں دکھا کر مجھے اس طرح للچانے پر مجبور کیا جا رہا تھا ، جیسے کھلونے والا کسی بچّے بہلاتا پھسلاتا ہے ۔ ایک روز قبل میں نے ایک مشہور تجارتی ویب سائٹ پر ان اشیا کو تلاش (Search)کیا تھا۔ جن چیزوں کو میں نے کھولا (کلک کیا ) تھا ، وہ ڈیٹا اب انٹرنیٹ پر اشیا بیچنے والی کمپنیوں کے پاس موجو دتھا۔ انٹر نیٹ صارفین کی پسند نا پسند کا علم ہونا اور اسے ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی اشیائے ضرورت کے اشہار جاری کرنا تجارت کو مہمیز کرتا ہے ۔ اب یہ سبھی انٹرنیٹ صارفین کے ساتھ ہو رہا ہے ۔خطرناک بات یہ ہے کہ ہماری زندگیوں میں راز اب کچھ بھی نہیں ۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ اس کی تصدیق کرتی ہے ۔ 
2 مارچ کو شائع ہونے والی بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کا عنوان یہ ہے ''کیا آپ کا سمارٹ فون آپ کو سن رہا ہے ؟ ‘‘ مضمون نگار کہتا ہے کہ وہ کپڑے استری کر رہا تھا ، جب اس کی والدہ کمرے میں داخل ہوئیں اور انہوں نے بتایا کہ ہمارے خاندانی دوست تھائی لینڈ میں ایک ٹریفک حادثے میں ہلاک ہو گئے ہیں ۔ اسے اس وقت جھٹکا لگا ، جب اس نے کچھ دیر بعد موبائل فون پر ایک سرچ انجن کھولا تو اس پر 
اس حادثے کی خبر دکھائی دے رہی تھی ۔ مصنف کہتاہے کہ اسے مختلف لوگوں نے ملتی جلتی کہانیاں سنائیں اور ان میں سے زیادہ تر اشتہارات سے متعلق تھیں ۔ اس کے ایک دوست کو آدھے سر کی تکلیف ہوئی اور اس نے یہ بات دوستوں کو بتائی ۔ اگلے ہی روز مائیگرین سپورٹ گروپ نے اسے ٹوئٹر پر فالو کرنا شروع کر دیا۔ سماجی ویب سائٹ ریڈ اٹ ایسی کہانیوں سے بھری ہوئی ہے ۔ یہ کس حد تک درست ہیں اور کتنے واقعات سنسنی پھیلانے کے لیے خود سے گھڑے گئے ہیں ، یہ میں یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا۔ یہ بات البتہ میں اپنے تجربے کی رو سے جانتا ہوں کہ انٹر نیٹ استعمال کرتے ہوئے جن چیزوں کو ہم دیکھتے ہیں ، تلاش کرتے ہیں ، انٹرنیٹ پر تجارت کرنے والی کمپنیاں ان سے فائدہ اٹھاتی ہیں ۔ یہ ڈیٹا باقاعدہ فروخت کیا جاتا ہے ۔ 
ہمارے گھر والوں ، بیوی بچوں کے نام ، پتہ، کاروبار کی نوعیت اور مقام، زندگی کے اہم واقعات، قریبی دوست اور رشتے داروں کے نام ، ان کی معلومات ، فیس بک کو بخوبی معلوم ہیں ۔ یہ ویب سائٹ تو ہمارے نظریات تک سے آگا ہ ہے ؛لہٰذا جاسوسی کرنے والے ادارے یہ تک جان سکتے ہیں کہ کسی خاص واقعے پر ہمارا موقف کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ خفیہ ادارے اپنے مطلوب افراد کے سلسلے میں انہیں استعمال کرتے ہیں ۔ ایڈورڈ سنوڈن نے جو معلومات افشا کیں ، ان کے مطابق ای میل اور سوشل نیٹ ورکنگ کی اہم ویب سائٹیں امریکی خفیہ اداروں کو یہ معلومات فراہم کرتی ہیں۔ اس میں حیرت کی بات کوئی نہیں ۔ 
کرئہ ارض ، اس کا چپہ چپہ سیٹیلائٹ کی نگاہ میں ہے۔ یہ وہ مشینیں ہیں ، جو خلا میں زمین کے گرد گردش کرتے ہوئے اس پہ نظر رکھتی ہیں۔ ان کے ذریعے سیٹیلائٹ فون اور ٹیلی ویژن چینلوں کی صورت میںزمین کے ایک کونے سے دوسرے تک ڈیٹا کا تبادلہ بھی ہوتاہے ۔آج کا انسان کل کے انسان سے مختلف ہے ۔ وہ ہر وقت اپنے پیاروں سے رابطے میں رہتا ہے ، انہیں دیکھتا ، ان سے بات 
کرتاہے ، خوا ہ وہ دنیا میں کہیں بھی ہوں ۔اپنے پیاروں کے ساتھ رابطے میں رہنا صرف ضرورت ہی نہیں ، ایک دوسرے کے ساتھ تجربات کا تبادلہ کرنا ، معلومات کا لین دین ہی عظیم الشان انسانی ترقی کی بنیاد ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق یورپ کے نی اینڈرتھل آدمی کے مقابلے میں ہمارے آبائو اجداد اس لیے کامیاب و کامران رہے کہ وہ رابطے میں رہتے تھے ۔یورپ میں پیدا ہونے اور بنائی جانے والی اشیا ایشیا میں بھی ملی ہیں ۔ ان سے یہ معلوم ہوتاہے کہ قدیم انسان تحائف کا تبادلہ کرتا تھا۔ اس کے مقابلے میں وہ انسان جو دور دراز ایسی آبادیوں کی صورت میں رہتا تھا، جن کا باہمی رابطہ نہ ہونے کے برابر تھا، وہ معدوم ہو تا چلا گیا۔ 
بی بی سی ہی کی ایک رپورٹ کے مطابق ایپل اور اینڈرائڈ کی applicationsاپنے صارفین کی جاسوسی کرتی ہیں ۔ یہ بھی کہ ان میں سے بعض معلومات تیسری پارٹیوں کو فروخت بھی کی جاتی ہیں ۔ ہماری جیبوں میں موجود جدید موبائل فون اور ان میں استعمال ہونے والا انٹرنیٹ ہر وقت ہماری نقل و حرکت کی جگہ سے آگاہ ہوتاہے ۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں تو آپ کا موبائل فون ہی اب اے ٹی ایم اور کریڈٹ کارڈ کے علاوہ بینک سے لین دین کا ذریعہ ہے ۔ یوں سارے مالی معاملات کو انجام دینے والا یہ خزانہ ، ساری دولت کسی بھی غلطی کی صورت میں غیر محفوظ ہو سکتی ہے ۔ حال ہی میں ٹیکنالوجی کمپنی ایپل اور امریکی خفیہ ایجنسی ایف بی آئی کے درمیان ایک تنازعے نے جنم لیا ہے ۔ عدالتی حکم پر ایپل کو پابند کیا گیا ہے کہ ایک شدت پسند حملہ آور کا ڈیٹا وہ ایف بی آئی کو دے۔ گوگل ، ای بے اور ایمزون سمیت دیگر ٹیکنالوجی کمپنیوں نے ایپل کی حمایت میں میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ 
ٹیکنالوجی، قدرت میں موجود لہروں کی مدد سے آلات استعمال کرنا بے حد مفید ہے ۔ آنے والے دور میں آپ کی گاڑی، موبائل، کمپیوٹر اور دیگر آلات آپ کے لمس اور آواز کو پہچانتے ہوئے احکامات بجا لائیں گے ۔ کسی دوسرے شخص کو وہ آپ کی معلومات فراہم کرنے یا اس کے احکامات ماننے سے صاف انکا رکر دیں گے۔ یہی نہیں ، آپ کے فائدے کے لیے وہ آپس میں بھی بات چیت کریں گے ۔ مثلاً موبائل خود بخود ہی صبح آٹھ بجے ایک وائرلیس حکم گاڑی کی بیٹری کو دے گا، جس سے وہ سٹارٹ ہونے کا آغاز کرے گی تاکہ جب تک آپ ناشتہ کریں ، گاڑی گرم ہو چکی ہو۔ دوسری طرف حقیقت یہ بھی ہے کہ ہماری زندگیوں کا کوئی گوشہ بھی نگرانی سے خالی نہیں ۔یہ بھی کہ امریکی حکومت، خفیہ ادارے اور طاقتور عالمی ادارے اس قدر طاقتور ہیں کہ کروڑوں انٹر نیٹ صارفین کا ڈیٹا وہ ان کی اجازت اور ان کے علم میں لائے بغیر کھنگال سکتے ہیں ۔ یہ سہولت کے بدلے پرائیویسی میں جھانکنے کا اجازت نامہ ہے ، جس سے اب کوئی بھی محفوظ نہیں ۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں