"FBC" (space) message & send to 7575

ذہین درندہ

فاطمہ معظم صرف ایک برس کی تھی، جب اس نے اپنی زندگی کا پہلا بڑا فیصلہ کیا۔ خوبصورت گڑیوں کے ڈھیر چھوڑ کر پلاسٹک کا ایک بدصورت گڈا اس نے گود لیا۔ ہر وقت، ہر کہیں وہ اس کے ساتھ ہوتا۔ آج جب وہ اڑھائی برس کی ہے تو اس محبت میں اضافہ ہو چکا ہے۔ وہ اسے نہلاتی ہے۔ پھر تولیے میں لپیٹ کر بستر پہ رکھتی اور رضائی اوڑھا کر سلا دیتی ہے۔ فاطمہ نے اس کا نام ''منُو‘‘ رکھا ہے۔ جب کوئی چیز کھانے کو اس کا اپنا دل کرتا ہے تو وہ یہ کہتی ہے ''منُو کو بھوک لگی ہے‘‘۔ ہم باشعور اور بڑی عمر کے لوگ ان سب باتوں سے محظوظ ہوتے، مسکرا دیتے ہیں۔ ہمیں اس کی باتیں بچگانہ لگتی ہیں لیکن جہاں تک فاطمہ کا تعلق ہے، منُو اس کی زندگی کا سب سے اہم جزو ہے۔ وہ پوری سنجیدگی اور محبت سے اس پلاسٹک کے گڈے کو پال رہی ہے۔ اب ایک لمحے کو سوچیے کہ اپنی اپنی زندگی اور ترجیحات میں، کہیں ہم سب بھی تو فاطمہ کی طرح غیر ضروری چیزوں کو غیر معمولی اہمیت نہیں دے رہے؟ خدا جب ہمیں مال و دولت اور ان چیزوں کے لیے برسرِ پیکار دیکھتا ہو گا، ہماری نظر میں جو بہت سنجیدہ ہیں تو کیا‘ اس کی نظر میں یہ چیزیں فاطمہ کے گڈے ہی کی طرح غیر اہم ہوتی ہوں گی؟ 
زمین کی ملکیت ایک ایسی چیز ہے، ہمیشہ سے جو فساد کا باعث رہی ہے۔ خونی رشتے دار، ایک ہی باپ دادا کی اولاد ایک دوسرے کی گردن کاٹ دیتی ہے۔ ایک بہتر، سرسبز و شاداب، غلّہ اگاتی اور پانی سے لبریز زمین کے لیے قبائل ایک دوسرے کی اینٹ سے اینٹ بجاتے رہے۔ اسی زمین کے لیے بادشاہوں میں جنگیں ہوئیں۔ چین، فلپائن اور جاپان آج بھی جنوبی چین میں سمندری حدود اور جزائر پہ اپنا اپنا حق جتاتے ہیں۔ امریکہ کا وزن اپنے اتحادی جاپان کے پلڑے میں ہے اور متنازعہ جزائر سے گزرنے والی امریکی پروازیں امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی کا باعث ہیں۔ یہی صورتِ حال کرّہء ارض کے شمال میں آرکٹک کی ہے۔ جب یہ خبریں میڈیا کی زینت بنتی ہیں کہ فلاں ہائوسنگ سوسائٹی نے غربا کے کچّے مکانوں پہ بلڈوزر چلا کر انہیں اپنی حدود میں شامل کر لیا تو ایک لمحے کو یہ بڑے کامیاب لوگ لگتے ہیں۔ آنکھ تب کھلتی ہے، جب ایک بڑی عمارت تعمیر کرنے کے لیے کھدائی شروع ہوتی ہے تو نیچے سے کھنڈرات برآمد ہونے لگتے ہیں۔ 
معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی ایک پوری تہذیت زیرِ زمین دفن ہے۔ تب یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ زمین، جس کی ملکیت پر ہم جھگڑ رہے ہیں، ہم سے پہلے کتنی ہی تہذیبیں، کتنے ہی معاشرے اس کی مختلف تہوں میں دفن ہیں۔ ٹیکسلا اور موہنجو دڑو تو ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں۔ آج جب زیرِ زمین کھدائی کے دوران سکّے، برتن ، اوزار اور ڈھانچے برآمد ہوتے ہیں تو دلچسپی اور جوش و خروش کے ساتھ ہم ان کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ جانے بغیر کہ وہ لوگ بھی اسی زمین کی ملکیت کے دعویدار تھے، جس پہ آج ہم جھگڑ رہے ہیں۔ یہ روّیہ انسانوں ہی کے ساتھ مخصوص نہیں۔ نر شیر بھی اپنا ایک علاقہ متعین کرتے ہیں۔ وہ اس پہ نشان لگاتے اور کسی دوسرے کو اس کی حدود میں قدم نہیں رکھنے دیتے۔ پھر جب ان کی عمر ڈھلنے لگتی ہے تو کوئی جوان درندہ انہیں اس علاقے سے بے دخل کر دیتا ہے۔ 
اوپر آسمان پر دیکھیے تو حیرت ہوتی ہے۔ چاند اور مریخ بھی تو زمینیں ہیں۔ وسیع و عریض بنجر زمینیں۔ پوری پوری دنیائیں ویران پڑی ہیں اور کوئی ملکیت کا دعویدار نہیں۔ سونا، چاندی، ہیرے، تیل، یہ سب وسائل اس کائنات میں بکھرے پڑے ہیں۔ یہاں اس زمین پر ایک ایک مرلے کی قیمت لاکھوں میں مقرر ہے۔ ہم سب اس پہ جھگڑتے پھرتے ہیں۔ انسانوں نے انسانوں کو مارنے کے لیے جوہری ہتھیار تیار کیے ہیں‘ اس پہ اسے اشرف المخلوقات ہونے کا دعویٰ ہے۔ ہم جانوروں ہی کی طرح پیدا ہوتے، جانوروں ہی کی طرح جھگڑتے، جانوروں ہی کی طرح بوڑھے اور بیمار ہوتے اور جانوروں ہی کی طرح مر جاتے ہیں۔ اس دوران اگر پچاس ساٹھ برس ہم بہتر کھاتے اور بہتر گھروں میں رہ لیتے ہیں تو یہ اشرف المخلوقات ہونے کی نشانی ہرگز نہیں۔ ہاں، البتہ ہم میں سے کچھ ہیں، جنہیں یہ لقب دیا جا سکتا ہے۔ 
ایک شخص ہے، جو دن بھر مزدوری کرتا ہے، تین بار ڈٹ کر کھانا کھاتا اور پھر گہری نیند سوتا ہے۔ ایک دوسرا شخص ہے، جس کی جائیداد دس ارب ڈالر ہے۔ یہ ایک ایسا شخص ہے، جس کا معدہ خراب رہتا ہے۔ وہ ذرا سا کھانا مشکل سے کھاتا ہے۔ اس کے بعد خوراک ہضم کرنے کی دوا کھاتا ہے۔ رات کو نیند اور ڈپریشن کی ادویات لیتا ہے۔ آپ کے خیال میں کس کا رزق زیادہ ہے؟ جو جی بھر کے کھانا کھاتا ہے یا وہ، جس کے اکائونٹ دولت سے لبریز ہیں؟ ایک بار یہ بات سنی تھی کہ رزق تو فقط وہی ہے، جو کہ ہم کھا لیتے، اوڑھ لیتے ہیں۔ جو دولت بینک میں جمع رہتی ہے، وہ بینک والوں کا، ہمارے ورثا کا اور دوسرے لوگوں کا رزق تو ہو سکتی ہے، ہمارا ہرگز نہیں۔
اشرف المخلوقات وہ ہیں، جو خواہش کی بجائے عقل کی راہ چلتے ہیں۔ جنہیں معلوم ہے کہ خواہش اور عقل جیسی دو انتہائی متضاد چیزیں ہمارے دماغ میں ایک دائمی کشمکش کے لیے رکھی گئی ہیں۔ اشرف المخلوقات وہ ہیں، جو علم والے ہیں۔ جو جانتے ہیں کہ یہ دنیا مصنوعی طور پر بسائی گئی ہے۔ جو تخلیق کو دیکھتے ہوئے خالق کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔ جو اولاد کی محبت اور بیماری سمیت زندگی کے مختلف مراحل پہ خود کو یہ یاد دلاتے رہتے ہیں کہ ہم آزمائے جا رہے ہیں۔ جو خوش دلی سے اپنی آزمائش سے گزرتے ہیں۔ جب غلطی کرتے ہیں تو پلٹ جاتے ہیں۔ جو کرّہء ارض پر وسائل کی چھینا جھپٹی، قتل و غارت اور فساد سے دور رہتے ہیں۔ اس سب کے بعد بھی وہ کسی عظمت کا دعویٰ نہیں کرتے۔ وہ ہیں اشرف المخلوقات۔ باقیوں کے لیے، ایک عظیم اکثریت کے لیے ''ذہین درندے‘‘ کا لقب زیادہ موزوں رہے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں