سائنس اور ٹیکنالوجی کے باب میںایک کے بعد دوسری پیش رفت ہوتی رہتی ہے ۔ اس ضمن میں جوچیزیں میری نظر سے گزرتی ہیں ، ان کے میں نوٹس بناتا رہتاہوں ۔ جو دلچسپ چیزیں مستقبل میں پڑھنا ہوتی ہیں ، ان کے عنوان اور حوالہ جات بھی اپنے پاس محفوظ کرتا رہتا ہوں ۔ ان دلچسپ نکا ت میں سے کچھ قارئین کی نذر۔
1۔ یہ بات انتہائی حیرت انگیز ہے کہ انسانی دماغ وزن میں صرف تین پائونڈ ہونے کے باوجود خوراک اور آکسیجن سے پیدا ہونے والی بیس فیصد توانائی کھا جاتاہے ۔ اب تک کسی اور مخلوق میں ایسا نہیں دیکھا گیا۔ انسانی دماغ میں نچلا حصہ ، برین سٹیم سانپ اور رینگنے والے جانداروں سے مشابہ ہے ۔ درمیانی حصہ لمبک سسٹم چار ٹانگوں والے جانوروں سے مشابہہ ہے ۔اوپر والا حصہ سیریبرل کارٹیکس اسے تمام جانداروں پر فوقیت دلاتاہے ۔ نچلے دو حصوں میں جبلتیں ، جب کہ اوپر والے میں عقل ہوتی ہے ۔ درمیان والا حصہ خوف سمیت تمام جذبات سے متعلق ہے ۔ درمیان والے حصے میں جو پرزہ خوف کو کنٹرول کرتاہے ، اسے امیگڈلا(amygdala) کہتے ہیں ۔مردوں میں یہ عورتوں کی نسبت بڑا ہوتاہے ۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ چھپکلی ، چوہے اور کسی بھی خطرے میں مرد خواتین کی نسبت عموماًکم خوفزدہ ہوتے ہیں ۔
ہسٹری ٹی وی کی دستاویزی فلم ''انسانی دماغ کے اسرار ‘‘secrets of the human brain اچھی ہے ۔ amygdala دماغ کا انتہائی مربوط حصہ ہے ۔ یہ جذبات سے جڑا ہوا ہے تو عقل سے بھی اور زندگی برقرار رکھنے والے برین سٹیم سے بھی ۔ ہر جاندا ر میں اپنی جان کی حفاظت کا جذبہ پایا جاتا ہے ۔ یہ پیدائشی طور پرہم سب جانداروںمیںbuilt inہے ۔ اس خوف پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ زندگی کی حفاظت اسی کی مدد سے ہوتی ہے ۔ میدانِ جنگ میں جو اس پر قابو پاتاہے ، شہید ہوتا ہے ، اللہ اسے ہمیشہ کی زندگی عطا کرتاہے ۔
آپ کو جب دشمن سے واسطہ پڑتاہے تو amygdalaسے پیغام فوراً برین سٹیم میں جائے گا۔ برین سٹیم دل کو تیز دھڑکنے کا حکم دے گا۔جسم کے ہر حصے میں زیادہ توانائی بھجوائے گا تاکہ آپ دشمن سے لڑ سکیں ۔ جب آپ کو سٹیج پر چڑھ کر تقریر کرنا ہے اور آپ کو اعتماد کی کمی کے باعث یہ مشکل لگتاہے تو بھی آپ کا دل تیز تیز دھڑکنے لگے گا۔ اس وقت شایدآپ کو یہ ایک مصیبت لگے لیکن اگر دل ایسے وقت میں تیز نہیں دھڑکے گا تو آپ اپنے حواس قائم نہیں رکھ سکیں گے اور شاید زمین پر جا گریں۔ میدانِ جنگ میں جب عقل جان کے خوف پر غالب آتی ہے تو سپاہی او رجنرل حیران کن کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔
امریکن نیوی میں جو تربیت کرائی جاتی ہے ، اس میں سائنسدانوں کو معلوم ہوا ہے کہ ڈوبنے کے خوف سے زیادہ بڑا خوف کوئی نہیں ہے ۔ یہاں زیادہ تر کارٹیکس ہار جاتاہے اور امیگڈلا جیت جاتاہے ۔ بندہ عقل کی بجائے جذبات کی پیروی کرتاہے ۔
عام حالات میں دماغ جسم کے ساتھ جو پیغام رسانی کرتاہے ، اس کی رفتار 270میل فی گھنٹا ہوتی ہے لیکن خطرناک صورتِ حال میں یہ رفتار بہت بڑھ جاتی ہے ۔
انسان میں کسی چیز کی تہہ تک پہنچنے اور منصوبہ بندی کرنے یعنی reasoning and planningکا کام frontal lobesکا ہے ۔ اگر یہ خوف پہ غالب ہوسکیں تو خوفناک صورتِ حال میں بھی آدمی عقلمندی کے ساتھ ری ایکشن دیتاہے ۔ دماغ اگرچہ چھوٹا سا ہے لیکن اس میں خون کی نالیاں کئی میل لمبی ہیں ۔
وقت ملے تو یہ پڑھنا ہے : جیٹ سٹریم (Jet Streams)کیا ہیں اور وہ کرّہ ء ارض کو کیسے گرم رکھتی ہیں ۔ جرنل نیچر میں ایک تحقیق شائع ہوئی ہے کہ northern jet streams will shift southwards if ice continued to be melted. اسے پڑھنا ہے ۔ ایک تحقیق یہ ہے کہ اگر greenlandآئس شیٹس پگھل گئیں تو سمندر 24فٹ اوپر ہو جائے گا اور اگر انٹارکٹکا پورا پگھل جائے تو 200فٹ تک۔
صرف ہائیڈروجن کے مرکز میں نیوٹران نہیں ہوتا۔ باقی سب میں پروٹون کے علاوہ نیوٹرون بھی ہوتے ہیں ۔زندہ چیزوں میں بھی ہائیڈروجن ایٹم استعمال ہوئے ہیں اور خود ہائیڈروجن گیس میں بھی ہائیڈروجن ہے ۔ لیکن یہ ہمارا مغالطہ ہے کہ ہائیڈروجن گیس مردہ ہے ۔ سب زندہ ہیں ۔ سب اُس کی تسبیح پڑھتے ہیں ۔ جب ایک عنصر کے مرکز میں پروٹون کی تعدا دبدلتی ہے تووہ ایک عنصر سے دوسرے میں بدل جاتاہے ۔
ہائیڈروجن سے بورون تک ، سب سے ہلکے پانچ عناصر بگ بینگ میں بنے تھے ۔ اگرچہ ستاروں میں بھی ہائیڈروجن سے بھاری عناصر بنتے ہیں ۔ ان پانچ سے آگے کے سارے عناصر تو بہرحال ستاروں ہی میں بنے ہیں ۔ انتہائی درجہ حرارت اور دبائو میں عناصر کے ایٹم ایک دوسرے کے ساتھ فیوژ ہوتے ہیں اور بھاری عناصر بنتے ہیں ۔ اسے نیوکلیئر فیوژن کہتے ہیں ۔ بڑے ستاروں میں مرکری بن سکتاہے ، جس کا نمبر 80 ہے ۔ اس کے مرکزے میں 80 پروٹون ہیں ۔ بہت سے عناصر جیسے کہ یورینیم سپر نووا کے دوران بنتے ہیں ۔سپر نووا ایک عظیم دھماکہ ہے ، جو بڑے ستاروں کی فنا کے عمل میں رونما ہوتاہے ۔
یورینیم 92واں عنصر وہ سب سے بھاری عنصر ہے ، جو کہ قدرتی طور پر پایا جاتاہے ۔ کوئی قدرتی عمل ایسا نہیں جو کہ اس سے بھاری عنصر قدرتی طور پر بنا سکے ۔ اس کے بعد انسان نے تجرباتی طور پر کافی عناصر بنائے ہیں لیکن عام طور پر ان کی زندگی بہت مختصر ہوتی ہے ۔ امریکہ اور سویت یونین میں نئے عناصر بنانے کا ایک مقابلہ جاری رہا تھا۔
ہماری کائنات میں 92عناصر پائے جاتے ہیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ دوسری کائناتوں میں 192ہوں اور وہ Stable ہوں اور وہ اس کی تشکیل میں شامل ہوں ۔ اگرایسا ہوا اور اگر ہم کبھی انہیں دیکھ سکے تو ہمیں وہ جادوئی عناصر لگیں گے۔ ایسی کوئی چیز ہم نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی ہوگی۔ اس لیے کہ ہائیڈروجن اورآکسیجن ملیں تو پانی بن جاتاہے ۔ اگر ہائیڈروجن ایک نئے ، بالکل مختلف عنصر سے ملے تو شاید ہم ایک جادوئی چیز سے متعارف ہوں ۔
انسان اب انتہائی حساس گریوی میٹر کی مدد سے زمین کے نیچے ذخائر کی موجودگی کا سراغ لگانے کی طرف بڑھ رہا ہے ۔
سٹیم سیل سے جلد اور بال بنانے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اس سے پیوند کاری کے لیے اصل اعضا لیب میں بنانے کی طرف پیش رفت ہوئی ہے ۔(جن کو جسم مسترد نہیں کرے گا )۔یہ اسی عمل کو سمجھ کر سیکھنے کی طرف قدم ہے ، جس میں بچے کے اعضا بچہ دانی میں بنتے ہیں۔
انسانی جسم میں خون کے بہائو کی سیمولیشن (simulation) کر لی گئی ہے ۔