"FBC" (space) message & send to 7575

ارسطو، سکندرِ اعظم ، محمد علی ، باقی کون رہے گا؟

باکسر محمد علی تو 1980ء ہی میں مر گیا تھا؛البتہ وہ محمد علی جوایک اچھا انسان تھا، ابھی مزید جیے گا ۔یہ بات درست ہے کہ محمد علی تین مرتبہ عالمی فاتح بننے والا واحد باکسر تھا۔یہ بات درست ہے کہ اس کی جوانی کے پانچ قیمتی سال ویت نام جنگ میں شمولیت سے انکا رپر پابندی کی نذر ہوئے ورنہ وہ شہسواری کے اور جوہر دکھاتا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ 1978ء میں تیسری بار عالمی چیمپئن بننے کے صرف دو برس بعد جب لیری ہومز کے مقابل وہ اکھاڑے میں اترا تو یہ بات زبان زدِ عام تھی کہ محمد علی کے جسم میں لرزش پید ا ہو چکی ہے ۔ کہاجاتاہے کہ لیری ہومز کو بخوبی علم تھا کہ محمد علی کے جسمانی نظام میں خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں ۔ وہ لڑنا نہیں چاہتا تھا۔عالیشان عروج کے سولہ برس دیکھنے کے بعد محمد علی 2اکتوبر1980ء کوجیتنا تو درکنار، وہ ڈھنگ سے لڑ بھی نہیں سکا اور گیارہویں مرحلے میں چاروں شانے چت ہو گیا۔ 
محمد علی کی کہانی انسانی عروج و زوال کی شاہکار کہانی ہے ۔ جسمانی اور ذہنی طور پر اپنے حریفوں سے اس کا کوئی موازنہ نہیں تھا ۔برق رفتاری سے ناچتے ہوئے ،وہ ان کے گھونسے خالی جانے دیتا۔ پھر وہ حریف پہ پل پڑتا۔ اس کے زیادہ تر حریف ناک آئوٹ ہوئے۔ میں نے اسے لڑتے ہوئے دیکھا ہے ۔ جسمانی سے زیادہ وہ دماغی طور پر اپنے حریفوں سے برتر تھا۔ ہر نفس میں اپنی جان کا خوف رکھا گیا ہے ۔ لڑائی کے دوران یہ خوف شدید ہوتاہے اور جسمانی توانائی چوس لیتاہے کہ دشمن ہمارے جسم پہ کاری ضرب لگائے گا۔ محمد علی نے بڑی حد تک اس خوف پہ قابو پالیا تھا۔ وہ دیکھ بھال کے اس زاویے سے دشمن کو وہ گھونسا مار تا تھا ، جو اسے چاروں شانے چت کر دیتا۔
محمد علی کی جوانی کے وہ مہ و سال اس کا اصل امتحا ن نہیں تھے، جو اس نے اکھاڑے میں گزارے ۔ اس دوران تو وہ غالب ہی رہا۔ اس کا اصل مقابلے حالات کے اکھاڑے میں کھڑی اپنی زندگی سے تھا، جو اس پہ آزمائشوں کے وار کرتی رہی اور آخر اسے ہرا کر چھوڑا۔ اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو آج اخبارات کی شہ سرخیاں دیکھ لیجیے ۔ ''عظیم ترین باکسر محمد علی کو موت نے ہر ادیا‘‘ ۔''باکسنگ کے بے تاج بادشاہ محمد علی کو موت نے ناک آئوٹ کر دیا‘‘۔ 
کہا جاتاہے کہ ویت نام جنگ میںشرکت سے انکار پر اگر پانچ سالہ پابندی نہ ہوتی تو کہیں زیادہ شان و شوکت اور عظمت حاصل کرتا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر ایسا ہو بھی جاتا تو کیا وہ اپنی بڑھتی ہوئی عمر روک سکتا تھا؟ کیا وہ بڑھاپے اور پارکنسن کی بیماری سے محفوظ رہ سکتا تھا؟محمد علی کی کہانی ثابت کرتی ہے کہ ہمارے بس میں کچھ بھی نہیں ۔کئی پہلوان تو دورانِ کھیل ضرب لگنے سے ، بیماری یا حادثے میں اچانک مر جاتے ہیں ۔آپ باکسر محمد علی ہیں یا لوگوں کے مذاق کا نشانہ ایک نحیف شخص ، آپ دونوں کا انجام ایک ہے ۔ دونوں کو مر جانا ہے ۔ آپ باکسر محمد علی ہیں یا لوگوں کے مذاق کا نشانہ ایک نحیف شخص، آپ زندگی کے اکھاڑے میں کھڑے ایک پہلوان ہیں ۔ یہاں حالات کی آزمائشوں سے آپ کو اپنی موت تک لڑنا ہوگا۔ یہاں موت سے قبل آپ کو شکست تسلیم کرنے کا حق حاصل نہیں ۔ یہ جنگ آپ کو بہرحال لڑنا ہوگی ۔ اگر آپ ہمت اور عقلمندی سے لڑیں تو جیت سکتے ہیں ۔ یہ آپ ہی کے لیے بہتر ہوگا۔ 
آپ باکسر محمد علی ہیں یا بل گیٹس، آپ عبدالستار ایدھی کی طرح نیک نام ہیں یا کسی کرپٹ سیاستدان کی طرح بدنام، آپ ایک عالم کے گھر پیدا ہوئے یا کسی غلط جگہ، آپ بڑھاپے اور موت کو نہیں روک سکتے۔ آپ اپنے والدین، اپنی شکل و صورت ، پیدائشی امارت یا غربت منتخب کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔عقل کے ذریعے خدا کی تلاش کے بعد آپ کو صرف اور صرف ایک اختیار دیا گیا ہے اور وہ یہ کہ موت سے قبل جن آزمائشوں سے آپ کو گزارا جا رہا ہے ، آپ ان میں بہتر طور پربروئے کار آئیں ۔ 
آپ باکسر محمد علی ہیں ، دنیا کے سب سے دولت مند شخص یا افریقہ میں غربت کے مارے ہوئے ، ہر انسان کو تکلیف سے گزرنا ہوتا ہے۔ ہو سکتاہے کہ آپ کے پاس دولت کے انبار ہوں لیکن جس قسم کا جسم اور دماغ ہمیں دیا گیا ہے، ان میں تکلیف کے لوازمات پیدائشی طور پر موجود ہوتے ہیں ۔ اس 100سالہ مختصر زندگی کے سفر کو کوئی چیز اگر بہتر بناسکتی ہے تو وہ علم اور عقل ہے ۔ 
سولہ برس محمد علی اکھاڑے میں حریف پہلونوں سے لڑا۔ تیس برس وہ پارکنسن کی بیماری سے لڑتا رہا۔ اکھاڑے کے سولہ برسوں میں جوانی ، تالیوں اور نعروں کی گونج اس کے ہم رکاب تھے۔ تیس سالہ بیماری میں اس کا اپنا جسم اس کا ساتھ دینے پر تیار نہیں تھا۔ اکھاڑے میں پہلوانوں کے چھکّے چھڑا دینے والا محمد علی زیادہ بہادر تھا یا تیس سالہ بیماری میں ایک نارمل زندگی گزارنے کی کوشش کرنے والا محمد علی ؟بہت سے شہسوار جوانی کی قوت ، شہرت اور دولت سے گزرنے کے بعد بڑھاپے کی بیماری ، گمنامی اور بے بسی برداشت نہیں کر پاتے اور خود کشی کر لیتے ہیں ۔ محمد علی ایک بہادر شخص تھا۔ زندگی کے اکھاڑے میں حالات کے ساتھ وہ کامیابی سے دائو پیچ کھیلتا رہا ؛حتیٰ کہ اسے موت نے اچک لیا۔ میں ، آپ اور دنیا کا ہر شخص خوش قسمت ہے کہ ہمیں خدا نے اس زمین پر آزمائش کے قابل سمجھا۔ ہمیں اس نے حواس کے پردوں میں قید کیالیکن عقل بھی دی کہ غور کر سکیں ، تدبیر کر سکیں ۔ 
محمد علی کی زندگی کا سبق یہ ہے کہ انسان عاجز ہے ۔ محمد علی کو The Greatestپکارا جاتا تھا۔ پھر وہ دن آئے ، جب اس کا اپنا جسم اس کا حکم ماننے سے منکر تھا۔ آج کی نوجوان نسل محمد علی سے زیادہ عامر خان کو جانتی ہے ؛حالانکہ اس عظیم باکسر سے ان کا کوئی موازنہ ہی نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سو برس بعد شاید محمد علی کا نام بھی کسی کو یاد نہ رہے ۔ اس کے برعکس تین بڑے پیغمبروںؑ کے نام کرّہ ء ارض کا تقریباً ہر شخص جانتاہے ۔میرے دوست کا کہنا ہے کہ مخلوق ارسطو اور سکندرِ اعظم کو بھی جانتی ہے ۔ سکندر اور ارسطو غیر متنازعہ لوگ نہیں۔ سکندر کچھ کا ہیرو اور کچھ کا ولن ہے ۔ ارسطو اور آئن سٹائن کو جس بنیاد پر جانا جاتاہے ، وہ انسانی عقل کا غیر معمولی استعمال ہے ۔ ارسطو کا یہ نظریہ تو بالکل ہی غلط تھا کہ زمین کائنا ت کا محور و مرکز ہے لیکن بہرحال بنی نوعِ انسان کو اس نے کائنات کے متعلق غو ر و فکر پہ آمادہ کیا۔سائنسدانوں کو ایک غلط نظریہ پیش کرنے کی جو سہولت حاصل تھی، وہ پیغمبروں ؑ کے پاس نہیں تھی ۔ بہرحال ، یہ ایک الگ موضوع ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں