"FBC" (space) message & send to 7575

جبلتوں کا تعامل اور عقل کی شکست

جبلتوں کا باہمی تعامل کیا ہے ، جس کے بارے میں کہا جا تاہے کہ ان کا مکمل طور پر ادراک کبھی نہ کیا جا سکے گا۔ تعامل سے مراد یہ ہے کہ دو یا دوسے زیادہ جبلتیں ایک دوسرے کے ساتھ مل جاتی بلکہ Mixہو جاتی ہیں اور پیچیدہ انسانی رویے کی بنیاد بنتی ہیں ۔ یہ اس قدر اہم موضوع ہے کہ جس کا تصور بھی ہمارے وہم و گمان سے باہر ہے ۔ انسانی زندگی مکمل طور پر ان جبلتوں کی پیروی میں گزرتی ہے ۔ معدودے چند کے سوا، تقریباً تمام انسانیت انہی کی پیروی میں گمراہی کی زندگی گزارتی ہے ۔ یہ سب انسانی دماغ بلکہ حیوانی دماغ میں بھی پیدائشی طور پر نصب ہیں ، انگریزی میں جس کے لیے built inکی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ جب نفس کے بارے میں پروفیسر احمد رفیق اختر سے پوچھا گیا کہ کیا نفس دماغ میں ہوتاہے تو انہوںنے اثبات میں جواب دیا ۔ میری رائے میں دماغ کی بنیادی ساخت ہر ایک کو لازماً پڑھنی چاہیے ۔ دماغ کا سب سے نیچے والا حصہ جسے برین سٹیم کہتے ہیں ، وہاں زندگی کو برقرار رکھنے والے تمام تر عوامل کے احکامات ہر ایک عضو کو جا رہے ہوتے ہیں ۔ یہ احکامات ریڈھ کی ہڈی سے nervesسے بجلی کی رفتار سے ہر عضو ، مثلاً معدے، دل ، جگر ، گردے ، آنتوں وغیرہ تک پہنچتے ہیں اور زندگی کو برقرار رکھنے والے بنیادی افعال ہمارے علم کے بغیر ہی تکمیل پاتے رہتے ہیں ۔ ہر جاندار میں مخالف جنس کی کشش بھی یہیں موجود ہوتی ہے ۔انسانوں میں صرف اتنا فرق ہے کہ یہ پیچیدہ تر ہوتی چلی جاتی ہے ۔ 
ایک نر سانپ جب مادہ سانپ کو ان مخصوص ایام میں دیکھتاہے ، جن دنوں باہمی تعلقات کی خواہش جاگ اٹھتی ہے تو وہ پہلے ہی لمحے میں اس کی طرف بھاگ کھڑا ہوگا۔ جب آپ کتے یا یاچار ٹانگوں والے دیگر جانوروں کو دیکھیں تو ان میں فیصلے صرف برین سٹیم میں نہیں ہوتے بلکہ ان میں جذبات والا دماغ کا حصہ لمبک سسٹم بھی نصب ہے ۔ چار ٹانگوں والے جانوروں کو ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں نر مادہ کے تعلقات اصولوں کے پابند نہیں ہوتے ۔ ان میں خونی رشتوں کی اہمیت نہیں ہوتی ۔ ایک ہی مادہ کو اپنائے رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ۔ انسانوں میں یہ سب سے زیادہ پیچیدہ ہے ۔ انسانوں میں دماغ کا اوپر والاحصہ سیریبرل کارٹیکس دنیا میں نفیس ترین ہے ۔ماضی اور حال کی پانچ ارب مخلوقات میں سے کبھی کسی کو اس طرح کا سیریبرل کارٹیکس نصیب نہیں ہوا۔اس لیے کہ انسانوں پر خدا نے مذہب اتارنا تھا۔ ان سے بہتر رویے کا مطالبہ کرنا تھا۔ ان سے شادی بیاہ اور لین دین سمیت زندگی کے ہر شعبے میں قوانین نافذ کرنے کا مطالبہ کرنا تھا۔
اکیسویں صدی میں یورپ اور امریکہ کے پڑھے لکھے باشندوں کا ایک استدلال یہ بھی ہے کہ نر مادہ کے تعلقات میں کسی قسم کے قوانین ضروری نہیں ہیں کہ کسی جانور میں ایسا نہیں ہوتا اور یہ فطرت کے خلاف ہے ۔ اب ایسے پڑھے لکھے جاہلوں کو آپ کیا کہیں گے۔ یہ استدلال اگر اختیار کیا جائے تو پھر جانور تو کھلے آسمان تلے زندگی گزارتے ہیں ، آپ بھی گزاریں ۔ جانور کچا گوشت کھاتے ہیں ، آپ بھی کھائیں ۔ جانور فریج اور اے سی استعمال نہیں کرتے، آپ بھی نہ کریں کہ یہ فطرت کے خلاف ہے ۔ جانورتو اوزار استعمال نہیں کرتے ، آپ بھی نہ کریں ۔ جانور گاڑی ، ہوائی اور بحری جہاز میں سفر نہیں کرتے ، آپ بھی نہ کریں ۔ 
خدا نے ہمیں عقل دی ۔ اس سے کام لے کر ہم نے مضبوط گھر بنائے ۔ منظم طریقے سے فصلیں کاشت کیں ۔ خوراک ذخیرہ کی ، اسے خراب ہونے سے بچانے کے طریقے استعمال کیے ۔ ہم نے سفر کے لیے ذرائع آمدورفت تشکیل دئیے ۔ یہ سب عقل کے ثانوی فوائد ہیں ۔ سب سے بنیادی مقصد ، جس کے لیے عقل دی گئی تھی ، اس کا مقصد یہ تھا کہ بندہ کائنات پر غور کر کے خدا کی نشانیوں سے اس تک پہنچے اور پھر خدا کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرے۔ یہ سب نفس کو بہت ناگوار گزرتاہے کہ اس کی آزادی سلب ہوتی ہے اور لذت آمیز چیزوں سے اسے دور رہنے کا حکم اسے تکلیف دیتاہے ۔ 
حبّ ِ جاہ کے بارے میں کہا جاتاہے کہ یہ طاقتور ترین جبلتوں میں سے ہے ۔ راہِ سلوک کے سفر میں ، یہ سب سے آخر میں دل سے رخصت ہوتی ہے ۔ جہاں تک میں سمجھا ہوں ، یہ دوسروں کی نظروں میں ممتاز یا ہیرو بننے کی آرزو ہے ۔ دوسروں کی تحسین آمیز نگاہوں سے ایک سرور سا بندے پہ طاری ہوتاہے ۔ اس سے بندے کے طرزِ عمل میں ایک بناوٹ جنم لیتی ہے ۔ اس کے بولنے کا طریقہ مصنوعی ہوجاتاہے ۔ دوسروں کی زیادہ سے زیادہ توجہ پانے کے لیے وہ اونٹ پٹانگ حرکتیں کرنے لگتاہے ۔ طنزو مزاح کا نشانہ بنتا ہے ۔ وہ سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ ردّعمل پیدا کرنے والی حرکتیں کرتاہے۔ وہ چلتی گاڑیوں کے درمیان موٹر سائیکل کا اگلا پہیہ اٹھا کر چلاتا ہے۔ یہ وہ چیز ہے کہ جہاں وہ اپنی جان کے خوف پر بھی غالب آجاتا ہے؛حالانکہ جان کا خوف سے زیادہ طاقتور اور بنیادی جبلت ہے اور اسی کی بنیاد پر زندگی قائم ودائم ہے۔ حب جاہ اس بنیادی ترین جبلت کو بھی پچھاڑ دیتی ہے ۔ موٹر سائیکل کا پہیہ اٹھا کر چلانے کی خواہش میں صرف حبِ جاہ ہی نہیں بلکہ دیگر جبلتیں بھی تعامل کرتی ہیں ۔ موٹر سائیکل سوار جب یہ سوچتا ہے کہ خواتین بھی اسے دیکھ ر ہی ہوں گی اور اس کی بہادری سے متاثر ہوں گی تو حبِ جاہ کی جبلت مخالف جنس کی کشش کی جبلت کے ساتھ تعامل کر جاتی ہے ۔ یوں یہ دونوں مل کر اپنی جان سے محبت کی جبلت اور عقل پہ غالب آجاتی ہیں ۔
اسی طرح سے جب آپ تیز رفتار سے گاڑی چلاتے ہوئے میوزک چلا کر خیالوں کی دنیا میں کھوتے ہیں ، جن میں ہو سکتاہے کہ آپ پاکستان کو کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت کردے رہے ہوں ۔ یا خواتین کی خیالی دنیا میں جب وہ ایسے زیورات اور ملبوسات زیبِ تن کیے بیٹھی ہوں یا اس قدر حسن کی مالک بن جائیں کہ سب مبہوت بیٹھے ہوں تو ان میں بھی کئی جبلتیں آپس میں تعامل کر جاتی اور عقل پہ غالب آجاتی ہیں ۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ سب جھوٹ ہے لیکن ورلڈ کپ جیتنے کے خیالی پلائو کے موقع پر حبِ جاہ، خود ترحمی اور مخالف جنس کی کشش کی تین جبلتیں تعامل پذیر ہیں ۔ یہاں آپ کی عقل مجبور ہو جاتی ہے کہ ایک فرضی صورتِ حال (Imagination)آپ کے لیے تخلیق کرتی رہے اور آپ اس میں کارنامے سرانجام دیتے رہیں ۔ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ سب جھوٹ ہے ۔ پھر بھی یہ بہت لذت انگیز ہوتاہے ۔ ہر انسان ان میں سے گزرتاہے اور عمر کے ساتھ ساتھ یہ بدلتی رہتی ہیں ۔ 
جبلتوں کا تعامل! یہ وہ چیز ہے ، جو کسی سکول اور کسی مدرسے میں پڑھائی نہیں جا رہی ۔ مشرق میں اور نہ مغرب میں ۔ صرف اور صرف کائنات کے سب سے بڑے استادؐسے رہنمائی حاصل کرنے والے ہی اس پر بات کر سکتے ہیں ۔ آئیے آغاز کریں ۔ آئیے ، کشف المحجوب کھولیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں