"FBC" (space) message & send to 7575

دانائے راز

یہ اقبالؔ نے کہا تھا 
اگر کج رو ہیں انجم، آسماں تیرا ہے یا میرا؟
مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو، جہاں تیرا ہے یا میرا؟
اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن 
زوالِ آدمِ خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا؟
جتنا اور جس قدر انسان جانتا چلا جاتاہے ، اتنا ہی وہ حیرت میں ڈوب جاتاہے ۔ حیرتوں کا یہ سفر اگر راس آجائے تو موت تک جاری رہتاہے ۔ جو جتنا جانتاہے ، اس کی گفتگو میں دانائی بڑھتی جاتی ہے ؛حتیٰ کہ وہ خدا کی منشا کو سمجھنے لگتاہے ۔ پھر وہ ا س کے سامنے جھک جاتاہے ۔ اس کے بعد وہ پرسکون ہو جاتاہے۔ دوسروں کی طرح اس کی زندگی بھی حادثات اور سانحات سے گزرتی ہے ۔ اس کا بیٹا بھی ذہنی معذور ہو تاہے ۔ اسے بھی کاروبار میں نقصان پہنچتا ہے ۔کبھی صحت گر بھی جاتی ہے لیکن ان صدمات سے وہ سلامت گزرتاہے ۔ یہ اسے پست و پامال نہیں کر پاتے۔ اس کی ایک زندہ مثال جہانگیر صاحب ہیں ۔ ان کے تین بیٹے ذہنی طور پر معذور ہیں ، ان میں سے ایک مرگی کا مریض بھی ۔ بیٹی بچپن ہی میں بیمار ہو کر فوت ہو گئی ۔آپ جہانگیر صاحب سے ملیں تو آپ کو شبہ تک نہ ہوگا کہ زندگی میں اس قدر بڑے حادثات سے وہ گزرے ہیں اور مسلسل گزر رہے ہیں ۔ ہمیشہ وہ مطمئن اور پرسکون نظر آتے ہیں ۔ ہمارے پورے حلقہ ء احباب میں کبھی کسی نے انہیں روتے دھوتے، شکوہ کرتے نہیں 
دیکھا۔ انہیں دیکھ کر یقین ہو جاتاہے کہ خدا بندے کو اس کی ہمت سے زیادہ نہیں آزماتا؛ ہاں مسئلہ یہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت اپنی استطاعت (Capacity)سے آگاہ ہی نہیں ہوتی ۔ ہم تکلیفو ں میں روتے دھوتے ، شکوے شکایات کرتے گزرتے ہیں ۔ مصائب ، تکلیفوں اور آزمائشوں سے ہر انسان کو گزرنا ہے۔ یہ خدا کا فیصلہ ہے ۔ اب ہم ان میں عقل و حکمت کی مدد سے ، صبر اور خدا کی مدد سے راستہ بناتے ہوئے گزرتے ہیں یا پھر چیخ و پکار کرتے ہوئے، یہ اختیار ہمیں دے دیا گیا ہے ۔ 
وہ شخص جو خدا کی منشا کو سمجھ لیتاہے ، وہ خواہشات سے آزاد ہو جاتاہے اور وہی کامیاب ترین لوگوں میں شمار ہوتاہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی کاروبار اور ضروریاتِ زندگی سے اپنا ہاتھ اٹھالے ۔ وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے مال کمانے کی تدبیر ضرور کرتاہے لیکن کامیابی اور ناکامی دونوں صورتوں میں وہ راضی رہتاہے اور پھر ایک نئی تدبیر کے ساتھ ، ماضی کی ناکامیوں سے سیکھ کر بہتر طریقے سے میدان میں اترتا ہے ۔ حکمران طبقات، سیاسی اشرافیہ کو دیکھیں تو وہاں دو ہی طرح کی جدوجہد نظر آتی ہے۔ ایک اقتدار حاصل کرنے کی خواہش اور دوسری دولت میں اضافے کی۔آدمی ان خواہشات کا غلام ہو جاتاہے ؛حالانکہ ایک 
حد سے زیادہ جب دولت بڑھ جاتی ہے تووہ ہمارا رزق ہوتاہی نہیں ۔ میں دن میں محدود مقدار میں کھانا کھا سکتا اور لباس پہن سکتا ہوں ۔ اس کے بعد جو اضافی اربوں ڈالر میرے بینک میں موجود ہوں گے ، وہ دوسروں کا رزق ہیں ۔ ہو سکتاہے کہ نو دولتیوں کی طرح مجھ پر اپنی ضرورت سے بڑھ کر گاڑیاں رکھنے کا جنون سوار ہو جائے ۔ اب میرے ہاتھ سے گاڑیاں بنانے والوں کو رزق پہنچتا رہے گا۔ ہو سکتاہے کہ میں ایسی گھڑیاں استعمال کرنا چاہوں ، جن پر ہیرے جڑے ہوں تو یہ ہیرے کی کان میں کام کرنے والے محنت کشوں سے لے کر گھڑی بیچنے والے کا رزق بن جائے گا۔ اگر آپ بل گیٹس اور عمران خان جیسے لوگوں کو دیکھیں جو بڑے پیمانے پر سماجی بہبود کا کام بھی کرتے ہیں تو ان کے جسم پر آپ کو کوئی برینڈڈ چیز نظر نہیں آئے گی ۔ اس کے برعکس ایک خاص کلاس کے لوگوں میں اگر کوئی اچھے برینڈ کی چیز نہیں پہنے گا تو باقی اس کا مذاق اڑائیں گے ۔
پھر جنسِ مخالف کی کشش، اسے حاصل کرنے کی خواہش ایسی ہے کہ جو انسان کو ساری زندگی اپنی انگلیوں پہ نچاتی ہے ۔ ابھی دو دن قبل اسلام آباد میں سابق چیئرمین سینیٹ کا بھانجا اسی تنازعے میں قتل ہوا ہے ۔ہزاروں سالوں کی تاریخ میں لاکھوں لوگ اسی پر قتل ہوئے ہیں ۔ جائیداد پہ کس قدر ہلاکتیں ہوتی ہیں ، وہ ہم سب کو معلوم ہیں ۔ ایک مرلے زمین پر سگے بھائی، باپ بیٹا ایک دوسرے کو قتل کر دیتے ہیں ۔ ایک دوسرے کو دھوکہ دیتے ہیں ۔ یہ زمین کیا ہے ؟ زمین کے جس ٹکڑے کو آپ اپنی ملکیت قرار دیتے ہیں ، جسے ایک ایک مرلے کے حساب سے خریدا اور بیچا جاتاہے ، اس کے اوپر اور اس کے نیچے کتے ، بلیاں ، کیڑے مکوڑے، سانپ ، بچھو ، چڑیا ، کوّے ، نہ جانے کتنی مخلوقات بیک وقت رہتی ہیں ۔ ہم اسے اپنی ملکیت سمجھتے رہتے ہیں اور پھر بوڑھے ہو کر مر جاتے ہیں ۔ زمین وہیں رہ جاتی ہے ۔ آپ چاند پر دیکھیے، کروڑوں ایکڑ زمین بیکار پڑی ہے ۔جس روٹی ، کپڑے اور مکان کے لیے ہم لڑتے ہیں ، جس سونے اور تیل کے لیے لڑتے ہیں ، وہ سب کے سب ذرائع اسی زمین میں سے اگتے ہیں یا زیرِ زمین دفن ہیں ؛حتیٰ کہ کرنسی نوٹ کپاس سے بنتے ہیں ۔ یہ سب وسائل رکھ دئیے گئے ہیں ۔ یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ کس کے حصے میں کتنا آئے گا۔ ہم صرف کوشش کر سکتے ہیں لیکن یہ کوشش انسانوں کی طرح ہونی چاہیے ، جانوروں کی طرح نہیں ۔ 
اقبالؔ نے جو کہا، وہ اقبالؔ ہی کہہ سکتا تھا۔ اگر کج رو ہیں انجم، آسماں تیرا ہے یا میرا؟اور یہ سوال بھی سو فیصد درست ہے : زوالِ آدمِ خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا؟ خدا کہتا ہے کہ صرف ایک آدمی درکار ہے ، اس زمین و آسمان کو قائم رکھنے کے لیے صرف ایک بندہ ء خدا درکار ہے ۔ اگر ایک مثالی دنیا تعمیر کرنا مقصد ہوتا تو خدا ہمارے دماغوں میں خواہشات کم کر دیتا ، ایثار بڑھا دیتا۔ بیماری اور بڑھاپا ختم کر دیتا ۔ میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جوجاندار بھی پیدا ہوا، بہرحال اسے تکلیف سے گزرنا ہوتاہے ۔ بیماری ، بڑھاپے اور موت سے بڑھ کر کیا تکلیف کسی کو پہنچ سکتی ہے ۔ انسان حالا ت میں بہتری کے لیے جدوجہد کر سکتاہے لیکن اسے خدا بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے ۔ کمیونزم میں بہت سی چیزیں بہت اچھی تھیں کہ شہریوں کو صحت اور تعلیم کی سہولیات ریاست فراہم کرے لیکن اس نے خدا بننے کی کوشش کی ۔ دنیا میں 'سب اچھا‘ کرنے کی کوشش کی ۔ اس کوشش میں پائوں اپنی چادر سے بہت باہر تک پھیلا ئے اور منہ کی کھائی۔ یہ دنیا 'سب اچھا‘ کے لیے بنی ہی نہیں ۔ ایک کشمکش کے لیے وجود میں آئی ہے ۔ یہی اقبالؔ نے کہا ہے ۔ آخری تجزیے میں انسان ان پانچ ارب مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے ، جو اس زمین پر آباد رہی ہیں ۔اپنی اس اوقات کو ہمیں پہچان لینا چاہئیے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں