شروع میں انسان جب اس دنیا میں آیا تو لکھنا پڑھنا تو دور کی بات ، اس کی زبان بھی چند بنیادی اشاروں تک محدود تھی ۔ پہلے آدمؑ سے یہ صلاحیت ہر انسان کو ملی کہ وہ ہر چیز کو ایک نام دے سکتاہے ۔ انسان نے اپنے منہ سے نکلنے والی ہر آواز کو ایک نام دیا۔ اس نے اپنے منہ سے نکلنے والی ایک آواز کو ''الف ‘‘ کانام دیا۔ دوسری آواز کو '' ب‘‘ یا "B"۔ فرض کیجیے کہ انسان نے جب پہلا کچھوا دیکھا ہوگا، تو اس نے اور اس کے ساتھیوں نے یہ فیصلہ کیا ہوگا کہ وہ اسے ''الف‘‘ کا نام دیں گے۔ اس کے بعد مچھلی کو انہوں نے ''الف الف‘‘ کا نام دیا ہوگا۔دنیا کے ایک دوسرے خطے میں بسنے والے قبیلے نے کچھوے کو ''ج‘‘ کا نام دیا۔ یوں ہر زبان میں ہر چیز کا ایک نام رکھا گیا ۔ بے شمار انسانی زبانیں ایجاد ہوئیں ۔ اس کے بعد زبان کے اصول یعنی گرائمر بنی ۔ دنیا کے ہر خطے کے انسانوں میں دوسروں پر غلبہ حاصل کر کے ان کی مفید اشیا ہتھیانے کی خواہش پائی جاتی تھی ۔ ہمیشہ سے جنگ و جدل ہوتی رہی ۔ یوں ایک علاقے کی زبان دوسرے علاقوں پہ رائج ہوتی رہی۔ اس دوران مختلف زبانوں نے ایک دوسرے کے اثرات قبول کیے ۔ انسانوں نے ایک دوسرے سے سیکھا۔ہر علاقے کے لوگوں نے جب ایک دوسرے کو فتح کیا تو ایک دوسرے کی اس جارحیت اور غلبے سے بھی انہوں نے بہت کچھ سیکھا۔ سیکھا اور اپنی نسلوں کو سکھایا۔ سیکھنے سکھانے کا یہ عمل زبانی تھا، تحریری نہیں ۔
اس میں ایک اضافہ یہ ہوا کہ پہلی دفعہ ایک انسان نے مٹی پر ایک نشان بنایا اور کہا کہ یہ ''الف ‘‘ ہے ۔ اب اس کے قبیلے کو یہ معلوم تھا کہ الف کچھوے کو کہتے ہیں ۔ یوں تحریری زبان کا باقاعدہ آغاز ہوا ۔ ان سب چیزوں کی بنیاد صرف اور صرف ایک انسانی خاصیت اور صلاحیت تھی ، جو اسے خدا کی طرف سے بطور تحفہ ملی تھی۔ یہ کہ وہ ہر شے کو ایک نام دینا جانتا تھا ۔
ہر علاقے میں کچھ غیر معمولی انسان تھے۔ کسی نے بلندی سے گہرائی میں گرتے پانی کی توانائی سے فائدہ اٹھانے کی ترکیب سوچی ۔ کسی نے پہلی بار آگ جلانا سیکھی۔ انسان مختلف مفید اشیا کوایک دوسرے سے جوڑ کر پیچیدہ مفید اشیا اور آلات بنانے لگا۔ان میں انسانیت کے لیے مفید اشیا تھیں تو مضر بھی ۔ آگ سے گھر گرم ہوتے تھے اور اسی آگ سے دشمنوں کے گھر جلائے جا سکتے تھے ۔ بڑی ایجادات کرنے والے اکثر لوگ بھی اپنے من کی دنیا میں جھانک نہ سکے ۔ ان میں سے بہت سے غلبے، غصے ، انتقام اور تکبر جیسی بنیادی جبلتوں کے تابع زندگی گزارتے رہے ۔ ادھر دوسری طرف پیغمبرؑ اترتے رہے، جو براہِ راست خدا کی رہنمائی میں زندگی گزارتے۔ ان تمام پیغمبروںؑ کی تعلیمات کا نچوڑ یہ تھا کہ اس دنیا میں جتنے وسائل پائے جاتے ہیں ، وہ سب ایک خدا کے پیدا کردہ ہیں ۔ ہمیں ان سے فائدہ اٹھانا ہے ، دوسروں کے غلبے
سے خود کو بچائے رکھنا ہے لیکن اس زمین پر ہماری آمد کا بنیادی مقصد صرف اور صرف خدا کی تلاش اور اس کے بعد اپنی خواہشات کے خلاف خدائی رہنمائی پر عمل کرنا ہے ۔ اگر الہامی کتب کو آپ پڑھیں تو ان میں بار بار انسانوں سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ غور و فکر کریں ، عقل سے کام لیں ۔
جوں جوں تحریری زبان ترقی پاتی چلی جا رہی تھی ، ساتھ ہی ساتھ انسانی علم میں اضافہ ہو رہا تھا۔ بنیادی انسانی علم میں بڑی بڑی ایجادات اتفاقاً بھی ہوئیں ۔ جو عناصر اس زمین میں پائے جاتے تھے ، ان سے انسان فائدہ اٹھاتارہا اور آج تک اٹھا رہا ہے ۔ اگر آپ غور کریں تو سونے چاندی سے لے کر گندم، چاول تک ، کھانے پینے ، پہننے اور استعمال کرنے کی ہر شے قدرتی طور پر اس زمین کے اندر پائی جاتی ہے یا وہ اس زمین سے اگتی ہے ۔ اسی طرح مختلف مفید جانداروں کی نسلیں ، جیسا کہ گائے ، بھینس اور بکری شروع سے اس زمین پر پائی جاتی ہے ، جن سے ہم فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ یوں دیکھا جائے تو انسان نے خود کچھ بھی نہیں کیا۔ مفید اشیا اور مفیدعناصر پہلے سے پائے جاتے تھے ۔ انسانی دماغ میں انہیں ڈھونڈنے کی صلاحیت بھی پہلے سے پائی جاتی تھی ۔ یوں ہم صرف وہ فائدہ اٹھا رہے ہیں ، جو خدا نے ہمارے لیے یہاں رکھ دیا تھا۔
پندرھویں صدی میں سلطنتِ روم میںJohannes Gutenbergنے جب پرنٹنگ پریس ایجاد کیا تو اس سے آٹھ صدیاں پہلے آخری الہامی کتاب نازل ہو چکی تھی ۔ اسے درختوں کی چھال، چمڑے اور ان دیگر اشیا پر محفوظ کیا گیا تھا ، جن پر لکھا جانا ممکن تھا۔ ہمیشہ ہر زمانے میں لوگوں نے اسے اپنے حافظے میں محفوظ رکھا۔شیخ علی بن عثمان ہجویریؒ کی معرکتہ الآرا کتاب کشف المحجوب بھی غالباً پرنٹنگ پریس کی ایجاد سے تین صدیاں قبل لکھی گئی۔پرنٹنگ پریس کی ایجاد کے بعد ظاہر ہے کہ صورتِ حال بدل گئی ۔ انسانی علم کے تبادلے کا کام بڑی تیز رفتاری سے شروع ہوا۔ سٹیون ہاکنگ کی رائے میں یہ بہت عظیم ایجادتھی۔ دنیا بھر سے نامور اذہان ایک دوسرے کو اپنے مشاہدات اور گہرے غور وفکر سے آگا ہ کرنے لگے ۔
آج کا دور انٹرنیٹ کا دور ہے ۔ انٹرنیٹ سے صرف علم ہی حاصل نہیں ہوتا ، مغالطے اور سو فیصد غلط معلومات بھی کثرت سے ملتی ہیں۔کتاب کی دنیا اور تھی ۔ کتاب کی دنیا میں بھی ایسے افراد کا نزول ہوا ، جنہوں نے ایک ہزار کتابیں لکھنے کا دعویٰ کیا۔ یہ الگ بات کہ ان ایک ہزار کتابوں میں سے کام کے ہزار جملے بھی برآمد نہ ہو سکیں ۔ کتاب کی دنیا میں جنونی افراد بھی وارد ہوئے لیکن مجموعی طور پر سنجیدہ لوگ یہاں غالب رہے ۔ انٹرنیٹ کی دنیا اور ہے ۔ انٹر نیٹ سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی درست ڈیٹا اور غلط ڈیٹا میں فرق کرنے کے قابل ہو اور یہ ایک پوری سائنس ہے ۔آپ کو یہ علم ہونا چاہئیے کہ ناسا کی آفیشل ویب سائٹ کون سی ہے ۔ نیز آپ کو ناسا اور واسا میں فرق معلوم ہونا چاہئیے ۔ آپ دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں کی آفیشل ویب سائٹس ڈھونڈ کر ان سے بہت کچھ پڑھ سکتے ہیں ۔ جہاں کوئی سائنسی دریافت یا خبر آپ کو اچنبھے میں مبتلا کرے ، آپ دوسری بڑی ویب سائٹوں سے اس کی تصدیق کر سکتے ہیں ۔ جہاں تک میں نے دیکھا ہے، آج کل غیر مفید علم(Data)کے انبار انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں لیکن مفید علم بھی کم نہیں۔غور و فکر اور سنجیدہ افراد کی رہنمائی میں آپ ان سے مستفید ہو سکتے ہیں ۔ جب تک ہم پڑھیں لکھیں گے نہیں ، لیبارٹریاں نہیں بنائیں گے اور سائنسدان پیدا نہیں کریں گے ، تب تک ہم عروج حاصل نہیں کر سکتے ۔ جو جتنا زیادہ جانتا ہے ، وہ اتنا زیادہ طاقتور ہے ۔