"FBC" (space) message & send to 7575

تیل دیکھو‘ تیل کی دھار دیکھو

خدشات جھٹکتا ہوا، سی پیک کا اونٹ اب ایک کروٹ بیٹھنے ہی والا ہے۔ کسی تجارتی گزرگاہ، لین دین کے کسی مرکز کی اپنی خاص اہمیت ہوا کرتی ہے۔ اسلام آباد کے جس نواحی علاقے میںہم رہتے ہیں، پندرہ سال قبل یہ ایک ویرانہ تھا۔ رہائشی کالونیوں ،چھوٹی بڑی سڑکوں اور شاہراہوں کی تعمیرکے بعد یہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان یہ ایک مرکزی راستہ بن گیا ۔ پی ڈبلیو ڈی، نیشنل پولیس فائونڈیشن اور پاکستان ٹائون کے مشترکہ بازار میں اب ہر برینڈجگمگاتاہے۔ بڑی دکانوں کے کرائے لاکھوں میں اور مرکزی شاہراہ پر پلاٹ کی قیمت اب کروڑوں میں ہے۔ سینکڑوں دکانوں میں ہزاروں افراد روزگار کماتے ہیں۔ کئی بڑے ہسپتال اور ہوٹلوں کی شاخیں کھل چکی ہیں۔ گاڑیوں کی ایک پوری مارکیٹ بھی۔ یہ ہوتا ہے تجارتی مرکز اور یہ ہوتی ہے بڑی شاہراہ۔ 
سی پیک کا مطلب یہ ہے کہ چین دنیا کے کم از کم ساٹھ ممالک سے جو تجارت کرنا چاہتا ہے، وہ اب پاکستان کے راستے ہوا کرے گی۔ آسان الفاظ میں پورے کا پورا پاکستان ہی تقریباً ایک مارکیٹ اور شاہراہ کی شکل اختیار کرلے گا۔ وہ شاہراہ اقوامِ عالم کو جس سے گزر کر لین دین کی ایک بڑی منڈی تک پہنچنا ہو۔ حیرت انگیز طور پر اس موقع پر ،خوشی سے زیادہ شکوک و شبہات اور اس سے بھی بڑھ کر دھونس دھمکیوں کا طرزِ عمل اختیار کیا گیا۔ قوم پرست سیاسی لیڈر قیادت کر رہے تھے۔ اس اثنا میں سب سے زہریلا فقرہ جو سننے میں آیا، وہ یہ تھا: ہمارے تحفظات دور نہ ہوئے تو سی پیک کو ہم کالا باغ ڈیم بنا دیں گے۔ 
ذرا اندازہ کیجیے کہ دور دراز کے دیہات میں، سینکڑوں برس میں جہاں ان گنت نسلیں، غربت میں زندگی گزارتی، مفلسی کے قبرستان میں دفن ہوتی آئی ہوں، اچانک وہاں بڑی شاہراہیں اور کارخانے لگنے کی امید پیدا ہو۔ علاقے کے تمام بااثر لوگ اب اس کوشش میں ہیں کہ سڑک ان کی زمینوں سے گزرنی چاہیے۔۔۔ ''وگرنہ ہم کچھ بھی بننے نہ دیں گے۔‘‘ 
علاقے کی اجتماعی قسمت بدلنے کا جو امکان پیدا ہوا ، اس میں انہیں کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ میرے لوگوں کو، میرے صوبے کو کیا ملے گا۔ یہ اس ملک کی کہانی ہے، جس کے باشندے رزق کمانے کے لیے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ بلوچستان، پنجاب، پختون خوا اور دیہی سندھ سے لاکھ لوگ حصولِ رزق کے لیے کراچی جا سکتے ہیں۔ ملک سے باہر وہ عرب صحرائوں سے لے کر سکینڈے نیویا تک، کرّہ ارض کے شمال میں آرکٹک برف زاروں سے لے کر جنوب میں آسٹریلیا تک پہنچ سکتے ہیں۔ سعودی عرب میں وہ لوہا کوٹ سکتے ہیں، اینٹیں ڈھو سکتے ہیں، امریکہ اور یورپ میں فرش صاف کر سکتے ہیں لیکن سی پیک کے ثمرات سمیٹنے کے لیے دوسرے صوبے میں وہ نہیں جا سکتے۔ ایک نشریاتی ادارے کے لیے کام کرنے والے ایک صاحب نے یہاں تک لکھ ڈالا: افغان جہاد کے دوران سارا مالی فائدہ پنجاب کو ہوا‘ سارا نقصان بلوچستان اور پختون خوا نے اٹھایا، سی پیک میں بھی یہی ہو گا۔دانش کی بات یہ ہے کہ سڑک اور بندرگاہ کے نظام کی، ہمسایہ ملک میں لڑی جانے والی دو جنگوں سے کوئی مشابہت ہی نہیں ۔ یہ ایک الگ بات کہ میڈیکل سائنس ڈھٹائی کا علاج ڈھونڈنے میں اب تک ناکام رہی ہے۔ 
عالمی ماہرین کی اکثریت متفق ہے کہ 2030ء تک چینی معیشت امریکہ سے آگے نکل چکی ہو گی۔ بلومبرگ کے مطابق 2026ء میں۔ 2000ء میں امریکی معیشت کا حجم 10.3ٹریلین ڈالر تھا، جب کہ چین کا1.2 ٹریلین۔ تب امریکی معیشت کا حجم چین سے آٹھ گنا تھا۔ آج اس وقت یہ چین سے صرف ڈیڑھ گنا ہے۔ مزید یہ کہ چین دنیا بھر اور بالخصوص امریکہ سے اس قسم کے تجارتی تعلقات میں منسلک ہے کہ چینی معیشت میں خرابی اور سستی سے پوری دنیا متاثر ہوتی ہے۔ آج کی ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ نیا معاشی ورلڈ آرڈر، جس میں چین کو بہرحال دنیا کی سب سے بڑی قوت بننا ہے، امریکہ اور اس کا حلیف یورپ جس میں رکاوٹ ڈالنے کی بابت سوچ بھی نہیں سکتے۔ گزشتہ پندرہ بیس برس میں، چینی جب دنیا بھر سے تجارت بڑھاتے ہوئے ترقی کی راہ پہ گامزن تھے، امریکہ افغانستان، عراق، لیبیا، مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی چین سمیت ہر کہیں تنازعات میں اپنے سینگ الجھاتا چلاگیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو انہوں نے صدر منتخب کیا۔ بہت تیزی سے ملک میں نسل پرست متحرک ہوئے، مسلمان ممالک، ہمسایہ میکسیکو اور دیگر اقوام سے امریکی تعلقات کمزور پڑنے لگے۔
کہا جاتا ہے کہ سی پیک میں منصوبوں کی لاگت زیادہ ہے۔ یہ بھی کہ ہر جگہ نوکریاں صرف چینیوں کو مل رہی ہیں۔ چینی سرمایہ کاری اور قرضے بعد میں ہمیں سود سمیت واپس کرنا ہوں گے۔ سی پیک کے 60 ارب ڈالر کے منصوبوں میں تیس ارب ڈالر سے زائد بجلی اور توانائی کے لیے مختص ہیں۔ ظاہر ہے کہ چین پاکستان میں سڑکوں اورریلوے کے ذریعے گوادر سے تجارت کرنا چاہتا ہے۔ یہ مان لیتے ہیں کہ پاکستان کو کوئی فائدہ نہ پہنچے گا۔ سب کچھ چین ہڑپ کر جائے گا۔ مگر اس سوال کا کوئی جواب دے کہ چین کو ہمارے لیے بجلی کے کارخانے لگانے میں کیوں دلچسپی ہے۔ ہم نندی پور جیسے ناکام منصوبے بناتے رہ جاتے ہیں، جب کہ چینی چشمہ تھری سے 350 میگاواٹ جوہری بجلی کی پیداوار شروع بھی کر چکے ہیں۔ چشمہ 4 بھی اسی سال مکمل ہونے والا ہے۔ کیا 12ہزار ارب ڈالر کی معیشت رکھنے والا چین ہمارے بجلی کے منصوبے بنا کر ان میں سے پانچ سات ارب ڈالر کمیشن کھانا چاہتا ہے؟ یہ بات اتنی مضحکہ خیز ہے کہ جیسے ہزاروں ایکڑ زمین کے مالک پر الزام لگایا جائے کہ ایک بھینس چرانے کے لیے وہ پندرہ سالہ منصوبہ سازی کرتا رہا۔ پاکستان میں بجلی کے منصوبے بنانے کا واحد مقصد یہ ہے کہ وہ ہمیں اپنے پائوں پر کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ سی پیک سے اگر پاکستان کو سالانہ بنیادوں پر نقصان ہی ہو گا تو ظاہر ہے کہ بالآخر پاکستان اس سے جان چھڑا لے گا۔ یوں چینیوں کی سالانہ سینکڑوں ارب ڈالر کی تجارت خطرے میں ہو گی۔ 
یہ تبصرے بھی سامنے آئے کہ تیس برس میں پاکستان کو سی پیک کے 60 ارب ڈالر کے بدلے 90 ارب ڈالر واپس کرنا ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ اگر آج کوئی کسی کو 60 لاکھ روپے قرض دے۔ تیس سال میں اسے 90 لاکھ روپے واپس کرنا ہوں تو یہ مہربانی ہے یا ظلم؟ مزید برآں فرض کیجیے، پاکستان کو سی پیک کے تحت سڑکوں، ریلوے اور گوادر بندرگاہ سے کرائے کی مد میں سالانہ صرف پانچ ارب ڈالر بھی آمدن ہو تو تیس برس میں 150 ارب ڈالر کا فائدہ آپ کو ملے گا یا نہیں؟ حساب کتاب الگ چیز ہے ،سیاست الگ۔
سچ یہ ہے کہ پاکستان کو بھارت کے مقابل چین کی مدد حاصل نہ ہوتی تو سلامتی کونسل اور نیوکلیئرز سپلائرز گروپ سمیت کئی عالمی اداروں میں سنگین خطرات ہمیں لاحق ہوتے۔ چینی ایسے احمق نہیں کہ تیس چالیس ارب ڈالر کی خاطر وہ سی پیک سے سالانہ سینکڑوں ارب ڈالر کی تجارت خطرے میں ڈالیں۔ بدگمانی کی بجائے،ہمیں تیل اور تیل کی دھار دیکھنی چاہئے۔فیصلے تجزیوں پر کئے جاتے ہیں ،اندیشوں پر نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں