بنیادی انسانی رجحانات، روّیے ، خواہشات اور ردّ عمل ہمیشہ ایک جیسے ہوتے ہیں۔ انسانی ذہن میں تجسس کا جو مادہ خدا نے رکھا ہے ، اس کے نتیجے میں وہ دنیا جہان کی ہر چیز پر تحقیق کرتا رہتاہے ۔اسلامی حکمرانی کے عروج کی صدیاں گزرجانے کے بعد مسلمانوں کی اکثریت بنیادی ضروریات تک محدود ہو کر تحقیق سے دور ہو گئی ۔ مغرب والے دنیا جہان کی ہر چیز پر تحقیق کرتے رہے ۔ بنیادی طور پر اس تحقیق کا مرکز '' کیا ‘‘ ہے ۔ انسانی و حیوانی فاسلز پر تحقیق کی تو ماضی میں ناپید ہو جانے والی ان گنت مخلوقات ڈھونڈ نکالیں۔ ان میں سے ہر ایک کو انہوں نے ایک نام دیا۔ وہ مخلوقات جو سمندر کی گہرائی میں پائی جاتی ہیں اور بلند برفانی پہاڑوں پر زندگی گزارتی ہیں ۔اس گورکھ دھندنے میں اترنے کی چنداں ضرورت نہیں تھی ۔ بات صرف اتنی سی تھی کہ انسانی ذہن میں موجود تجسس نے اسے ایک منافع بخش کاروبار بنا دیا تھا۔ انوکھی مخلوقات کی دلچسپ زندگی ریکارڈ کر کے آپ ٹی وی پر اسے نشر کرتے ہیں ۔ کروڑوں افراد اسے دیکھتے ہیں۔اشتہارات ملتے ہیں ۔ علم میں اضافہ اپنی جگہ ، یہ سب بہت منافع بخش ثابت ہوا۔
تجسس کے علاوہ جس چیز نے انسانی معلومات میں سب سے بڑھ کر اضافہ کیا، وہ بقا کی جبلت تھی ، ناپید ہو جانے کا خوف۔ کرّہ ء ارض کے بارے میں جب انسان نے معلومات حاصل کرنا شروع کیں تو انکشاف ہوا کہ ان گنت مخلوقات ماضی میں ناپید ہو چکی ہیں ۔سب سے بڑھ کر اسے خشکی پر تاریخ کے سب سے بڑے جانور ڈائنا سار کے بارے میں تجسس لاحق تھا ۔ کس چیز نے گوشت کے ان پہاڑوں کو ختم کر ڈالا؟حتیٰ کہ آدمی نے میکسیکو میں ایک بہت بڑا گڑھا دریافت کیا۔ اس گڑھے کا قطر 180کلومیٹر اور گہرائی 20کلومیٹر تھی ۔ یہاں سے مٹی لے کر اس کا تجزیہ کیا گیا۔معلوم ہوا کہ کوئی چیز آسمان سے یہاں آگری تھی ۔ شدید ترین درجۂ حرارت میں جس قسم کے کیمیائی تعامل ہونا چاہئیے تھے، وہ موجود تھے ۔ آسمان سے گرنے والے شہابِ ثاقب اور دمدار ستاروں میں ایسے عناصر موجود ہوتے ہیں، جو قدرتی طور پر ہماری زمین میں نہیں پائے جاتے ۔ یہ واقعہ ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے رونما ہوا تھا۔ یہ وہی دور تھا، جس کے بعد سے ڈائنا سار کے فاسلز ملنا بند ہو ئے ۔ دوسری بہت ساری مخلوقات بھی اسی دور میں ختم ہوئیں ۔ آج اندازہ لگایا جاتاہے کہ 100میں سے 75جاندار اس حادثے میں ہلاک ہوئے ۔ آج بڑی حد تک یہ اتفاقِ رائے پایا جاتاہے کہ ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے ایک دمدار ستارہ میکسیکو میں گرا تھا۔ اس نے کرّہ ء ارض کو بری طرح متاثر کیا۔ زلزلے ، سونامی ، آتش فشاں ، آب و ہوا میںاچانک شدید تبدیلی ، یہ سب وہ عوامل تھے، جنہوں نے اس زمین کو ہمیشہ کے لیے بدل ڈالا۔
اب یہ بقا کی جبلت ہے کہ انسان ہر اس دمدار ستارے پر نظر رکھتاہے ، جس کے زمین کے قریب آجانے کا ذرا سا بھی اندیشہ ہو۔آسمان کا جائزہ لینے کے لیے بے شمار دوربینیں نہ صرف کرّہ ء ارض پر دھرّی ہیں بلکہ ان میں سے بعض خلا میں موجود ہیں ۔ وہاں وہ جو کچھ دیکھتی ہیں ، اسے لہروں کے ذریعے زمین پر بھجوا دیتی ہیں ۔ بقا کی جبلت انسانی صلاحیت کو پوری طرح متحرک ہونے میں مدد دیتی ہے ۔ یہی جبلت ہے ، جس کے تحت پاکستان نے اس وقت ایٹم بم بنایا، جب کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایسا وہ کر سکتاہے ۔ جب پولیو کے جرثومے نے انسانی آبادیوں کو بڑے پیمانے پر متاثر کیاتو اس پر تحقیق کے بعد ویکسین ایجاد کی گئی ۔ ہر بڑی بیماری کا علاج ڈھونڈ اگیا۔ بہت ساری چیزیں بقا کی بجائے غلبے کی جبلت کا نتیجہ تھیں ۔ نصف صدی پہلے دو عالمی طاقتوں سویت یونین اور امریکہ میں چاند تسخیر کرنے کی جو جنگ لڑی گئی ،اس کا محرک وہی تھی ۔ چاند پر ایسی کوئی چیز موجود نہیں تھی ، جسے پانے کے لیے دونوںطاقتیں اس قدر بے چین تھیں ۔ ان دو اڑھائی عشروں میں ایسے میزائل ایجاد ہوئے ، خلائی تسخیر کی جنگ ختم ہونے کے بعد جو روایتی اور ایٹمی جنگی طاقت میں اضافے کے لیے استعمال ہوئے ۔1955ء سے شروع ہونے والی ، خلائی تسخیر کی یہ جنگ 35برس تک تمام دنیا کی توجہ کا مرکز بنی رہی ؛حتیٰ کہ سویت یونین تحلیل ہو گئی ۔
انسان نے تمام ہمسایہ سیاروں پر سائنسی آلات بھجوائے ۔ عطار د سے لے کربہت دوردراز کے زحل تک ۔ یہ جائزہ لینے کے لیے کہ یہ زمینیں کیسی ہیں ۔ یہاں زندگی پائی جاتی ہے یا نہیں ۔ یہاں موسم کیسا ہے ۔ زمین پر پائے جانے والے کتنے سسٹم وہاں بھی پائے جاتے ہیں ۔ امریکی یا روسی صدر کو اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ افریقہ میں کتنے انسان بھوکے مر رہے ہیں ۔ہاں ، اگر پلوٹو پر کوئی جاندار دریافت ہوتا اور اگر اس کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوتا تو یقینا عالمی امداد پر مشتمل ایک مشن بھجوایا جاتا۔ بہرحال اس ساری تگ و دو کے پسِ منظر میں اگر کوئی جذبہ متحرک تھا تو وہ تجسس تھا ۔ یہ تجسس انسان کو بڑی کامیابیوں تک لے جاتا ہے اور بڑی ذلتوں تک بھی ۔ وہ چیز جو آپ کو حاصل نہ ہو ، اس میں ایک گہری کشش ہوتی ہے ، خواہ وہ کیسی ہی بے کار چیز کیوں نہ ہو ۔ دوسری طرف جو شے آپ کو حاصل ہو جاتی ہے ، آپ اس کے عادی ہو جاتے ہیں ۔ تجسس ختم ہو تاہے تو وہ بے کار لگنے لگتی ہے ۔
انسان نے یہ سب پاپڑ بیلے ۔ جیسے جیسے اس کی معلومات کا دائرہ کار وسیع ہو تا چلا گیا ، اس نے بڑی ایجادات کیں ۔سولر پینل کی ایجاد سے پہلے بھی سورج اسی طرح چمکتا تھا۔بجلی کی ایجاد سے پہلے ہزاروںبرس ہماری راتیں اندھیرے میں بسر ہوئیں ۔ ہر چیز ہم نے دریافت کی۔ سب کچھ ہم نے ایجاد کیا۔ اگر ناکام رہے تو اپنے اندر جھانکنے میں ۔ بقا کے خوف، غلبے کی خواہش اور بے انتہا تجسس پر مشتمل نفس کی یہ عادات کیسی ہیں ، جنہوں نے کرّہ ء ارض کو موجودہ شکل و صورت عطا کی ۔ غلبے کی خواہش اس قدر بے قابو ہوتی ہے ، اتنی اس میں لذت ہوتی ہے کہ اگر محفل میں ایک شخص کی بات پر لوگ ہنس پڑیں تو بار بار وہ انہیں ہنسانے کی کوشش کرتاہے ۔ جب وہ اس کی باتوں پر ہنستے ہیں تو اس جبلت کی تسکین ہوتی ہے ، وہ لذت محسوس کرتا ہے ۔وہاں موجود کوئی شخص جب اس کے مذاق کانشانہ بنتاہے تو اس کے نفس میں خوف، بقا کی جبلت جاگ اٹھتی ہے ۔ بعض اوقات اس دوران ایسا رنج ، ایسی کشیدگی پیدا ہوتی ہے ، جو ساری زندگی نہیں جاتی ۔ جیسا کہ میںنے پہلے کہا ، بنیادی انسانی رجحانات، روّیے ، خواہشات اور ردّعمل ہمیشہ ایک جیسے ہوتے ہیں۔نفس کی عادات پہ ایک پورا کالم انشاء اللہ جلد۔