"FBC" (space) message & send to 7575

حیرت کی دنیا

دماغ کے اسرار اتنے ہیں کہ انسان کھوجتا رہے اور حیرت کے سمندر میں ڈوبتا چلا جائے ۔کرّۂ ارض پر زندگی گزارنے والے ایک جاندار کی طرف سے کائنات کا جائزہ لینا کوئی معمولی بات نہیں ۔ یہ اس قدر غیر معمولی بات ہے کہ ساڑھے چار ارب سال کی ارضی تاریخ میں تخلیق ہونے والی پانچ ارب مخلوقات میں سے صرف ایک یہ ہی کرپائی ہے ۔ اب تک جو بنیادی چیزیں ہم نے دریافت کی ہیں ، وہ یہ ہیں : 
رات کو آسمان پہ چمکنے والے سب ستارے اپنی اپنی جگہ مکمل سورج ہیں ۔اوسطاً ہر سورج /ستارے کے گرد کم از کم ایک سیارہ /زمین ضرور گردش کرر ہی ہے ۔ جس سورج کے گرد ہم رہتے ہیں ، اس میں 8زمینیں ، کئی چھوٹی زمینیں (بونے سیارے )، بے شمار دمدار ستارے اور شہابِ ثاقب وغیرہ محوِ گردش ہیں ۔ 
کائنات میں ہر چیز متحرک ہے اور ہر چیز ایک ساتھ کئی مداروں میں گھوم رہی ہے ۔ چاند کم از کم چار قسم کی گردش میں مصروف ہے ۔ یہ زمین کے گرد گھومتا ہے لیکن زمین کے ساتھ سورج کے گرد بھی گھومتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ وہ سورج کے ساتھ کہکشاں کے مرکز کے گرد بھی چکر لگاتا ہے اور پوری کہکشاں کی اجتماعی حرکت کا ساتھ بھی دیتاہے ۔ 
کرّۂ ارض کے علاوہ نظامِ شمسی کے دیگر سیارے اور ان کے گرد گھومنے والے چاند بنجر ہیں ۔ وہاں زندگی کی حفاظت کرنے والے لوازمات موجود نہیں ۔ آکسیجن، بہتا ہوا پانی ، کرّۂ فضائی کا مناسب دبائو، مناسب فضا (Atmosphere)، درجہ ء حرارت ، مقناطیسی میدان وغیرہ وغیرہ۔ 
کہکشاں ستاروں /سورجوں کا ایک عظیم الشان مجموعہ ہوتی ہے ۔ کم و بیش ہر کہکشاں کے مرکز میں انتہائی بڑے(Super massive) بلیک ہول موجود ہیں ، جن کے گرد یہ تمام سورج چکر لگاتے رہتے ہیں ۔ 
سورجوں اور زمینوں کی صورت میں جو کچھ انسان نے دیکھ رکھا ہے ، وہ کائنات کا صرف اور صرف پانچ فیصد ہے ۔ باقی 95فیصد ہماری نظر سے پوشیدہ ہے ۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے دھاگے سے بندھا ہوا ایک پتھر اگرمسلسل ایک مرکز کے گرد گھوم رہا ہو تو یہ بات یقینی ہے کہ کوئی انسانی یا مشینی ہاتھ اسے گھما رہا ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں کائنات کی صورت میں گھومتا ہوا پتھر تو نظر آرہا ہے لیکن گھمانے والا ہاتھ نظر نہیں آرہا۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر پانچ کلو کا ایک باٹ وزن تولنے والی مشین پر رکھیں ۔ وہاں پانچ کلو کی بجائے 5ہزار کلو لکھا آئے ۔ آپ مختلف مشینوں پر دوبارہ چیک کریں اور ہر جگہ پانچ ہزار کلو ہی لکھا ہو ۔ مشین میں کوئی خرابی بھی نہ ہو تو یقینی بات یہ ہے کہ کوئی چیز 4995کلو وزن مشینوں پر ڈال رہی ہے لیکن وہ ہمیں نظر نہیں آرہی ۔ 
کرّۂ ارض کی تاریخ میں اس پر زندگی گزارنے والی 99فیصد مخلوقات ہمیشہ کے لیے مر چکی ہیں ۔ کم از کم چار بڑے عالمی ہلاکت خیز ادوار (Mass Extinctions)گزر چکے ہیں ، جن کے دوران کرّہ ٔ ارض پر زندگی مکمل طور پر ختم ہونے لگی تھی لیکن کچھ نہ کچھ جاندار بچ نکلے ۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ کروڑوں سالوں میں جاندار دوبارہ زمین پر پھیل گئے ۔ 
زندگی کو برقرا ر رکھنے کے لیے تمام تر لوازمات کرّۂ ارض کے نیچے، اس کی سطح پر اور اس کی فضا میں موجود ہیں ۔ ہر شے ایک مسلسل چکر (Cycle)کے ذریعے جانداروں کے استعمال میں آتی رہتی ہے اور اس کی مقدار بھی برقرار رہتی ہے ۔ ان میں سب سے نمایاں پانی کا چکر ہے ، جو کہ پانی کے ذخیروں سے بخارات کی شکل میں اڑتا اور بارش بن کر برس جاتاہے ۔ پھر وہ زمین کے نیچے بھی اپنی موجودگی برقرار رکھتا ہے ۔ 
انسانی ذہن میں بے انتہا تجسس کا جو مادہ رکھا گیا ہے ، اس کی وجہ سے اسے نت نئی چیزیں کھوجنے کا جنون ہے ۔ زندگی میں جو بھی شے ہمیں متاثر کرتی ہے ، وہ یا تو ہمارے دماغ میں جذبات والے حصے پر اپنا اثر ڈالتی ہے یا عقل اور تجسس کے خانے میں ۔ ساس بہو کی لڑائیوں والے ڈرامے ، عشق محبت والی فلمیں جذبات کو متاثر کرتی ہیں ۔ جب آپ بڑی حیرانی سے یہ بات سنتے ہیں کہ ہماری زمین سے مشابہت رکھنے والا ایک سیارہ ڈھونڈ لیا گیا ہے تو یہ عقل اور تجسس کی وجہ سے ہے ۔ 
انسانوں کی اکثریت ایک بہت تنگ دائرے میں زندگی گزارتی ہے ۔عموماًروزی روٹی کی تگ و دو میں ۔ ایک موٹر مکینک گاڑی کا انجن ٹھیک کرتے کرتے زندگی بسر کر دیتاہے ۔ بینک کا افسر مالی معاملات پہ رپورٹیں مرتب کرتے کرتے سبکدوش ہو جاتاہے ۔ عموماً ایک شعبے کا ماہر دوسرے شعبوں کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہوتا ۔ ایسے افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ، جو تاریخ، مذہب، کرّۂ ارض پہ انسانی تاریخ ، معیشت ، دفاع سمیت مختلف معاملات پر ایک بڑے تناظر میں بات کر سکیں ۔
دوروز قبل گوجر خان جانا ہوا۔نینو ٹیکنالوجی سے متعلقہ نوٹس کا ایک مجموعہ محترم استاد پروفیسر احمد رفیق اختر کے بستر پہ رکھا تھا۔ کہا جاتاہے کہ آنے والا زمانہ اسی ٹیکنالوجی کا ہے ۔ ایک سبکدوش آرمی چیف سے پروفیسر صاحب نے کہا تھا کہ نینو ٹیکنالوجی پر کام کیجیے ۔ پروفیسر صاحب کے نوٹس کاجائزہ لیا تو یہ سرخیاں درج تھیں : Engines of creation, The coming era of nanotechnology۔ دوسرا باب : The principles of Change۔ اس میں Marvin Minskyکانام نظر آیا ۔ یہ Massachusetts Institute of technologyمیں پروفیسر آف سائنس ہیں ۔ Engines of constructionکے نام سے بھی ایک باب موجود تھا ۔ میں نے کچھ تصاویر بنائیں ۔ ان میں سے ایک فقرہ کچھ یوں تھا Biochemists dream of designing and building such devices but there are difficulties to overcome۔ ایک اور فقرہ پڑھیے Biochemists already working with these machines which are chiefly made of protein, the main engineering material of living cells۔ Protein Engineeringکے ضمن میں لکھا تھا It represents the first major step towards a more general capability for molecular engineering which would allow us to structure matter atom by atom: Kevin Ulmer, Genex Corporation۔ 
استاد کا کہنا تھا کہ میں اس میں سے replicatorsوالا باب پڑھوں گا ۔ پہلی بار neanderthalانسان کے بارے میں بھی پروفیسر صاحب سے ہی سنا تھا۔ انہوں نے اگرچہ اتنا ہی بتایا تھا کہ ایک انسان ہم سے پہلے بھی گزرا ہے ، جس کا سر ہم سے بھی بڑا تھا ۔ بعد ازاں جب میں نے پڑھنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ نی اینڈرتھل کا ڈی این اے تک پڑھا جا چکا ہے ۔ اس کا سہرا میکس پلانک انسٹیٹیوٹ آف ایوولوشنری انتھروپالوجی کے سر ہے ۔ یہ ادارہ میکس پلانک سوسائٹی کے تحت کام کرتاہے ۔ یہ جرمن ادارہ ہے ، جس میں دنیا بھر سے دس ہزار سائنسدان کام کرتے ہیں ۔ 
اب ایسے استاد پہ بندہ فخر نہ کرے تو اور کیا کرے ۔ وہ شیخِ ہجویر داتا گنج بخشؒ کے نقشِ قدم پہ ہیں ، جنہوں نے یہ ارشاد کیا تھا : ہر علم میں سے اتنا حاصل کرو، جتنا خدا کی شناخت کے لیے ضروری ہے ۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں