"FBC" (space) message & send to 7575

کائنات اور زندگی کے بارے میں دلچسپ حقائق

سٹیون ہاکنگ کی کتاب ، Brief history of time ۔ سترھویں صدی میں نیوٹن کی طرف سے عظیم الشان حقائق سے پردہ اٹھانے سے قبل کائنات کے بارے میں انسانی علم مغالطوں سے بھرپور تھا۔ سب سے پہلے شاید ارسطو نے اندازہ لگایا تھا کہ زمین گول ہے ۔ اس نے زمین کے کل رقبے کا اندازہ بھی لگایا ۔ اس نے کہا کہ 4لاکھ سٹیڈیم کے برابر ۔ ایک سٹیڈیم اگر دو سو گز کا ہو تو ارسطو نے اصل پیمائش سے تقریباً دو گنا بڑا اندازہ لگایا تھا۔ بہرحال اس دور میں یہ ایک بہت بڑا کارنامہ تھا۔ ارسطوکے خیال میں ہماری زمین کائنات کا محور تھی ۔ یہ بھی کہا کہ زمین حرکت نہیں کرتی ۔ بطلیموس نے اسی کے نظریات کو آگے بڑھایا۔ بعد میں عیسائی دنیا ، جس پر چرچ (پادری ) کی حکمرانی تھی ، اس نے ان نظریات پر مذہبی مہر لگا کر ان پر ایمان رکھنا لازم ٹھہرا دیا۔ 
اس کے بعد سولہویں صدی کے آغاز پر آیا پولینڈ کا پادری نکولس کوپر نیکس(Nicholas Copernicus)۔ اس نے پہلی بار یہ نظریہ پیش کیا لیکن چھپ چھپا کر اور اپنے نام کو ظاہر کیے بغیر کہ سور ج ساکن ہے اور مرکز میں ہے ۔باقی سب گول دائروں میں اس کے گرد حرکت کر رہے ہیں ۔ وہ چرچ سے ڈرتاتھا۔ اس کے بعد تقریباً سو سال بعد یعنی سترھویں صدی میں دو بندے آئے ۔ ایک تھا Johannes kepler۔ وہ جرمن تھااور دوسرا Galileo Galilei اطالوی تھا۔ ان دونوں نے کھلے عام نکولس کاپر نیکس کا آئیڈیا سپورٹ کرنا شروع کیا ؛اگرچہ جو مدار نکولس کاپر نیکس کی تھیوری بتاتی تھی ،وہ نظر آنے والے مداروں سے مختلف تھے۔ 1609ء میں جب گیلی لیو گیلی لی نے نو دریافت شدہ دوربین سے مشاہدہ کیا اور یہ دیکھا کہ مشتری کے مدار میں اس کے چاند گردش کر رہے ہیں تو یہ ارسطو اور Ptolemyکے نظریات کی موت ثابت ہوا۔ 
جہاں تک کیپلر کا تعلق ہے ، اس نے یہ اتفاقیہ طور پر دریافت کیا تھا کہ سیاروں کی بیضوی حرکت نظر آنے والی موومنٹ کے ساتھ میچ کرتی ہے۔ اس معاملے کی حقیقت بہت بعد میں نیوٹن سامنے لایا۔ 1687ء میں یعنی سترھویں صدی کے تقریباً اختتام پر اس نے اپنی مشہور کتاب لکھی۔ "philosophiae naturalis princpia mathematica" ۔سٹیون ہاکنگ اس کتاب کے بارے میں کہہ رہا ہے "most important single work ever published in physical sciences"۔ اس کتاب میں نیوٹن نے نہ صرف یہ بتایا کہ اجسام time and spaceمیں کیسے حرکت کرتے ہیں بلکہ اس نے ان حرکات کا تجزیہ کرنے کے لیے درکار پیچیدہ ریاضی کے اصول بھی بیان کیے ۔ اس میں نیوٹن نے universal gravitation کا یہ اصول بھی بیان کیا کہ کائنات کا ہر جسم دوسرے جسم کو اپنی طرف کھینچتا ہے ۔ attractionیا کھنچنے کی یہ قوت اتنی ہی زیادہ ہوگی ، جتنی کہ یہ دونوں جسم massiveہوں گے اور جتنا کہ وہ ایک دوسرے کے قریب ہوں گے ۔ پھر نیوٹن نے اسی قوّتِ ثقل کی مدد سے چاند کی زمین کے گرد گردش اور سیاروں کی سورج کے گرد بیضوی گردش کی وضاحت کی۔ 
St. Augustineکی کتاب city of Godکا ذکر کرتاہے سٹیفن ہاکنگ۔ سٹیفن ہاکنگ کہتاہے کہ آخری آئس ایج تقریباً دس ہزار سال قبلِ مسیح میں پہلے ختم ہوئی تھی .یہ وہی وقت ہے ، جب آرکیالوجسٹ ہمیں بتاتے ہیں کہ تہذیبوں کا آغاز صحیح معنوں میں شروع ہوا تھا۔ کہتاہے کہ ارسطو اور دوسرے یونانی مفکرین یہ سوچتے تھے کہ کائنات اور انسانی نسل ہمیشہ سے موجود تھی اور موجود رہے گی کیونکہ وہ کائنات کی تخلیق کا نظریہ اس لیے پسند ہی نہیں کرتے تھے کہ انہیں بہت زیادہ divine interventionپسند نہیں تھی ۔ 
1929ء طمیں Edwin Hubbleنے ایک landmarkآبزرویشن دی۔ یہ کہ جہاں کہیں بھی آپ دیکھیں ، کہکشائیں تیزی سے ایک دوسرے سے دور بھاگ رہی ہیں ۔ کائنات پھیل رہی ہے ۔ اس کا مطلب ہی تھا کہ دس بیس ہزار سال پہلے وہ سب ایک ہی مقام پر یکجا تھیں ۔
ارسطو نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ ہر چیز چار عناصر مٹی، آگ، پانی اور ہوا سے مل کر بنی ہے ۔ لیکن ہاکنگ کہتاہے کہ یہ تھیوری کوئی مستقبل کی آبزرویشنز کا اندازہ نہیں لگاتی جو کہ ضروری ہے ایک اچھی تھیوری کے لیے ۔ دوسری طرف نیوٹن کی تھیوری آف گریویٹی کہتی ہے کہ اجسام ایک دوسرے کی طرف کھنچتے ہیں اس تھیوری کی مدد سے بڑی درستگی کے ساتھ آپ چاند اور سیاروں اور سورج کی گردش کی پیشین گوئی کر سکتے ہیں ۔ 
زمین کی حرکت:1600کلومیٹر فی گھنٹا سے زیادہ کی رفتار سے زمین اپنے محور کے گرد گھوم رہی ہے ۔ ایک لاکھ سال میں وہ دو سیکنڈ کے برابر رفتار کم ہو جاتی ہے ۔ اور اس رفتار سے گھومنا ضروری ہے زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے ۔ حرارت کی مساوی تقسیم۔ 
فاسلز اور ڈی این اے کی سائنسز: دو طریقے ہیں ختم ہو چکی ،extinct lifeکا مطالعہ کرنے کے۔ ایک تو ان کے فاسل کا مشاہدہ۔ دوسرا جدید طریقہ شاید 1990ء کے قریب سے آغاز ہوا ہے ۔ وہ ہے باقیات میں موجود خلیات کے ڈی این اے اور جینز کا مشاہدہ ۔ ڈی این اے او رجینز پڑھنے کی صلاحیت حاصل ہونے کے بعد جن فیلڈز کو فائدہ ہوا ، ان میں palaeontology، evolutionary biology، archealogyاور forensic scienceشامل ہیں۔ 
ہبل خلائی دوربین 1990میں خلا میں بھیجی گئی تھی ۔ ہبل زمین کے گرد گھوم رہی ہے 353میل کی اونچائی پر ۔ اگلی دوربین ہوگی 930,000میل دور۔ اس کا نام ہے جیمز ویب دوربین ۔ Webb Telescope۔ یہ زمین سے چاند کے فاصلے سے تقریباً چار گنادور ہوگی ۔ 2018ء میں بھیجی جائے گی راکٹ کے ذریعے۔ یہ سیاروں پر زندگی نہیں ڈھونڈ سکتی لیکن یہ ان گیسز کا سراغ لگا سکتی ہے ، جو کہ زندہ چیزیں پیدا کرتی ہیں ۔اس کا مطلب ہے کہ زندگی کی تلاش میں انسان کو بے حد قریب کہا جا سکتاہے اگر زندگی کہیں قریب موجود ہے تو۔ 
سائنسدان 200نوری سال کے اندر اندر ہر ستارے /سورج کو جانتے ہیں ۔ ان سب کے نام رکھے گئے ہیں۔ بائیو سگنیچر گیسز ان گیسز کو کہتے ہیں جو جاندار وں کے جسم پیدا کرتے ہیں ۔ gasses in the atmosphere produced by life۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں