"FBC" (space) message & send to 7575

ماہر

پروفیسر ڈاکٹر محمد علی کی خصوصیت (Specialization) یہ تھی کہ وہ ہر کام کے ماہر (expert) کو پہچاننے کی خداداد صلاحیت رکھتا تھا۔ 1963ء میں اس کی کتاب ''صلاحیت ‘‘ منظرِ عام پر آئی تھی ۔ یہ ایک تہلکہ خیز تصنیف ثابت ہوئی۔ پروفیسر محمد علی نے ثابت کیا تھا کہ ہر انسان میں ایسی ایک خوبی ضرور ہوتی ہے ،جس پر کام کر کے وہ غیر معمولی کامیاب شخص بن سکتاہے ۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ اکثر اوقات لوگ اپنی اس نادر خوبی کو پہچاننے میں ناکام رہتے ہیں ؛حتیٰ کہ موت انہیں آلیتی ہے ۔ ایک معمولی زندگی گزار کے وہ مر جاتے ہیں اور یہ صلاحیت ان کے ساتھ قبر میں اتر جاتی ہے ۔ اپنی اس خوبی کو پہچان کر جو خوب محنت کرے ، وہ غیر معمولی افراد کی فہرست میں شامل ہو جاتاہے ۔جو لوگ اس میں کامیاب رہتے ہیں ، وہ اپنی فیلڈ کے لیجنڈبن جاتے ہیں ۔ بیشتر لوگ درجہ ء کمال تک پہنچی اپنی اس خوبی کو تلاش کرنے میں ناکام رہتے ہیں ۔ اکثر اسے ڈھونڈنے کی کوشش ہی نہیں کرتے ۔ وہ دوسرے میدانوں اور بعض اوقات بالکل متضاد سمت میں کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ یوں وہ اپنے مزاج کے مخالف سمت میں بے سود کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ ان کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری رہتاہے ۔ ان میں سے بعض ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ دنیا میں ناکامی کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان وہ شعبہ منتخب ہی نہیں کرتا ، جس سے متعلقہ صلاحیت اس میں بخوبی موجود ہوتی ہے ۔ اکثر اوقات والدین بچے کو حکماًبتا تے ہیں کہ اسے کس فیلڈ میں جانا ہے ۔ وہ انہیں انکار کرنے کے قابل نہیں ہوتا اور کرے بھی کیوں ؟ اسے خود بھی اپنے جوہرِ خصوصی کا علم نہیں ہوتا۔ 
ہزاروں لاکھوں لوگوں نے پروفیسر کے کام سے استفادہ کیا تھا۔ وہ صرف نظریہ (Theory)دینے تک محدود نہیں تھابلکہ اس نے اس پہ عملدرآمد کر کے دکھایا ۔ جن لوگوں نے اپنے آپ کو اس کے سامنے پیش کرنے کی جرأت کی، اس نے ان کا جوہرِ خصوصی ڈھونڈ کر دکھایا۔ سب سے مشہور معاملہ ڈاکٹر حامد اختر کا تھا۔ وہ ایک نوجوان معالج تھا۔طب کے شعبے میں وہ ناکام بھی نہیں تھا لیکن پھر وہ پروفیسر ڈاکٹر محمد علی کے سامنے پیش ہوا ۔ پروفیسر نے اس کا انٹر ویو کیا۔ اس کے رجحانات دیکھے ۔ اس کے مشاغل پہ نظر ڈالی ۔ پھر یہ بتایا کہ اس کا اصل میدان کاروبار ، بالخصوص بیرونِ ملک تجارت ہے ، خاص طور پر برقی آلات کی خرید و فروخت۔ڈاکٹر حامد بھی اپنی دھن کا پکا تھا۔ اس نے چین سے الیکٹرانکس کی خریدو فروخت شروع کی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ کروڑ پتی ہو گیا۔ ایک پولٹری فارمنگ کرنے والے کو پروفیسر نے کھیتی باڑی پر لگا دیا تھا ۔ایک سگریٹ بنانے والی کمپنی کے مالک نے اس کے مشورے سے ڈیری فارمنگ کا کام شروع کیا۔ گاڑیوں کی خریدو فروخت کرنے والے ایک شخص نے ایک مصنوعی جھیل بنائی اور اس کے ساتھ منسلک ایک رہائشی عمارت۔ یہ سب وہ لوگ تھے، جو ساری زندگی پروفیسر محمد علی کے مشکور رہے ۔ 
کسی کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ اندر ہی اندر ایک غم پروفیسر ڈاکٹر محمد علی کو کھائے جا رہا تھا۔ وہ چار بچوں کا باپ تھا۔ ان میں سے تین کو خوب جانچ پڑتال کے بعد اس نے مختلف شعبوں میں جانے کا مشورہ دیا تھا ۔ وہ تینوں خوب کامیاب زندگی گزار رہے تھے لیکن چھوٹا 26سالہ آدم علی مکمل طور پر ناکام تھا۔ پروفیسر نے سینکڑوں لوگوں کو ان کا شعبہ منتخب کرنے میں مدد دی تھی ۔ کسی بھی شخص سے بات کر کے ،اس سے کچھ کام کرا کے ، اس کے رجحانات کو وہ پہچان لیتا تھالیکن آدم علی کے معاملے میں پروفیسر ناکام رہا ۔ جس جس شعبے میں پروفیسر نے اسے بھیجا، وہاں سے وہ ناکام ہی لوٹا۔ اکثر اوقات وہ کوئی نہ کوئی غلطی کر بیٹھتا ۔ پروفیسر جب اس سے بازپرس کرتا تو وہ رونے گڑگڑانے لگتا۔ پروفیسر کو اس صورتِ حال میں اور بھی غصہ آتا۔ 1997 ء میں وہ ایک کار حادثے میں جاں بحق ہو گیا۔ یہی وہ برس تھا، جب میری پروفیسر سے پہلی ملاقات ہوئی ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں اسے دیکھ کر حیران ہوا۔اندر ہی اندر جیسے وہ کسی غم میں گھلتا جا رہا تھا ۔ اس نے مجھے بتایا کہ و ہ اپنے نظریہ واپس لینے اور لوگوں سے معافی مانگنے پر غور کر رہا ہے ۔ اس لیے کہ اس کے اپنے بیٹے آدم علی نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ نظریہ غلط تھا۔ اس میں کوئی ایک بھی خوبی ایسی نہیں تھی ،جو اسے غیر معمولی ثابت کر سکتی اور وہ اب مر چکا ہے ۔اب وہ واپس آکر خود کو کسی خوبی کا اہل ثابت نہ کر سکتا تھا۔ 
میں پروفیسر سے کیا کہتا ۔ اس کی اپنی غیر معمولی خوبی یہ تھی کہ وہ دوسروں کی اصل خوبی ڈھونڈنکالتا تھا۔ اب اگر وہ قطعی طور پر یہ کہہ رہا تھا کہ آدم علی میں کوئی خوبی نہیں تھی تو میں کیسے اسے یقین دلاتا کہ اس میں کوئی نہ کوئی خوبی تو ہوگی ۔ یہ تو سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوتا۔ میں نے کہا کہ کیا مجھے آدم علی کی ذات سے متعلق کچھ مواد مل سکتاہے ۔ میں نے اس کی تصاویر دیکھیں ۔ سکول کالج کی اس کی نوٹ بکس دیکھیں ۔ ان میں کچھ بھی خاص نہ تھا۔ پروفیسر نے بتایا کہ آدم علی کے کچھ خطوط بھی اس کے پاس محفوظ ہیں ۔ اکثر وہ اسے خط لکھ کر اپنی غلطیوں پرمعافی مانگا کرتا تھا۔آخری خط اس نے اپنی موت سے ایک ہفتہ قبل لکھا تھا ۔ میں نے یہ خط پڑھا۔ آدم علی نے بار بار شرمندگی کا اظہا ر کیا تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ وہ شرمندہ ہے کہ اس کی وجہ سے اس کے والد کو تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے ۔ آئندہ وہ ایسا نہیں کرے گا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ ایسے کتنے خط اس کے پاس محفوظ ہیں ۔اس نے ایک الماری کھول کر دکھائی، اس میں تین چار سو خطوط درج تھے۔ ایسا پہلا خط اس نے تب لکھا تھا، جب وہ چھٹی جماعت میں تھا۔ دفعتاً ایک خیال میرے ذہن میں آیا اور میں ہل کے رہ گیا۔ ''پروفیسر کہیں ، وہ توبہ کا ماہر تو نہیں تھا؟‘‘میں نے پروفیسر سے پوچھا۔ پروفیسر اتنے زور سے اچھلا کہ نیچے گرتے گرتے بچا۔ چائے کا کپ اس کے ہاتھ سے پھسل گیااور اس کے کپڑے گندے ہو گئے ۔
''توبہ کا expert؟‘‘ پروفیسر نے کہا۔ ہم دونوں نے نئے سرے سے اس کے خطوط کو پڑھنا شروع کیا۔وہ بار بار پشیمانی کا اظہار، آئندہ غلطی نہ کرنے کا وعدہ ، ندامت کا ایسا عمدہ اظہار، اکثر خطوط میں کچھ الفاظ اپنی جگہ سے مٹے ہوئے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ انہیں لکھتے ہوئے وہ آنسو بہاتا رہا ہے ۔ ''ہائے میرا بیٹا ‘‘پروفیسر نے کہا ''ہائے میرا توبہ کا ماہر ، ہائے میرا آدم‘‘۔
پروفیسر روتا رہا۔ اسے پرانی باتیں یاد آرہی تھیں ۔ اس نے بتایا کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ غلطی کر کے اس نے معافی نہ مانگی ہو ۔ اپنے بیٹے کو وہ یاد کرتا رہا۔ اس نے کہا '' پہلے آدم سے جو عمدہ ترین خوبی کسی انسان کو نصیب ہو سکتی ہے ، وہ توبہ ہے ۔'' ہمارا شرف، انسانیت کے ماتھے کا جھومر ‘‘ پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے کہا '' میرا بیٹا ایک غیر معمولی کامیاب انسان تھا ‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں