"FBC" (space) message & send to 7575

بدذوق

محمد بن عبد الحمید ایک بڑا شاعر گزرا ہے ۔ اس کی شاعری دو حصوں میں منقسم ہے ۔ پہلے حصے میں وہ اکثر طنز کرتا پایا جاتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ذاتی زندگی کی محرومیوں نے ایک شدید ردّعمل اس کی سوچ میں پیدا کر دیا تھا۔کبھی تو وہ یہ کہتاہے کہ اے خدا تو اگلی دنیا میں مجھے 72حوروں کی بجائے ایک ہی حور بخش دینا ۔ 71حوروں کے بدلے مجھے اس دنیا میں پیٹ بھر کے روٹی دے دے ۔ دوسرے حصے میں بالکل برعکس طور پر اسی خدا کی وہ حمد بیان کرتا دکھائی دیتا ہے۔اسی طرح اس کی زندگی بھی مکمل طور پر دو حصوں میں منقسم تھی ۔ جاننے والے جانتے تھے کہ لگ بھگ پچاس برس کی عمر میں ، ایک واقعہ ایسا پیش آیا تھا ، جس نے اسے مکمل طور پر بدل کے رکھ دیا۔ 
اس روز ایک بڑے مشاعرے میں محمد بن عبد الحمید کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ملک بھر سے شعرا شہر میں اکٹھے ہوئے تھے ۔ کسی بند چار دیواری کی بجائے مشاعرے کا اہتمام مرکزی بازار میں کیا گیا تھا ۔ باقاعدہ ایک بڑا سٹیج تیار کیا گیا تھااور ایک جلسے کا سا ہجوم تھا ۔ اکثر نوجوان شاعر اپنا کلام سنانے سے پہلے محمد بن عبد الحمید کے گھٹنے کو ہاتھ لگاتے ۔ محفل اپنے جوبن پر پہنچی اور آخر محمد بن عبد الحمید سے کلام سنانے کی درخواست کی گئی ۔ عین یہی وہ وقت تھا ، جب گڑ بڑ شروع ہوئی ۔ مشرق کی طرف سے ایک گدھا سوار مشاعرے کی جانب بڑھ رہا تھا۔ ایک گدھے پر وہ سوار تھا اورایک دوسرے کی رسی اس نے اپنے ہاتھ میں تھام رکھی تھی ۔ اس نے دھوتی باندھ رکھی تھی اور اس کے اوپر صرف بنیان زیبِ تن تھی ۔ یہ بنیان انتہائی میلی تھی ۔ سامنے سے وہ گنجا تھا مگر شانوں پہ لمبی زلفیں بکھری ہوئی تھیں ۔اس کا حلیہ صاف بتا رہا تھا کہ وہ بارش کے بارش ہی نہاتا ہوگا۔ دور سے ہی وہ شور مچاتا آرہا تھا کہ محمد بن عبد الحمید ذرا انتظار کرے تاکہ وہ بھی اس کے کلام سے محظوظ ہو سکے ۔
آخر کار وہ سٹیج کے قریب پہنچ گیا۔ سٹیج کے سامنے کرسیوں کے درمیانی خلا سے وہ اپنے گدھے اگلی قطار میں لے آیا اور انہیں دوکرسیوں کے ساتھ باندھ دیا۔ ایک گدھے نے ذرا اڑی کی تو اسے پہلے ڈنڈے سے مارا اور پھر پائوں سے بڑا سارا جوتا اتار کر اس کی پشت پہ پانچ چھ بار جڑ دیا ۔ گدھے باندھنے کے بعد وہ سٹیج کے بالکل سامنے رکھی ایک کرسی پر بیٹھ گیا ۔ اس کے ساتھ والی نشستوں والے دو تین لوگ ناگواری سے اٹھ کر پیچھے چلے گئے ۔ محمد بن عبد الحمید نے پہلا شعر کہا ۔اس شعر میں ایسے شخص کے جذبات و احساسات کو نہایت لطیف پیرائے میں بیان کیا گیا تھا ، مسلسل جو محبوب کے تغافل کا شکار ہو ۔اس پر اس دیہاتی نے اپنی نشست سے اٹھ کر داد دی ۔ ساتھ ہی اس نے کرسی کے ساتھ زور آزمائی کرنے والے گدھے کو چار پانچ بار ڈنڈا رسید کیا کہ وہ آرام سے کھڑا ہو جائے ۔ محمد بن عبد الحمید نے اگلا شعر کہا ، اس میں پہلے شعر کی نسبت زیادہ باریکیاں تھیں ، نو آموز شاعروں کو بھی جنہیں سمجھنے میں دشواری پیش آتی۔ دیہاتی نے اس پر بھی خوب داد دی ۔ اس کے ساتھ ہی زور سے اس نے کہا ''اک واری فیر ، اک واری فیر ‘‘ اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ شعر دوبارہ سننے کے لیے ''مکرر‘‘ کہا جاتاہے ۔ 
محمد بن عبد الحمیداگلا شعر سنانے لگا۔ دل ہی دل میں وہ دعا کر رہا تھا کہ اب کی بار وہ شخص خاموش رہے ۔ شعر کی تعریف نہ کرے۔ اس شعر میں اس نے اپنی روح کو جسم کا قیدی کہا تھا، جیسے کہ ایک پرندے کو پنجرے میں بند کر دیا جاتا ہے اور موت سے پہلے اسے رہائی نصیب نہیں ہوتی ۔ دیہاتی نے اس پر بھی خوب داد دی ۔ آخر محمد بن عبد الحمید غصے سے پھٹ پڑا ۔دیہاتی ہنستا رہا ۔ آخر محمد بن عبد الحمید چپ ہوا تواب اس نے شستہ اردو میں کہا: بھائی صاحب ، آپ ناراض کیوں ہو رہے ہیں ۔ میں نے آپ کے شعروں کی تعریف ہی تو کی ہے ۔ محمد بن عبدالحمید تو غصے سے کانپ رہا تھا۔ ساتھ بیٹھے لوگوں نے اسے سمجھایا کہ شاعر ایسے لوگوں کی تعریف سے خوش ہوتے ہیں ، جو باذوق ہوں ۔ اگر سر سے پائوں تک مٹی میں اٹا ہوا، گدھے سے مار پیٹ کرتا ہوا اور پھٹے ہوئے کپڑوں والا ایک شخص کسی بڑے شاعر کی تعریف کرے تو یہ الٹا اس کے لیے نقصان دہ ہے ۔ وہ تو ان لوگوں سے تعریف چاہتا ہے ، جو غیر معمولی اذہان کے مالک ہوں ۔ 
دیہاتی نے یہ کہا '' پہلی بات تو یہ ہے کہ میں ایک پڑھا لکھا، باذوق بندہ ہوں اور اپنا یہ حلیہ میں نے ایک خاص مقصد کے تحت بنا رکھا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ اپنے بارے میں محمد بن عبد الحمید صاحب کا کیا خیال ہے ۔ میں نے تو ان کی تعریف ہی کی ہے اور ان سے برداشت نہیں ہو رہی۔ یہ تو خدا کی ذات سے شکوے فرماتے رہتے ہیں۔ کیا انہوں نے مذہب اور زندگی کا اس قدر مطالعہ کر لیا ہے کہ وہ قدرت سے شکایت کر سکیں ؟ کیا انہوں نے مخلوقات کا مطالعہ کر لیا ہے ؟ کائنات کا جائزہ وہ لے چکے ہیں؟ یا پھر صرف اپنی ذاتی محرومیوں کو بنیاد بنا کر ، حرف شناسی سے اور زورِ بیان کی قوت سے فائدہ اٹھا کر عوام کالانعام کو گمراہ کر رہے ہیں ۔ دنیا کی یہ زندگی آزمائش کے لیے بنی ہے ۔ یہ عیش و آرام کے لیے نہیں بنی ۔ اس آزمائش کو ہم اپنی مرضی سے تبدیل نہیں کر سکتے ۔ اکھاڑے میں کھڑا ہو کر باکسر محمد علی یہ فرمائش نہیں کر سکتا کہ مخالف باکسر اسے چار مکے کم رسید کرے اور اس کے بعد بے شک محمد علی کو جیتنے پر ملنے والے انعام میں سے کچھ رقم کاٹ لی جائے ۔ نہ ہی ایک بیمار یہ مطالبہ کر سکتاہے کہ اے خدا ، میرے دو گردوں میں سے ایک ٹھیک کر دے اور اس کے بدلے میری 72حوروں میں سے ایک کم کر دے ۔ پھر یہ کہ دعا ایک چیز ہے ،اور مایوسی میں کوسنا بالکل دوسری چیز۔ 
وہ بولتا رہا:خدا نے کبھی یہ نہیں کہاکہ یہ دنیا اس نے مثالی بنائی ہے ۔ یہ تو ہے ہی کمی کی دنیا ۔ کوئی بیمار ہے ، کوئی تنگدست ۔آج اگر میں یہ اعلان کر وں کہ میں پانچ سال کے لیے شدید چیلنجز سے ایک شخص کو گزاروں گا ۔ پھر اگر وہ کامیاب ہوا تو اسے خوب دولت دوں گا تو جسے میری بات کا اعتبار ہوگا، وہ آزمائے جانے کے لیے تیار ہو جائے گا ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں خدا پر اعتبار نہیں ہے ورنہ ہم ایسے نہ کریں۔ اس کے بالکل برعکس خدا دولت کو بھی آزمائش کہتاہے ۔ جن لوگوں کے پیٹ بھرے ہیں اور جو صحت مند ہیں ، وہ اور طرح کی خرابیوں میں پڑے ہیں ۔ مشرقِ وسطیٰ والوں کو دیکھ لیجیے۔ جب پیٹ بھر کے کھانا نصیب نہ ہو تا تھاتو دنیا پر حکمران تھے۔ آج وہ دولت کے انبار پہ بیٹھے ہیں اور دنیا میں کوئی ان کی سننے والا نہیں ۔ 
وہ اپنے گدھے کھول کر لے گیا اور شعرا کے اس ہجوم کو سوچتا ہوا چھوڑ گیا ۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں