"FBC" (space) message & send to 7575

کائنات، کرّہ ء ارض، انسان اور زندگی

مردوں میں دماغ کا اوسط وزن 1.3کلو ، جب کہ خواتین میں 1.2کلو ۔ انسانی دماغ کا درمیانی حصہ لمبک سسٹم جذبات کو کنٹرول کرتاہے ۔ان میں خوف بھی شامل ہے اور اس خوف پر زندگی کا انحصار ہے ۔ جیسا کہ اگر آپ اونچی جگہ سے نیچے زمین کی طرف دیکھیں تو آپ کو نیچے گرنے کا خوف آ لیتا ہے ۔ جب خوف انسان پر قابو پالے تو پھر وہ عقل سے کام نہیں لے سکتا۔دل کو دھڑکنے کا حکم دماغ ہی سے جاتا ہے ۔ جب دشمن سے واسطہ پڑے یا کسی خوفناک صورتِ حال سے، تو دماغ سے دل کو حکم جاتا ہے کہ انتہائی تیزی سے دھڑکے اور اضافی توانائی (آکسیجن جمع گلوکوز) جسم کو مہیا کرے ، یوں جسم دشمن سے مقابلے کے لیے تیار ہو جاتاہے ۔ انتہائی شدید خطرے میں ، آنکھوں اور دیگر حسیات سے معلومات دماغ کے جذبات اور خوف والے حصے کو دو گنا رفتار سے منتقل ہوتی ہیں، بہ نسبت عقل والے حصے کو منتقل ہونے سے ۔ عام طور پر ایسی صورتِ حال میں انتہائی تیزی سے ردّعمل دینا بہت ضروری ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر ، جب آپ کو معلوم ہے کہ سامنے کی چھت پر کوئی شخص بندوق لے کر آپ کا نشانہ لے رہا ہے۔ امریکن نیوی میں نئے بھرتی ہونے والے جوانوں کو جس تربیت سے گزارا جاتاہے ، اس میں معلوم ہوا ہے کہ جب بندے کو پتہ چلے کہ وہ سانس نہیں لے سکتا تو اس سے بڑا خوف کوئی نہیں ہوتا یعنی ڈوبنے کے خوف سے زیادہ بڑا خوف کوئی نہیں ۔ یہاں زیادہ تر کارٹیکس (دماغ کا عقل والا حصہ )ہار جاتاہے اور امیگڈلا (خوف سے متعلق دماغ کا حصہ )جیت جاتاہے ۔ بندہ عقل کی بجائے جذبات کی پیروی کرتاہے ۔ عام حالات میں دماغ جو پیغام جسم کی طرف بھیجتا ہے ، وہ 270میل فی گھنٹا کی رفتار سے جاتا ہے لیکن خطرناک صورت حال میں دماغ کیمیکل ہارمونز خارج کرتاہے ۔ دماغ دو مادے ایڈرینالن اور کورٹیسول ہارمونز خون میں خارج کراتاہے ۔ یہ ہارمونزجسم کو خطرناک صورتِ حال سے گزرنے کے لیے تیار کرتے ہیں ۔ یہ فوراً سانس اور دل کی رفتار کو تیز کرتے ہیں ۔ بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے ۔ جسم کو زیادہ توانائی ملتی ہے ۔ حسیات (senses) تیز ہو جاتی ہیں ۔ یاداشت بڑھ جاتی ہے ۔ جسم کو درد کا احساس کم ہو جاتاہے ۔خدائے بزرگ و برتر نے شہید کا جو مقام رکھا ہے ، اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ شہید ہونے والا سب سے بڑے خوف ، یعنی اپنی جان کے خوف پر غالب آجاتاہے۔ اس کی عقل اس کی جبلتوں پر حتمی فتح حاصل کر لیتی ہے ۔ 
انسانی دماغ تک خون لے جانے والی رگوں کی لمبائی کئی میل تک محیط ہے ۔ 
جنید ایک عالم ہے ، سوشل میڈیا پر جس کی تحریر سے اکثر میں استفادہ کرتا ہوں ۔ اس میں سیکھنے والوں کے لیے بہت کچھ ہے ۔ ایک جگہ جنید لکھتا ہے :
we are Homo Sapiens and that means "wise man." self awareness distinguishes humans from most other species. in psychology, self awareness is defined as metacognition, awareness of one's own ability to think. in humans, metacognition and other advanced cognitive skills such as social intelligence, planning and reasoning, are all thought to depend on a region of brain called the "prefrontal cortex." 
مختلف جانوروں میں کوئی خاص صلاحیت انسانوں سے بہت بڑھ کر ہوتی ہے ۔ مثلاً کوئی دور تک دیکھ سکے گا، کوئی دور تک سونگھ سکے گا۔ ان میں سے ہر صلاحیت کے پیچھے دماغ کے کسی مخصوص حصے کا بڑا یا ایسی ساخت کا ہونا ہے کہ وہ اس صلاحیت کو ممکن بناتا ہے ۔ کتا اور بلّی دور تک سونگھ سکتے ہیں ۔ انسانوں کو جو چیز جانوروں سے مختلف اور ممتاز کرتی ہے ، وہ سیریبرل کارٹیکس ہے ۔ یہ چوتھائی انچ موٹا سلیٹی رنگ کا چھلکا ہے ، جو کہ دماغ کے اوپر تہہ در تہہ چڑھا ہوا ہے ۔ یوں اس سلیٹی مادے کی زیادہ سے زیادہ مقدار انسانی کھوپڑی میں سما جاتی ہے ۔lower mammalsمیں نسبتاً یہ سیدھی ہے اور کم مقدار ہے سلیٹی مادے کی۔ زیادہ تر سائنسدا ن متفق ہیں کہ انسانی دماغ کی منفرد صلاحیتیں سیریبرل کارٹیکس سے منسوب ہیں ۔ بولنے اور لکھنے کی صلاحیت، سوچنا، مشاہدہ کرنا ، تجزیہ ، مسئلہ حل کرنا، منصوبہ بندی اور تخیل وغیرہ وغیرہ۔ 
ہائیڈروجن کائنات کا ہلکا ترین عنصر ہے ۔ اس کے ایٹم کے مرکز میں نیوٹران نہیں ہوتا۔ باقی سب میں ایک یا ایک سے زیادہ نیوٹران لازمی ہیں ۔نیوٹران مرکزے میں پروٹون کو جوڑنے والے گلو کا کا م کرتے ہیں ورنہ ایک ہی جیسے چارج یعنی پازیٹو چارج والے پروٹون ایک دوسرے کو دفع کرتے۔جو بہت بھاری عناصر ہیں جیسے کہ یورینیم ، ان میں پروٹون اتنی زیادہ تعداد میں اکھٹے کم جگہ پر پیک ہوتے ہیں کہ نیوٹران انہیں peaceful رکھنے میں ناکام رہتے ہیں اور وہ توانائی خارج کرتے رہتے ہیں اور ذرات بھی ۔ زندہ چیزوں میں بھی ہائیڈروجن ایٹم استعمال ہوئے ہیں اور خود ہائیڈروجن گیس بھی ہائیڈروجن ایٹموں پر مشتمل ہے ۔ لیکن یہ ہمارا مغالطہ ہے کہ ہائیڈروجن گیس مردہ ہے ۔ سب زندہ ہیںلیکن ہم ان کی زندگی محسوس نہیں کر سکتے ۔
جب ایک عنصر کے مرکز میں پروٹون کی تعداد بدلتی ہے تووہ ایک عنصر سے دوسرے میں بدل جاتاہے ۔ یہی وہ عمل ہے جس سے ہائیڈروجن سے ہیلیم اور ہیلیم سے آگے لوہے تک کے سارے بھاری عناصر بنتے ہیں ۔ سب سے ہلکے پانچ عناصر ہائیڈروجن سے بورون تک پانچ عناصر، بگ بینگ میں بنے تھے ۔ اگرچہ ستاروں میں بھی ہائیڈروجن سے بھاری عناصر بنتے ہیں ۔ ان پانچ سے آگے سارے عناصر ستاروں میں بنے ہیں ۔ انتہائی درجہ ء حرارت اور دبائو میں عناصر کے ایٹم ایک دوسرے کے ساتھ فیوژ ہوتے ہیں اور بھاری عناصر بنتے ہیں ۔ اسے نیوکلیئر فیوژن کہتے ہیں ۔ بڑے ستاروں میں مرکری بن سکتاہے ، 92قدرتی عناصر میں جس کا نمبر 80 ہے ۔ اس کے مرکز میں 80 پروٹون ہیں ۔ بہت سے عناصر سپر نووا کے دوران بنتے ہیں ۔سپر نووا کا مطلب کسی بہت بڑے ستارے /سورج کا پھٹ کر فنا ہو نا۔ اس عمل میں یورینیم تک کے عناصر بنتے ہیں ۔ یورینیم 92نمبر ہے ۔ یورینیم 92واں عنصر ،وہ سب سے بھاری عنصر ہے ، جو کہ قدرتی طور پر کائنات میں کافی تعداد میں پایا جاتاہے ۔کوئی قدرتی عمل ایسا نہیں جو اس سے بھاری عنصر قدرتی طور پر بنا سکے ۔ اس کے بعد particle accelatorsانسان نے بنائے ہیں ۔ان میں ذرات کو انتہائی رفتار سے ٹکرایا جاتاہے اور ایٹموں کے مرکز میں پروٹون کی تعداد بڑھائی جاتی ہے۔ ناقابلِ یقین رفتار پر ٹکرا کر سائنسدانوں نے 1993ء میں 93واں عنصر neptuneum بنایا تھا۔ اس کے بعد تعداد بڑھتی چلی گئی ۔ پھر پلوٹونیم بنایا گیا۔ 94نمبر۔ جو کہ یورینیم پر ہائیڈروجن کے ایٹم ٹکرا کر بنایا گیا۔ پلوٹونیم سے ایٹم بم بنایا گیا اور ناگا ساکی پر گرایا گیا۔
ایک دفعہ پہلے بھی میں نے لکھا تھا: ہماری کائنات میں اگر 92عناصر پائے جاتے ہیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ دوسری کائناتوں میں 192ہوں اور وہ مستحکم ہو ں اور وہ اس کائنات کی تشکیل میں شامل ہوں ؟ اگر ایساایک بھی عنصر کہیں کسی کائنات میں پایا جاتا ہو تو ہم انسانوں کے لیے شاید وہ جادوئی خصوصیات کا حامل ہو۔ سویت یونین اور امریکہ میں بھاری عناصر بنانے کا مقابلہ جاری رہا تھا ۔ اسی طرح ، جیسے کہ چاند پر پہلے اترنے کی دوڑ ۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں