آج بھی پلٹ کر جب ایڈم اپنے ماضی کو دیکھتا، اسے افسوس ہی ہوتا۔ کتنا قیمتی وقت اس نے ضائع کر دیا۔ پیدائشی طور پر وہ ایک برتر جنگجو تھا۔ لڑکپن میں ہی اس نے گھڑ سواری، نیزہ بازی اور دوسرے جنگی فنون سیکھ لیے تھے۔عمر میں خود سے دو گنا بڑے اور دو گنا تنومند جوان کو وہ با آسانی گرا دیتا تھا۔ وہ دوسالہ بیل کو اپنے کندھے پر اٹھا سکتا تھا۔ یہ سب تو وہ پہلے ہی سے کر سکتا تھا ، پھر ایغور پاشا سے تین سالہ تربیت کا فائدہ کیا ہوا ؟ صرف اور صرف وقت کا ضیاع؟
ایڈم کو وہ وقت یا دآیا ، جب اس کی ماں اسے ایغور پاشا کے پاس چھوڑ نے آئی تھی ۔ بوڑھااستاد دیومالائی شہرت کا حامل تھالیکن اب تو خیر وہ بے حد عمر رسیدہ ہو چکا تھا۔ ایڈم کی ماں نے پاشا سے کہا کہ اس کے بیٹے کو اپنی شاگردی میں وہ قبول کر لے ۔ پاشا نے ایڈم کو دیکھا تو مسکرا دیا۔پھر اس نے کہا '' بس ایک آنچ کی کمی۔۔۔تیرے بیٹے میں ایک آنچ کی کمی ہے ‘‘ ۔ ایغور پاشا کی شہرت یہ تھی کہ وہ سب استادوں سے بڑا استاد تھا۔ ایڈم تب خوش تھا کہ اتنے بڑے استاد سے تربیت کے بعد اس میں ایک آنچ کی جو کمی ہے ، وہ دور ہو جائے گی ۔ اس کے بعد وہ اس پورے علاقے کا سب سے بڑا شہسوار ہوتا ۔
پاشا نے پہلی مشق کا آغاز کیا۔ ایڈم کو اس نے پانی سے بھرا ہوا ڈرم اٹھا کر چار منزلہ عمارت کی چھت پر لے جانے کو کہا ۔ یہ ڈرم اسے اپنی کمر پر اٹھانا تھا۔ پاشا جب تیسری منزل کی سیڑھیاں چڑ ھ رہا تھا، اچانک ایک شخص اس پہ پل پڑا۔بھرپور قوت سے ایک ڈنڈا اس نے ایڈم کے پیٹ میں رسید کیا اور بھاگ نکلا۔ ڈرم نیچے گرا ، پانی سیڑھیوں پر بہہ گیا ۔ پاشا دیکھتا رہ گیا ۔80کلو وزن کا ڈرم اٹھا کر ، دنیا کا کون سا جنگجو اپنا دفاع کر سکتا ہے ، وہ سوچتا رہ گیا۔
اس دن کے بعد سے ایسی احمقانہ مشقوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ اسے آنکھوں پر پٹی باندھ کر ایک دیوار پہ چلنے کا حکم ملا ۔ کچھ دیر تک چلنے کے بعد ایڈم کو محسوس ہوا کہ دیوار ہل رہی ہے ۔ اس جگہ پر اینٹوں کو سیمنٹ سے جوڑ انہ گیا تھابلکہ یونہی اوپر نیچے رکھ دیا گیا تھا۔ ایڈم پھر بھی چلتا رہا۔ کچھ آگے چل کر دیوار تنگ ہونا شروع ہو گئی ۔ پھر بھی وہ چلتا رہا۔ یہاں تک پہنچ گیا تو پھر کسی نے اس کی ٹانگ پکڑ کر کھینچ لی ۔ وہ نیچے آگرا ۔ جتنی دیر میں اس نے آنکھوں سے پٹی اتاری ، حملہ آور بھاگ چکا تھا۔ یہ بھی وہی صورتِ حال تھی کہ دنیا کا کوئی چوکس سے چوکس شخص بھی جس میں گرنے سے بچ نہ سکتا ۔
ایڈم کو محسوس ہوا کہ پاشا جان بوجھ کر اس کے لیے ایسی مشقیں ترتیب دیتا ہے ، جس میں کامیابی کی کوئی صورت بھی نہیں تھی ۔ ایک دفعہ اسے حکم ملا کہ آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسے مرغیاں ذبح کرنی ہیں ۔ یہ اس نے کرڈالا۔ دوسری دفعہ حکم ملا کہ اب بکرا ذبح کرنا ہے ، دیکھے بغیر اور تنِ تنہا۔یہ بھی اس نے کر ڈالا۔ اب اسے حکم ملا کہ اس نے آنکھوں پر پٹی باندھ کر بیل ذبح کرنا ہے اور وہ بھی اکیلے ۔ بیل بھی ایسا ، جو کہ بندھا ہونے کی بجائے آزاد ہو ۔ نتیجہ وہی نکلا، جو نکلنا چاہئے تھا۔ بیل نے خوب اسے ٹکریں ماریں ،بمشکل اس کی جان بچی ۔ اچھی خاصی چوٹیں برداشت کرنا پڑیں ۔
یہ انوکھی تربیت جاری و ساری تھی ۔ہر روز ایک نئی مشق اس کے لیے ایجاد کی جاتی ۔ لازمی طور پر وہ ناکام رہتا؛حالانکہ زندگی میں کبھی اس نے ناکامی کا منہ نہ دیکھاتھا۔ وہ تو ایسا بھرپور طاقتور، ذہین اور چست تھا کہ مشکل سے مشکل ہدف با آسانی حاصل کر لیا کرتا۔ ادھر ایغور پاشا اسے دن رات ذلیل کرنے میں لگا ہوا تھا ۔ ایک رو ز اس نے حکم دیا کہ جنگل میں سے اسے یوں گزرنا ہے کہ کسی درخت پر بیٹھا ہوا آدمی اسے پتھر نہ مار سکے ۔ ایڈم جب جنگل سے گزرا تو اس کے اوپر پتھروں کی بارش ہو گئی ۔ بعد میں پتہ چلا کہ پاشا نے ہر درخت پر اپنا ایک ہرکارہ بٹھا رکھا تھا۔ ان سب سے بچنے کی ایک ہی صورت تھی کہ ایڈم کے پاس کوئی آسمانی قوتیں ہوتیں ۔
ان حالات میں خوب سوچنے کے بعد ایڈم اس نتیجے پر پہنچا کہ اندر ہی اندر ایغور پاشا اس سے حسد کرتاہے ۔ خود چونکہ وہ بہت بوڑھا ہو چکا ہے اور ایڈم میں چونکہ اسے ہر خوبی دکھائی دیتی ہے ؛لہٰذا وہ جان بوجھ کر اسے ذلت سے گزار رہا ہے۔ مسئلہ یہ تھا کہ پاشا اس پورے علاقے میں دیو مالائی شہرت رکھتا تھا۔ خود وہ پاشا کی کہانیاں سنتا جوان ہو اتھا لیکن ان تین سالوں میں پاشا نے اسے بری طرح سے ذلیل کر کے رکھ دیا تھا ۔ اس کی ہر مشق ایسی تھی کہ جس میں کامیاب ہونے کی کوئی صورت نہیں تھی ۔ یہ مشقیں جان بوجھ کر اسے ناکام کرنے کے لیے تیار کی گئی تھیں ۔ اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ اس کا سینہ غم سے پھٹ رہا تھا۔ اس کے وہ قیمتی تین سال ، جن میں ایک آنچ کی کمی دور ہونا تھی، ایک بوڑھے شخص کے حسد کی نذر ہو گئے تھے ۔
تین سال مکمل ہو چکے تھے۔ ایڈم کی ماں اسے لینے آئی۔ اس نے پاشا سے پوچھا کہ کیا اس کے بیٹے میں ایک آنچ کی کمی دور ہو گئی ہے ۔ پاشا نے ہنس کر کہا ، ہاں ، ایک آنچ کی کمی دور ہو گئی ہے ۔ تیرا بیٹا اب کندن ہے ۔ یہ وہ لمحہ تھا، جب جذبات کی شدت میں ایڈم پھٹ پڑا ۔ اس نے کہا ، ابے او بوڑھے، یہ تو بتا تین سال میں ، میں نے کیا سیکھا ہے ؟ ایڈم کی ماں حیرت اور صدمے سے دیکھتی رہ گئی ۔ اس کا بیٹا اپنے استاد کو ''ابے او بوڑھے ‘‘ کہہ کر مخاطب کر رہا تھا ۔ پاشا مسکراتا رہا۔ اس نے کہا ، میں نے تجھے ناکامی برداشت کرنا سکھایا ہے ۔ تیرے اندراسی چیز کی کمی تھی ۔ اس نے کہا ، ایڈم جیسے جوان جنہیں زندگی میں ناکامی سے واسطہ نہیں پڑتا،جو غیر معمولی طور پر کامیاب رہتے ہیں ، ان کے اندر ناکامی برداشت کرنے کی طاقت نہیں رہتی۔ مسئلہ یہ ہے کہ بالاخر ناکامی کا ہر انسان کو سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اس لیے کہ خدائی منصوبہ انسانی منصوبے سے مختلف ہوتا ہے اور انسان اکثر صورتوں میں بے بس ہو جاتا ہے ۔ فرض کروکہ ایڈم ایک پھول توڑنے جنگل میں جاتا ہے ، اگر زلزلے یا طوفان میں جنگل ہی تباہ ہو جاتا ہے ، تو بہرصورت اسے ناکام ہونا پڑے گا۔ اسی طرح زندگی میں مختلف مواقع پر بہرحال ناکامی کا انسان کو سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ایڈم میں ناکامی برداشت کرنے کی قوت نہیں تھی ۔ ہاں ، میں جان بوجھ کر ایسی مشقیں ترتیب دیتا رہا، جن میں روزانہ کی بنیاد پر یہ ناکام ہو تا رہے ۔
پھر اس نے کہا ، اس سے پہلے میں ایک قیمتی شاگرد گنوا چکا ہوں ۔ وہ بھی کامیابیوں کا عادی تھا۔ ناکامی سے واسطہ پڑا تو اپنے ہوش و حواس ہی کھو بیٹھا ۔ اس لمحے ایڈم نے سوچا، واقعی ،پاشا نے اس میں ایک آنچ کی کمی دور کر دی ہے ۔