غصہ ایک ایسی کیفیت ہے ،ہر شخص کو جس سے واسطہ پڑتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ انسانی عقل کو کھا جاتا ہے ۔ اس دوران انسان کی سوچ کا محور و مرکز یہ بن جاتا ہے کہ ہر صورت اسے اپنے سامنے موجود شخص کو غلط ثابت کرنا ہے ۔ اس دوران وہ ایسی باتیں کرتا ہے ، بعض اوقات اس کا اپنا دماغ بھی جنہیں غلط سمجھتا ہے لیکن اس کے باوجود اس وقت اس کی سوچ کا محور و مرکز سامنے موجود شخص کو انتہائی حد تک تکلیف پہنچانا ہوتا ہے ۔رشتوں کو نقصان پہنچتا ہے ۔ غصے کی حالت میں میاں بیوی میں طلاق ہو جاتی ہے ۔ کاروباری تعلق ختم ہو جاتے ہیں ۔ انسان کوئی ایسا قدم اٹھا بیٹھتا ہے ، جس کے بعد باقی رہنے والی دشمنی کا آغاز ہوتا ہے ۔ نسل درنسل جس کا قرض انسان کو چکانا پڑتا ہے ۔ وہ بہت پچھتاتا ہے لیکن اس کے بعد جاپانی محاورے کے مطابق ''ہاتھوں سے لگائی گئی گرہیں باقی زندگی اسے دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں‘‘۔
غصے کی وجوہات بہت سی ہیں ۔ اس کی ایک وجہ سامنے موجود شخص کی ''کم عقلی ‘‘ ہوتی ہے ۔ ''کم عقلی ‘‘ پر کاماز لگانے کی وجہ یہ ہے کہ بعض اوقات ہم جس بات یا حرکت کو سامنے موجود شخص کی کم عقلی سمجھ رہے ہوتے ہیں ، وہ حقیقت میں کم عقلی ہوتی ہی نہیں ۔ ہمارا ذہن اسے ایک کم عقلی کی بات سمجھتا اور اس پر اپنا ردّعمل دیتا ہے ۔یہ غصے کی وہ وجہ ہے ، سب سے زیادہ ، جس میں بڑی عمر کے لوگوں پر غصہ آتا ہے ۔ آپ کے والدین یا وہ عمر رسیدہ لوگ ، جن سے روزانہ کی بنیاد پر ہمیں واسطہ پڑتا ہے ۔ آپ کی دانست میں ان کی باتیں سمجھداری کی نہیں ہوتیں۔ اس کی وجہ generation gapبھی ہوتاہے ۔ ظاہر ہے کہ پرانی نسل انٹرنیٹ ، وائی فائی سگنلزاور ایسی دوسری جدید چیزوں کو اتنا نہیں سمجھتی ۔وقت کے ساتھ ساتھ آنکھ،
کان وغیرہ سے دماغ کو ڈیٹا کی منتقلی متاثر ہوتی ہے اور عمر رسیدہ لوگ بعض اوقات بچّوں کی سی باتیں کرنے لگتے ہیں ۔ان حالات میں نا سمجھی کی ان باتوں پر اولاد کو غصہ آنے لگتا ہے ۔ اس کا حل عقل میں ہے ۔ جب آپ کی عقل آپ کو یہ بتائے گی کہ آج سے چالیس سال پہلے جب تم چھوٹے سے بچّے تھے تو اسی شخص پر منحصر تھے۔ اس وقت تم کم عقلی کی باتیں کرتے تھے تو یہ ہنستا تھا لیکن تمہاری ساری کی ساری ضروریات پوری کرتا تھا۔ آج جب وہ کم عقلی کی باتیں کر رہا ہے تو تمہیں چاہئیے کہ خوش دلی سے انہیں سن ضرور لو، عمل بے شک نہ کرنا ۔ بوڑھے افراد کی خواہش عموماً یہ ہوتی ہے کہ ان کی بات سنی جائے اور انہیں اہمیت دی جائے۔ اس کی نفسیاتی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاملات ان کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں ۔ پھر بھی اگر ان کی رائے سنی اور اسے اہمیت دی جائے تو اس سے وہ مطمئن ہو جاتے ہیں ۔
والدین عموماً وہ سوال کرنے لگتے ہیں ، جو اولاد کی نظر میں غیر ضروری ہوتے ہیں ۔ وہ غیر ضروری طور پر ہر معاملے میں اسے بے حد احتیاط کا مشورہ دیتے ہیں ۔ اولاد کو یہ نظر آتا ہے کہ اپنی smartnessکی مدد سے وہ سب چیزوں پر قابو پالے گا۔ مثلاً ایک دم گاڑی تیز دوڑا کر اور بائیں طرف سے نکال کر دوسری گاڑی کو اوورٹیک کرنا اسے ایک بے حد آسان taskمحسوس ہورہا ہوتا ہے ۔ اسی طرح وہ یہ سوچتا ہے کہ صبح اٹھ کر کپڑے استری کر لوں گا۔ ادھر ماں کہتی رہتی ہے کہ رات کو ہی استری کر کے رکھو۔ ایسے میں اسے غصہ آجاتا ہے ۔
غصے کی حالت میں دماغ کا جذبات والا حصہ عقل والے حصے پر غلبہ پا لیتا ہے ۔ اس وقت وہ تمام تر انسانی عقل کو اپنی مرضی سے استعمال کرتا ہے ۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا، اس وقت انسانی سوچ کا محور و مرکز یہ رہ جاتا ہے کہ ہر قیمت پر دوسرے شخص کو غلط اور پست ثابت کرے ۔بعد ازاں اس کے نتائج بہت منفی ثابت ہوتے ہیں ۔ دراصل زندگی میں 90فیصد وقت ہمیں دوسروں کے ساتھ نہیں بلکہ اپنی ذات کے ساتھ ڈیل کرنا ہوتا ہے ۔ ہر انسان اپنی خوبیوں سے کسی مقام پر پہنچتا ہے اور اس میں دوسروں کی خامیاں اسے اس مقام پر پہنچنے سے روک نہیں سکتیں ۔ اسی طرح کسی شخص میں ، جس سے روزانہ ہمارا واسطہ پڑتا ہے ، اگر ہزاروں خامیاں بھی ہوں تو وہ ہماری خوبیوں کی بنیاد نہیں بن سکتیں۔ ایسے شخص سے لڑائی جھگڑے میں ہم اپنی توانائیاں تو ضائع کر سکتے ہیں لیکن کسی مقام پر نہیں پہنچ سکتے ۔
قرآن جب وہ انسانی خصوصیات بتاتا ہے ، جنہیں اللہ پسند کرتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ تنگی اور آسانی دونوں حالتوں میں خرچ کرنے والے اور غصہ پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے ۔ ۔۔آپ کے خیال میں ، غصہ دلانے والے لوگ اور مواقع ہماری زندگیوں میں نتھی کیوں کر دئیے جاتے ہیں ؟ اس لیے کہ ان صبر آزما حالات میں انسان کی آزمائش چھپی ہوتی ہے ۔ اگر غصہ پیدا کرنے والے حالات میں انسان کچھ دیر صبر کر لے تو یہ ختم ہو جاتا ہے ۔ اگر ہم غصے کی حالت میں اپنا ردّعمل دے دیں تو پھر ظاہر ہے کہ ایک نہ ختم ہونے والی جنگ شروع ہو جاتی ہے ۔ اس لیے کہ دوسرا شخص بھی اپنا بھرپور ردّعمل دیتا ہے ۔ اس کے دماغ میں بھی غصے سمیت ساری جبلتیں اسی طرح موجود ہیں ، جس طرح کہ آپ کے دماغ میں ۔
غصہ مسکینوں اور کمزوروں پر زیادہ آتا ہے ۔ جو شخص زیادہ خوبصورت، زیادہ مالدار، زیادہ stylish ، زیادہ سمجھدار نظر آتا ہے ، اس پر غصہ بہت کم آتا ہے بلکہ اس کے مقابل نفس اپنے اندر کمتری محسوس کرتا ہے ۔ ہو سکتاہے کہ وہ اس سے حسد محسوس کرے اور ہو سکتاہے کہ وہ اس سے بہتر نظر آنے کی کوشش کرے لیکن عموماً ایسے شخص پر غصہ نہیں آتا۔ اس کے برعکس جس شخص میں کم عقلی ، بد صورتی اور کمتری کے دوسرے مظاہر نظر آرہے ہوں اور وہ بیچار ا مسکین آپ سے ایک معصوم سا سوال بھی پوچھ لے تو ایک دم غصہ آتا ہے ۔ انسانی نفس غیر معمولی صلاحیت کا حامل ہے کہ قدرت کی نفیس ترین تخلیق یعنی ہمارا دماغ اس کے تصرف میں ہوتا ہے ۔ اس لیے یہ بہت پیچیدہ حساب کتاب بھی با آسانی کر لیتا ہے ۔ اسے اچھی طرح سے معلوم ہوتا ہے کہ کون مجھ سے کمتر ہے اور کون مجھ سے برتر ۔ لیکن ہم آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ نفس انسان کو مشکل میں ڈالنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ اس کی ساری ذہانت سطحی ہوتی ہے ۔ اصل راستہ، اصل چابی عقل ہی کے پاس ہوتی ہے ۔ ایک عالی دماغ نے یہ کہا تھا : عافیت گمنامی میں میں ہوتی ہے ، گمنامی نہ ہو تو تنہائی میں ۔ تنہائی نہ ہو تو خاموشی میں اور خاموشی بھی نہ ہو (خاموش رہنا بھی ممکن نہ ہو )تو پھر صحبتِ سعید میں ۔ ویسے عملی طور یہ ممکن نہیں کہ انسان کو ہمیشہ گمنامی ،تنہائی، خاموشی اور چپ رہنے کی آپشن میسر ہو ۔ بولنا تو بہرحال پڑتا ہے لیکن یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ غصہ بے حد نقصان دہ ہوتا ہے ۔ خواہ آپ دوسروں کو نیچا دکھا بھی لیں لیکن یہ انسانی دماغ کو تکلیف دہ compositionمیں لے جاتا ہے ۔ غصے کی حالت میں ہوتا کیا ہے ؟ میرے خیال میں اس وقت دماغ کے خلیات میں پیغام رسانی لازماً انتہائی تیز ہو جاتی ہے ۔