"FBC" (space) message & send to 7575

اعتدال

اعتدال پر لکھنے سے پہلے ایک معذرت ۔گزشتہ دو تین کالموں میں ، ایک بہت بڑی غلطی یہ ہوئی کہ ہمدرد لیبارٹریز اور اس جیسے دوسرے اداروں کا ذکر کرنا بھول گیا۔ یہ وہ ادارے ہیں ، جہاں جڑی بوٹیوں سے ادویات بنائی جاتی ہیں لیکن اعلیٰ معیار کو مدّنظر رکھتے ہوئے۔ چند سال پہلے ہمدرد والوں کا ایک اشتہار دیکھا تھا، جس میں نوکریوں کے لیے امیدوار درکار تھے۔ان امیدواروں سے اعلیٰ درجے کی تعلیمی قابلیت اور تجربہ طلب کیا گیا تھا۔ وہ سب ادارے جو تحقیق کے لیے باقاعدہ بجٹ مختص کرتے ہیں ۔ جہاں عالمی معیار کے اوزار (Tools) اور اصول برتے جاتے ہیں ۔میری تنقید ان پر ہرگز نہیں تھی ۔ یہ ادارے منافع خوری کی بجائے فلاح و بہبود کی بنیاد پر کام کررہے ہیں ؛لہٰذا وہ تعریف کے مستحق ہیں ۔ایسے سب ادارے خود کو اس تنقید سے بری سمجھیں ۔ میرا اعتراض ان لوگوں پر ہے ، جو تنہا تمام تر امراض کا مسیحا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیںاور لا علاج بیماریوں کا بھی۔ ایک شخص ہر چیز کا ماہر کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔ ایسے بہت سے لوگ مبینہ طور پر steroidsاستعمال کرتے ہیں اوروقتی شفا کے بعد بیماریوں کو مزید بگاڑ دیتے ہیں ۔ کئیوں کو وہ قبر میں اتار دیتے ہیں ۔ ایلو پیتھک کی خصوصیت یہ ہے کہ وہاں ناک کان گلے اور دل سمیت مختلف اعضا اور بیماریوں کے ماہرین الگ ہیں۔ علاج میں خون ، پیشاب اور دیگر ٹیسٹ ایلو پیتھک والے سب سے زیادہ استعمال کرتے ہیں ؛لہٰذا علاج سائنسی بنیادوں پر ہوتا ہے ۔ غلطی کی گنجائش بہت کم ہو جاتی ہے ۔ ایلو پیتھک کا ایک اور طرّہ ء امتیاز یہ ہے کہ وقتی ریلیف ہی علاج کی بنیاد نہیں ہوتی بلکہ مرض کا مستقل علاج۔ مریض اگر درد سے تڑپ بھی رہا ہو تو اسے ایک حد سے زیادہ درد کش انجکشن نہیں دیے جا سکتے کہ وہ گردے کو نقصان پہنچاسکتے ہیں ۔
میں نفس کے بارے میں لکھتا رہا ہوں ۔ نفس کیا ہے ؟ جن لوگوں کو اللہ نے علم دیا، وہ جانتے تھے کہ جیسے انسان کی ایک ظاہری شکل و صورت اور شخصیت ہے ، اسی طرح اس کے اندر ایک پوشیدہ شخصیت بھی زندگی گزارتی ہے ۔ یہ پوشیدہ شخصیت کیا ہے ؟ یہ انسان کی تمام خواہشات اور عادات کا مجموعہ ہے ۔اس کی کچھ عادات ہوتی ہیں ، جو زمین پر گزرے کروڑوں اربوں سالوں میں مکمل طور پر پختہ ہو چکی ہیں ۔ مثلاً دنیا کا ہر شخص تعریف کو پسند کرتا ہے اور تنقید کا برا مانتا ہے ۔ مال و دولت کا حصول سب کو اچھا لگتا ہے اور اس سے محرومی سب کو بری لگتی ہے ۔ اپنی باتوں کی تائید سب کو اچھی لگتی ہے اورخود سے اختلاف پر انسان غصے میں آجاتا ہے ۔ جنسِ مخالف میں ہر ایک کو کشش محسوس ہوتی ہے اور ہر کوئی اسے حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ اپنے آپ کو نقصان پہنچانے والے سے ہر انسان انتقام لینا چاہتاہے ۔ اسے برباد کرنا چاہتاہے ، اسے رسوا کرنا چاہتا ہے ، اس کی تذلیل چاہتا ہے ۔ یہ وہ عادات ہیں ، جن کے تحت انسان اپنی پوری کی پوری زندگی گزار دیتاہے لیکن وہ اس چیز کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا ۔ بہت سے لوگ، جیسا کہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس اور بل کلنٹن ، اپنا مستقبل ان خواہشات کے تعاقب میں برباد کر لیتے ہیں ۔ بار بار الزامات لگتے ہیں لیکن انسان پھر بھی سبق نہیں سیکھتا۔ میں ہوں یا آپ، ہم سب خواہشات کے جال میں جکڑے ہوئے ہیں ۔ یہ خواہشات بہت خوفناک حد تک طاقتور ہیں ۔ ان سے صرف وہی لوگ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے، جو علم و عقل کی طاقت سے کام لیتے رہے اور جو خدا سے مددطلب کرتے رہے ۔ یہ کوئی ایک دن کی بات نہیں بلکہ جب تک ہماری ارواح ہمارے جسموں سے نکل نہیں جاتیں، یہ معرکہ جاری رہتا ہے ۔ موت کے وقت ہی انسان کے اوپر مہر ثبت ہوتی ہے کہ وہ کامیاب رہا یا ناکام۔ 
نفس کی ایک بنیادی عادت حسد ہے ۔ یہ جب بھی کسی دوسرے کے پاس اپنے سے بہتر چیز دیکھتا ہے ، فوراً حسد میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ اس کی دوسری عادت تکبر کی ہے ۔ یہ جب بھی کسی کو اپنے سے کمتر دیکھتا ہے ، فوراً وہ تکبر میں ڈوب جاتا ہے ۔ یہ کمتری کسی بھی صورت میں ہو سکتی ہے ، خواہ وہ شخص آپ کو اپنے سے غریب لگے، اس کا لباس اچھا نہ ہو، اس کی شکل و صورت اچھی نہ ہو ، آپ فوراً ایسے شخص کو حقارت کی نگاہ سے دیکھیں گے ۔اس کے برعکس اگر آپ ایک شخص کو بہت خوبصورت ، بہت مالدار ، بہت فصیح ، بہت بڑا عالم نظر آئے گا تو نفس فوراً ایسے شخص کے ساتھ تعلقات بنانے کی خواہش کرے گا ۔ ایک کمتر شکل و صورت، دولت اور علم والا شخص اگر نظر آئے گا تو دل میں اس سے تعلقات بنانے کی خواہش پیدا نہیں ہوگی ۔ 
یہ بے سبب نہیں کہ خدا نے نفس کو جب پیدا کیا تو اسے اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان یا تو خدا کی عبادت کرتا رہتا ہے یا پھر وہ اپنے نفس کی عبادت کرتا ہے ۔ ''بھلا آپ نے دیکھا ایسے شخص کو جس نے اپنی خواہش کو اپنا خدا بنا لیا ؟ ۔۔۔‘‘الفرقان 43۔
خدا یا نفس میں سے ایک کا انتخاب ہمیں کرنا ہوتا ہے ۔ 
نفس کی ایک اور عادت یہ ہے کہ مستقبل کے بارے میں سوچتے ہوئے، یہ ہمیشہ خدشات کا شکار رہتا ہے ۔ یہ ہمیشہ مال و دولت ، شکل و صورت ،اولاد ، اختیاراور اقتدار کو کھو دینے کے ڈر سے کانپتا رہتا ہے ۔چونکہ نفس کو ان نعمتوں سے محرومی کا خوف ہوتا ہے ، اس لیے وہ کوشش یہ کرتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مال جمع کرتا جائے ۔ اس زیادہ کی کوئی بھی حد (limit)نہیں ہوتی۔ ہزاروں والا لاکھوں میں ، لاکھوں والا کروڑوں میں ، کروڑوں والا اربوں میں ، اربوں والا کھربوں میں ، حتیٰ کہ اگر انسان کو پوری زمین کے وسائل بھی مل جائیں تو بھی اس کا پیٹ نہ بھرے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرح کے نشے کا انسان عادی ہو جاتا ہے ۔ نشے میں یہی ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ طلب بڑھتی جاتی ہے ۔ 
خدا تو ہمیں نظر نہیں آتا ۔ اس لیے یہ خوف نفس میں پیدا ہو جاتا ہے کہ کل کو مجھے رزق کہاں سے ملے گا ۔ کچھ لوگ ان چیزوں سے اوپر اٹھ جاتے ہیں ۔ انہیں یقینی طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ جس نے پیدا کیا اور جس نے اس زمین پر اتارا، رزق اس کے ذمے ہے ۔جن چیزوں کو میں نے اس زمین پر استعمال کرنا ہے ، انہیں کوئی بھی دوسرا استعمال نہیں کر سکے گا۔ وہ آنکھ سے خدا کو نہیں دیکھ سکتے لیکن علم کی بدولت وہ اسے جان لیتے ہیں ۔ اس کے بعد وہ پرندوں کی طرح بے فکر ہو جاتے ہیں ۔ 
جو لوگ ان سب چیزوں پر قابو پا لیتے ہیں ، وہ نمایاں و ممتاز ہو جاتے ہیں ۔ مخلوق کے دلوں میں ان کی محبت پیدا ہو جاتی ہے ۔ وہ متوکل ہو جاتے ہیں ۔ ان کی ضروریات اس طرح سے پوری ہونے لگتی ہیں کہ انسان حیرت زدہ ہی رہ جاتا ہے ۔ نفع میں ، نقصان میں ، خوشی میں ، غمی میں ، کامیابی میں ، ناکامی میں ، ہمیشہ ہر صورت میں ان کے جذبات اعتدال میں رہتے ہیں ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں