ہر شخص کی زندگی میں کچھ لوگ ہوتے ہیں، جن سے وہ متاثر ہوتا اور بہت کچھ سیکھتا ہے ۔ کتابیں انسان کو سکھاتی ہیں لیکن بعض اوقات استاد کا ایک جملہ کتابوں کے ایک پورے انبار پر بھاری ہوتا ہے ۔وہ آپ کی سمت درست کر دیتا ہے ۔خدا کی رضا شاملِ حال ہو، سمت درست اور انسان خوب محنت کرے تو پھروہ کامیابی کے راستے پہ چل پڑتا ہے ۔ میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہر شعبے کے ماہرین سے تعلق استواررکھا جائے۔ ماہرین (Experts)سے تبادلۂ خیال لکھنے والوں کے لیے تو بہت ضروری ہے لیکن ان کے لیے بھی جو اس دنیا کو سمجھنا چاہتے ہیں ۔ معیشت سے متعلق معاملات میں ، پیر مہر علی شاہ، ایرڈ ایگریکلچر یونیورسٹی کے شعبۂ معیشت کے سربراہ ڈاکٹر عبد الصبور کے مضامین سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے ۔میرے بزرگ رشتے داروں میں بعض ایسے لوگ ہیں ، جو ساری زندگی مطالعہ کرتے رہے ۔ ان میں نیویارک میں مقیم میرے چچا محمد امین مسلم اور لاہور میں سبکدوش زندگی گزارنے والے میاں محمد خالد سرِ فہرست ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں ، ساری زندگی جو دنیا کے بہت سے ممالک کا جائزہ لیتے رہے ۔ روزانہ کی بنیاد پر مطالعہ ان کی عادت تھی۔ اگر یہ باقاعدہ طور پر لکھنا شروع کرتے تو شاید بڑے بڑوں کو پیچھے چھوڑ دیتے ۔
سب ماہرین میں سے ماہرینِ دماغ اور نفسیات میرے پسندیدہ ہیں ۔ خدا کی ایک عظیم ترین تخلیق کائنات ہے اور دوسری انسانی دماغ ۔ استادِ محترم پروفیسر احمد رفیق اختر نے اپنے ایک لیکچر میں ان دونوں کی تصاویر میں مشابہت واضح کی تھی ۔ حیرت انگیز طور پرکائنات میں کہکشائوں اور انسانی دماغ میں خلیات کی تصویر بنائی جائے تو
یہ دونوں عظیم تخلیقات ایک ہی جیسی دکھائی دیتی ہیں ۔ لندن میں مقیم میرے عم زاد علی افضل کی شریکِ حیات بریرہ علی نے آٹزم(Autism)پرایک دلچسپ مضمون لکھا ہے ۔بریرہ علی نے نفسیات میں ماسٹرز کیا ہے ۔ آٹزم نوزائیدہ بچوں میں پایا جانے والی ایک دماغی بیماری (Disorder)ہے ۔ اس کا شکار ہونے والے بچّے صحت مند بچّو ں سے مختلف ہوتے ہیں ۔ یوں والدین اور بچّہ ایک ایسی صورتِ حال کا شکار ہوتے ہیں ، کم ہی لوگ جسے سمجھ سکتے ہیں ۔ آٹزم کے شکار بچّوں کی بات چیت کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے ۔ بعض ایک ہی عمل بار بار دہراتے رہتے ہیں ۔ پہلے دو برسوں میں اس بیماری کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں ۔ حمل کے دوران بعض اوقات ایسی انفیکشن جنم لیتی ہیں ، جو اس کا باعث بنتی ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ جنیات (Genetics)اور ماحول (environment)دونوں اس بیماری کے محرکات بنتے ہیں ۔ بعض اوقات دورانِ حمل ماں کی شراب نوشی بھی ۔ آٹزم میں ہوتا کیا ہے ؟ وہی جو سب دماغی بیماریوں میں ہوتا ہے ۔ کسی نہ کسی انداز میں دو دماغی خلیات میں پیغام رسانی متاثر ہوتی ہے ۔ یہی پیغام رسانی کائنات کا سب سے دلچسپ منظر ہے ۔ معذور بچّوں کے جتنے والدین سے میں ملاہوں ، ان میں میری خالہ زاد شمائلہ کو زندگی میں انتہائی حد تک مشکلات سے دوچار دیکھا لیکن صبر اور سکون میں ۔ راولپنڈی کے جہانگیر صاحب جیسی تو خیر کوئی مثال نہیں دیکھی ۔ ان کی ایک بیٹی فوت ہوئی،تین بیٹے ذہنی طور پر معذور ۔جہانگیر صاحب کو جب بھی دیکھا، مکمل طور پر پرسکون ، ہنستے مسکراتے اور مہمان نوازی میں مصروف۔
بریرہ لکھتی ہیں: آٹزم کی ایک دو علامات اکثر لوگوں میں پائی جاتی ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ آٹسٹک سپیکٹرم ڈس آرڈر کا شکار ہیں ۔ اس مرض کا لیبل اسی شخص پر لگایا جا سکتاہے ،جس میں آٹزم کی علامات شدید حد تک پائی جاتی ہیں ۔ ماہرِ نفسیات اور speech therapistدونوں مل کر ایک مخصوص طریقے سے روّیے ، سرگرمیوں اور دلچسپیوں کی تشخیص کے ذریعے سے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ بچّہ آٹسٹک (Autistic)ہے ۔ یہ ایک ایسا مرض ہے کہ جسے چند سطروں میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ آپ کے سوچنے کے انداز، بات کو سمجھنے کی صلاحیت ، روّیے ، سرگرمیاں ، دلچسپیاں ، بات کرنے کا انداز ، حواسِ خمسہ کو استعمال کرنے کا انداز ، جسمانی توازن ، سماجی و معاشرتی روابط ، سیکھنے کی صلاحیت (learning skills)، غرض یہ کہ پوری زندگی کو متاثر کرتا ہے ۔ اس موضوع پر معلومات فراہم کرنے کے ذریعے آگہی اور علم میں اضافہ اور نتیجتاً معاشرے میں برداشت بڑھانا ممکن ہے ۔ بریرہ لکھتی ہیں کہ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے اگر آپ کو معلوم ہو کہ آپ کی کار کے آگے کھڑا شخص اندھا ہے تو آپ اس سے جھگڑنے کی بجائے اس کی مدد کریں گے ۔ ہمارے ہاں ذہنی امراض پر توجہ نہیں دی جاتی ۔ اگر بدقسمتی سے کوئی بچہ ذہنی مرض جیسے کہ آٹزم، مرگی، دماغی فالج وغیرہ کے ساتھ پیدا ہوتو والدین یا تو کسی معجزے کا انتظار کرنے لگتے ہیں یا پھر پیروں‘ فقیروں اور تعویز گنڈوں کا رخ کرتے ہیں ۔بعض اوقات مریض کو ایک کمرے میں بند کر دیا جاتاہے ۔ اسے تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہے ۔ اسے زنجیروں سے باندھ دیا جاتا ہے ۔ بعض اوقات اس کی موت کا انتظار کیاجاتا ہے (یہ کہتے ہوئے کہ ہمارے مرنے سے پہلے اگر یہ نہ مرا تو پھر اس کا خیال کون رکھے گا؟ )
ذہنی مرض کے ساتھ جو پہلا لفظ ذہن میں آتا ہے ، وہ '' پاگل ‘‘ ہے ۔ جس کے آگے ایک فل سٹاپ لگا دیا جاتاہے کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس بچّے کی زندگی تو تنگ کر دی جاتی ہیے ۔ والدین کی زندگیاں بھی شدید حد تک متاثر ہوتی ہیں ۔ یہ روّیہ ایک پاگل پن کے سوا کچھ نہیں کہ ذہنی مرض کا شکار بچّہ کچھ نہیں سیکھ سکتا ۔ وہ بہت کچھ سیکھ سکتا ہے ۔ ہاں ، البتہ اس کے سیکھنے کا عمل سست ہوگا ، بہ نسبت اس کے ہم عمر بچّوں کے ۔ یہ عین ممکن ہے کہ آپ اسے ایک بوجھ بننے کی بجائے معاشرے کے لیے ایک مفید انسان بننا سکھائیں ۔ برطانیہ جیسے ممالک میں جہاں ایسے بچوں کی تعداد 100میں سے 1ہے ، وہاں شعور ہونے کی وجہ سے ایسے بچوں کو خلائی مخلوق (Alien)نہیں سمجھا جاتا بلکہ ان میں سے بہت سے پڑھتے لکھتے اور پھر نوکری بھی کرتے ہیں ۔ آٹزم کے بارے میں آگہی سے اضافے سے آپ ایسے بچّوں کی شناخت کر سکتے ہیں ۔ ان کی علامات یہ ہیں : بول چال اپنے ہم عمر بچوں کی نسبت بہت کم ہونا یا بالکل نہ ہونا ، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہ کرنا، دوسروں کی باتوں کو نہ سمجھنا، اپنا نام سن کر جواب نہ دینا وغیرہ شامل ہیں ۔ بعض اوقات زندگی میں کسی تبدیلی کے رونما ہونے پر یہ لوگ شدید ردّعمل دیتے ہیں ۔ ان چیزوں کو سمجھنے سے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔
سپین میں سکونت اختیار کرنے والے ایک پاکستانی نے کھاریاں میں ایسے بچّوں کے لیے ایک عظیم الشان ادارہ قائم کیا ہے ۔ اس ادارے کی تفصیل انشاء اللہ کبھی عرض کروں گا۔ امریکی ویب سائٹ ہفنگٹن پوسٹ Huffingtonpostنے 8ایسے لوگوں کی لسٹ شائع کی ہے ، جو آٹزم یا اس جیسے disorderکا شکار تھے لیکن جنہوں نے عظیم کامیابیاں حاصل کیں ۔ لارا نامی مضمون نگار کی فہرست میں 47سالہ شرمیلی سکاٹش خاتون سوسن پہلے نمبر پر ہیں ۔ انہوں نے ایک گانا گایا تھا : میں نے ایک خواب دیکھنے کا خواب دیکھا I Dreamed a dream"۔ بعد ازاںدنیا بھر میں اس کی 14کروڑکاپیاں فروخت ہوئیں ۔