"FBC" (space) message & send to 7575

اعتدال کس طرح پائیں ؟

کبھی جب انسان فرصت پائے اور بیٹھ کر ایک لمحے کے لیے یہ سوچے کہ زندگی کیا ہے اور کس تگ و دو میں وہ صرف ہو رہی ہے تو حیرت زدہ رہ جاتا ہے ۔انسان جب پیدا ہوتا ہے تو مکمل طور پر دوسروں کے ، اپنے والدین کے رحم و کرم پر ہوتا ہے ۔ دوسرے سب جانداروں کی نسبت انسانوں میں ماں باپ پر اس انحصار کا عرصہ بہت ہی طویل ہوتاہے ۔ چمپینزی اور بن مانس وغیرہ میں یہ وقت 6سال کے قریب ہے ۔ اس کے بعد بچّے اپنی زندگی خود گزارنے کے قابل ہو جاتے ہیں ۔ یہ زندگی خوراک حاصل کرنے کے گرد گھومتی ہے ۔ انسانی بچے کی زندگی اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے ۔ اسے تعلیم حاصل کرنی ہوتی ہے ۔ کسی نہ کسی ہنر میں ، کسی نہ کسی شعبے میں مہارت حاصل کرنا ہوتی ہے ۔ اس کے بعد ساری زندگی وہ دوسرے انسانوں کو اپنی خدمات مہیا کرتا ہے ۔ جس قدر بڑا وہ ماہر بنے گا ، اسی قدر اس کی عزت ، قدر اور اہمیت ہوگی ۔ اتنی ہی دولت اسے حاصل ہوگی ۔
یہ دولت کیا ہے ؟ یہ آپ کی قوتِ خرید ہے ۔ اگر آپ کے پاس پانچ ہزار پلاٹ ہیں تو ظاہر ہے کہ آپ پانچ ہزار پلاٹوں پر گھر بنا کر اس میں زندگی تو نہیں گزار سکتے لیکن اس سے آپ کی قوتِ خرید ظاہر ہوتی ہے ۔ آسان لفظوں میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کرئہ ارض پر پائے جانے والے کتنے وسائل کے آپ مالک ہیں ۔ 
جانور بیچارے تو خوراک بھی زیادہ عرصے تک ذخیرہ نہیں کر سکتے ۔ زیادہ سے زیادہ ایک ڈیڑھ سال کے لیے ۔ انسانوں نے ایسے آلات ایجاد کیے کہ خوراک سمیت دیگر وسائل کو وہ اپنے پاس ذخیرہ کر سکتا ہے ۔ انسان کی پوری زندگی ان وسائل میں اضافے کی کوشش کرتے ہوئے گزرتی ہے۔ زندگی کے پہلے پندرہ بیس برس وہ اپنے بڑوں کے سر پہ زندگی گزارتا ہے ۔اس کے بعد تیس چالیس برس وہ زیادہ سے زیادہ وسائل حاصل کرنے کی تگ و دو میں زندگی بسر کرتا ہے ۔ انسانی خواہشات اس طرح سے پیدا کی گئی ہیں کہ کبھی بھی ان میں مکمل تسکین کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا بلکہ حدیث کے مطابق جس کے پاس ایک سونے کی وادی ہو‘ وہ دوسری وادی حاصل کرنے کی کوشش کرے گا ۔ جس کے پاس دووادیاں ہوں ، وہ تیسری کی خواہش کرے گا ۔انسانی زندگی کے آخری بیس پچیس برس اور بالخصوص آخری دو تین سال بیچارگی کا مظہر ہوتے ہیں۔ ایک بار پھر وہ دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتاہے ۔ میرے خاندان میں کچھ ایسے بزرگ گزرے ہیں ، جنہوں نے 90برس کے قریب عمر پائی ۔ انہوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری ۔ شادیاں کیں ، کاروبار کیے ۔ ساری زندگی تہجد پڑھتے رہے ۔ ان کے پوتے پوتیوں ، نواسے نواسیوں کی تعداد 100کے قریب پہنچ چکی تھی ۔مرتے دم تک خاندان میں انہیں بھرپور عزت و احترام حاصل تھا۔ اس کے باوجود جب آپ آخری دو تین برسوں کو دیکھتے ہیں تو بیچارگی (Misery) کالفظ ہی ذہن میں ابھرتا ہے ۔ اس وقت زندگی کی سب سے بڑی کامیابی یہ نظر آتی ہے کہ انسان اپنے قدموں پر چل کر رفع ٔحاجت کر سکے ۔اپنے ہاتھوں سے کھا لے۔ اسے دوسروں کی بات سمجھ میں آجائے اور وہ ان کا ایسا جواب دے سکے جسے عقل قبول کرتی ہو ۔ وہ کسی قسم کی کاروباری سرگرمیوں کے قابل نہیں رہتے ۔ 
جانوروں کے برعکس انسانوں میں برتری کی ایک اور جہت (Dimension)بھی ہے اور وہ روحانی ہے ۔ جو روحانی طور پر زیادہ طاقتور ہے ، جس کا خدا کے ساتھ زیادہ تعلق ہے ، وہ دوسروں سے برتر ہے ۔ لوگ اسے جھک کر ملتے ہیں اور وہ کسی کے سامنے نہیں جھکتا۔ انسانی ذہن میں بنیادی طور پر خوف کا جذبہ ہی غالب ہوتا ہے ۔ انسان روحانی قوتوں کا دعویٰ کرنے والوں سے ڈر جاتا ہے کہ کہیں اسے کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔ یہی وجہ ہے کہ بالخصوص موجودہ زمانے میں مذہبی اور روحانی شخصیت بننا دوسرے شعبوں کی طرح ایک شعبہ بن گیا ہے ۔ آج کل کیا، ہمیشہ سے مذہب کے نام پر چالاک لوگ دوسروں کا استحصال کرتے آئے ہیں ۔ البتہ جب آپ شیخ عبد القادر جیلانیؒ ، جنیدِ بغدادؒ اورحضرت علی بن عثمان ہجویریؒ جیسے بڑے استادوں کو دیکھتے ہیں تو آپ کو وہاں کسی قسم کا کوئی دعویٰ نظر ہی نہیں آئے گا ۔ مجھ جیسا بندہ بھی جب مذہب پر لکھنے لگتا ہے تو ایک زعمِ تقویٰ پیدا ہونے لگتا ہے ۔ استاد کے الفاظ میں انسان کی عاجزی بھی تکبر بن جاتی ہے ۔ 
جب انسان یہ دیکھتا ہے کہ بیماری ، بڑھاپے اور موت کی صورت میں میرا انجام اس قدر بھیانک ہے تو پھر ایک لمحے کے لیے رک کر یہ سوچنے لگتا ہے کہ مجھ میں اوردوسرے جانوروں میں کیا فرق ہے ؟ آخر میں تو دونوں ایک ہی طرح سے بوڑھے اور بیمار ہو کر مر رہے ہیں۔ پھرجس تگ و دو میں ،میں زندگی بسر کر رہا ہوں ، کیا وہ درست ہے ؟ اگر ہم اس قابل ہو سکیں کہ ہوا میں اڑتے ہوئے خلا میں جا سکیں اور وہاں سے زمین کو ایک نیلے گول دائرے کی صورت میں اپنے سامنے دیکھ سکیں تو انسان حیرت سے سوچنے لگے کہ یہ ہے وہ زمین، جس کے ایک ناقابلِ بیان حد تک چھوٹے ٹکڑے کی خاطر میں قتل ہوتا ہوں ۔ آپ پلٹ کر دوسرے سیاروں ، دوسری زمینوں ، دوسرے چاندوں کو دیکھیں تو حیرت میں اضافہ ہو تا چلا جاتا ہے ۔ کھرب ہا کھرب ٹریلین ایکڑ زمین ایک ایک سیارے پر اور ایک ایک چاند پر بے کار پڑی ہے ۔ مٹی موجود ہے ، زمین کے نیچے کوئلے، تیل، لوہے جیسے ذخائر موجود ہیں ، نکالنے والا کوئی نہیں ۔ مٹی سے اینٹیں بنانے والا کوئی نہیں ۔ پتھر پیس کر سیمنٹ بنانے والا کوئی نہیں ۔ پھر انسان یہ سوچنے لگتا ہے کہ جس قدر شدیدملکیت (Possessiveness)کے ساتھ وہ وسائل پر قبضے کی جنگ لڑتا ہے ، آخر وہ اس کے کس کام آتے ہیں ؟ 
اس سب کا مطلب یہ نہیں کہ انسان وسائل میں اضافے کی کوشش نہ کرے ۔ ظاہر ہے کہ زندگی سہولت سے تبھی گزر سکتی ہے ، جب کچھ وسائل انسان کے ہاتھ میں ہوں ۔ ان وسائل میں اضافے کے لیے انسان کو کوشش کرنی چاہیے تاکہ وہ لینے والوں کی بجائے ایک نہ ایک دن دینے والوں میں شامل ہو جائے لیکن اعتدال چاہیے ۔ جوانی میں ، جب ہم خوب طاقتور ہوتے ہیں ، جب ہماری دماغی صلاحیتیں بھی اپنے عروج پر ہوتی ہیں ، تب اپنے خالق کو پہچاننے کی کوشش،عقل کو استعمال کرنے کی کوشش،انسانی دماغ کو سمجھنے کی کوشش،کرّۂ ارض پہ زندگی کو سمجھنے کی کوشش ۔ پھر یہ کہ انسان کو اپنی تمام تر قوت صرف وسائل /دولت کمانے پر ہی صرف نہیں کر دینی چاہیے بلکہ اچھی اور صحت مند خوراک ، روزانہ کی بنیاد پر کچھ نہ کچھ ورزش /جسمانی سرگرمیاں ، کچھ نہ کچھ وقت خدا کی یاد ، کچھ نہ کچھ وقت علم حاصل کرنے کی کوشش یعنی مطالعہ اور غور و فکر ۔ ان سب چیزوں کا اگر ایک متوازن مجموعہ انسان حاصل کر سکے تو زمین پر اس کا وقت بہت اچھی طرح سے بسر ہو جائے گا ۔ اگر وہ اس طرح کی زندگی بسر کر رہا ہو ،جس میں ان میں سے ایک بھی چیز سے مکمل طور پر محروم ہو تو پھر زندگی معتدل نہیں رہتی ۔ رہی خدا کی یاد تو ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی کی بنیاد ہی انسان کے خد ا سے تعلق پر ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں