"FBC" (space) message & send to 7575

کیفیات کو ملتوی کیجیے

کرّۂ ارض کو بدل دینے والی، کائنات کی سب سے پیچیدہ مشین، انسانی ذہن کس طرح سے فیصلہ صادر کرتا ہے؟ یہ بہت دلچسپ ہے۔ ہر طرح کی مختلف صورتِ حال میں‘ ہر وقت انسانی ذہن کو فیصلے صادر کرنا ہوتے ہیں۔ خواہ آپ پیدل چل رہے ہوں، گاڑی چلاتے ہوں یا حتیٰ کہ فارغ بیٹھے ہوں۔ فارغ بیٹھے رہنے کے احکامات بھی مسلسل جاری ہوتے ہیں۔ لاشعوری طور پر دماغ ہر وقت ڈیٹا اکٹھا کرتا رہتا ہے۔ یہ ڈیٹا پانچ حسیات کے ذریعے، ناک، کان ، جلد، زبان اور آنکھوں کے ذریعے دماغ تک منتقل ہوتا رہتا ہے۔ اس کے بعد دماغ اس ڈیٹا کا تجزیہ کرتا ہے۔ خدا کی طرف سے دماغ کی تشکیل اس طرح سے کی گئی ہے کہ اس ڈیٹا کا جائزہ لینے پر اس میں مثبت اور منفی، ہر قسم کے جذبات پیدا ہو سکتے ہیں جو کہ ڈیٹا کی نوعیت پر منحصر ہوتے ہیں۔ مثلاً اگر آپ دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ ایک لڑکے کو مار رہے ہیں تو دماغ میں ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ اگر آپ یہ دیکھتے ہیں کہ کوئی آپ سے بڑی اور قیمتی گاڑی میں تیز رفتاری سے آپ کے قریب سے گزرتا ہے، جبکہ آپ اپنی کھٹارا گاڑی میں رینگ رہے ہیں تو حسد کا جذبہ پیدا ہوگا۔ اس کے بعد دماغ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اس مخصوص صورتِ حال میں اسے مداخلت کرنی چاہئیے یا نہیں۔ جب وہ ایک بے گناہ کو سرِ عام پٹتے دیکھتا ہے تو اس میں ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ مارنے والوں کے خلاف غصے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اس کے باوجود سب سے بنیادی جذبہ ان تمام جذبات پہ غالب آ جاتا ہے اور وہ جذبہ ہے اپنی جان کا خوف۔ انسان اور تمام جاندار اپنی زندگی کی حفاظت کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے سب جانداروں میں اپنی جان کا خوف رکھا گیا ہے۔ اس دوران عقل بھی input دیتی ہے کہ کیا کرنا چاہیے۔ یہ ساری فیصلہ سازی چند لمحات میں مکمل ہو جاتی ہے۔ 
سب جذبات، سارے احساسات ایک دماغی خلیے (neuron) سے دوسرے دماغی خلیے تک کرنٹ کی شکل میں سفر کرتے ہیں۔ یہ کرنٹ اسی طرح سے سفر کرتا ہے جیسے بجلی کے تار میں بجلی دوڑتی ہے۔ پورے انسانی و حیوانی جسم میں‘ ہر کہیں تاروں کے گچھے موجود ہیں۔ انہیں nerves کہتے ہیں۔ ان کے ذریعے پورے جسم، آنکھ، ناک، کان، جلد اور زبان سے ڈیٹا‘ بالکل کرنٹ کی شکل میں ریڑھ کی ہڈی اور اس سے پھر دماغ تک سفر کرتا ہے۔ پھر مناسب حرکت کرنے کا حکم دماغ سے مختلف اعضا تک کرنٹ ہی کی شکل میں پہنچتا ہے۔
پانچ حسیات سے ملنے والا ڈیٹا بہت دلچسپ ہوتا ہے۔ ایک حسین چہرہ دیکھنے پر دماغ کسمسا جاتا ہے۔ اس کے بعد نفس انسان کو اس بات پر اکساتا ہے کہ وہ اس کی طرف پیش قدمی کرے۔ اچانک عقل ان پٹ دیتی ہے، نقصان کا احتمال ہے‘ دور رہو! یہ کشش جان بوجھ کر رکھی گئی ہے تاکہ انسان کو ایک امتحان میں سے گزارا جائے۔ یہ عقل اور نفس کیا ہیں؟ یہ دماغ ہی ہیں۔ دماغ ہی عقل ہے اور دماغ ہی نفس ہے۔ یہ کشمکش خدا کی طرف سے رکھی گئی ہے۔ انسان کو دو چیزوں میں سے ایک کو منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ ان دو میں سے وہ کس کا انتخاب کرتا ہے، صرف یہ دیکھنے کے لیے‘ رنگ و بو کی یہ پوری کائنات تشکیل دی گئی ہے۔ پھر عقل اور نفس کی ایک انتہائی خوفناک جنگ شروع ہوتی ہے۔ یہ جنگ اس قدر بھیانک ہوتی ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے طاقتور ترین لوگ اس میں ہار جاتے ہیں۔ جیسا کہ اپنے وقت میں دنیا کے سب سے بااختیار شخص امریکی صدر بل کلنٹن اور جنرل ڈیوڈ پیٹریاس۔ میرے، آپ کے جیسے تو کسی قطار شمار ہی میں نہیں۔
طویل عرصے تک اس کشمکش سے گزرنے کے بعد عقل اور نفس میں سے ایک مستقل طور پر غالب ہو جاتا ہے۔ پھر سارے فیصلے اسی غلبے کے تحت صادر ہوتے ہیں۔ ہر نئی صورتِ حال میں دماغ سوچنے کی بھی کوشش نہیں کرتا بلکہ جو جذبہ غالب ہے، اسی کے تحت خودکار طور پر فیصلے صادر کرتا رہتا ہے؛ اگرچہ عقل اور نفس میں سے ہارنے والا مداخلت کی کوشش جاری رکھتا ہے۔ذہن ہر وقت کسی نہ کسی کیفیت کے زیرِ اثر ہوتا ہے۔ یہ کیفیات ہماری فیصلہ سازی کو بری طرح متاثر کرتی ہیں۔ کئی بار آپ نے دیکھا ہوگا کہ کسی شخص نے آپ کو اپنی تکلیف بتائی۔ آپ کے دل میں اس کے لیے ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوا۔ آپ نے مدد کا وعدہ کیا۔ بعد میں جب آپ اس شخص سے دور چلے گئے اور وہ کیفیت ختم ہوئی تو مدد کرنے کا جذبہ بھی آہستہ آہستہ ختم ہوتا جاتا ہے اور انسان کو اپنا وعدہ مصیبت لگنے لگتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ دماغ پر غالب کیفیت ختم ہو جاتی ہے یا کسی اور کیفیت سے تبدیل ہو جاتی ہے۔
غصے کی کیفیت بہت خوفناک ہوتی ہے۔ چند منٹ کا غصہ دماغ کو بالکل شل کر دیتا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک ہی انسان غصے کی کیفیت میں اور عام کیفیت میں بالکل مختلف فیصلے صادر کرتا ہے۔ غصے میں جتنی دیر دماغ ساتھ رہتا ہے، وہ کسی دوسرے کو نقصان پہنچانے سے گریز کرتا ہے مگر جب غصہ غالب آ جاتا ہے تو وہ دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں خود کو نقصان پہنچا لیتا ہے۔ وہ قتل تک کر دیتا ہے؛ حالانکہ اسے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ قتل کی سزا پھانسی ہے۔ اشتعال جب ختم ہوتا ہے تو پھر انسان خود حیران رہ جاتا ہے کہ وہ کیا کیا انتہائی اقدامات کر چکا ہے۔ غصہ سب کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے لیکن جو لوگ فیصلہ سازی (Decision Making) کا رجحان رکھتے ہیں، ان کا غصہ زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے۔ وہ کوئی نہ کوئی ایسا فیصلہ کر جاتے ہیں، جو ان کی باقی پوری زندگی کو متاثر کرتا رہتا ہے۔ مثلاً طلاق دینا، قتل کر دینا، کاروباری تعلقات منقطع کر دینا وغیرہ۔ 
جو لوگ زیادہ کامیاب ہوتے ہیں، ان میں غیر معمولی اعتماد پیدا ہو جاتا ہے۔ ہمیشہ ہر صورتِ حال میں وہ Dominate کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں دوسرے لوگوں سے ان کی کشمکش شروع ہو جاتی ہے جو ایک دیر پا دشمنی میں بدل سکتی ہے۔ زیادہ کامیاب لوگوں میں غلبے کی یہ خواہش زیادہ غالب ہو جاتی ہے۔ اس دوران وہ دوسروں پر غلبے کی اور ہر قابلِ ذکر شخص پر غلبے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسے نیچا دکھانے کی تاکہ اپنی غلبے کی جبلت کو تسکین دی جا سکے۔ اکثر لوگ ویسے ہی ان کے سامنے بچھ جاتے ہیں۔نفس انسان کو برائی ہی پر اکساتا ہے۔ علمی اور عقلی طور پر بندہ جتنا زیادہ باخبر ہو تا ہے، اتنا اس کے خواہش پر غالب آ جانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ حضرت علی بن عثمان ہجویریؒ اور شیخ عبد القادر جیلانیؒ جیسے صوفیوں سے تعلیم حاصل کرنے والے جانتے ہیں کہ کیفیات کے جادو سے کس طرح نمٹنا ہے۔ غصے، خوف اور دیگر کیفیات کے تحت وہ فیصلہ سازی کرتے ہی نہیں بلکہ ان کے ٹل جانے کا انتظار کرتے ہیں۔ وہ صرف مثبت جذبے کے سامنے سرنگوں ہوتے ہیں۔ منفی کے سامنے وہ ڈٹ جاتے ہیں۔ یوں وہ سوچ سمجھ کر وہی اقدام اٹھاتے ہیں، جو انہیں عافیت کے دائرے سے باہر نکلنے نہیں دیتا۔ صحیح معنوں میں یہی لوگ آزاد ہیں۔ اپنے اپنے پیشے میں آخری حد تک کامیاب ہونے کے باوجود دوسرے غلام ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں