"FBC" (space) message & send to 7575

رکی ہو ئی عقل

وہ جس چیز سے کھیل رہی تھی ، وہ ٹافیوں کے پیکٹ کا خالی کاغذ تھا ۔ ایک چمکدار کاغذ، جس پر گہرے رنگوں سے کچھ چھپا ہوا تھا۔ سات ماہ کی میری بیٹی مشیہ کو وہ بہت اچھا لگ رہا تھا ۔ جب وہ اسے اپنے ہاتھوں میں مسلتی تو اس سے کھڑکھڑاہٹ کی آواز پیدا ہوتی۔ یہ آواز بھی اسے اچھی لگ رہی تھی ۔ اگر یہ بے وقعت کاغذاس سے لے لیا جاتا تو وہ روپڑتی ۔ میں سوچتا رہا ، مسکراتا رہا۔ اس نے پوچھا، آپ کیوں مسکرا ئے بابا۔ میں نے کہا، میری بیٹی کاش تمہیں معلوم ہوتاکہ یہ کاغذ کس قدر بے کار چیز ہے ۔ اس کا سنہرا رنگ، اس سے پیدا ہونے والی کھڑکھڑاہٹ تمہیں بے حد اچھی لگ رہی ہے ؛حالانکہ ایک دن ایسا آئے گا ، جب یہ تم ایسے کاغذ کو زمین پہ پڑا دیکھو گی تو اٹھائو گی نہیں ۔ فی الحال تمہاری اس میں دلچسپی کی وجہ یہ ہے کہ تمہاری عقل بہت ننھی منی سی ہے ، جب یہ بڑی ہوجائے گی ، تو تمہارا روّیہ بدل جائے گا ۔ 
مشیہ نے کہا،بابا ،کیا وقت کے ساتھ تمہارا روّیہ بھی بدل جائے گا؟ جو چمکدار ، سنہری چیزیں تمہیں اچھی لگتی ہیں ، کیا ایک دن تمہیں بھی ان پر حیرت اور افسوس ہوگا۔ میں نے کہا ، نہیں ، میری عقل پہلے ہی پختہ ہو چکی ہے ۔ میں جن چیزوں میں دلچسپی لیتا ہوں ، وہ واقعی اس قابل ہیں کہ ان میں دل لگایا جائے ۔ مشیہ نے کہا،اس وقت تو مجھے بھی ایسا ہی لگ رہا ہے کہ یہ کاغذ واقعی دلچسپی لیے جانے کے قابل ہے ۔ فرض کرو،جیسے میری عقل ایک جگہ رکی ہوئی ہے ، ویسے ہی تمہاری عقل بھی ایک جگہ رکی ہوئی ہو۔ ایک دن ایسا آئے گا، جب تم اس دنیا سے رخصت ہوگے۔ اس وقت تمہیں لگے گا کہ زمینوں کی خرید و فروخت، گاڑیاں ، جائیدادیں اور اس دنیا کی جتنی بھی خوبصورت ، چمکتی ہوئی چیزیں ہیں ، وہ تو بے کار تھیں ۔ وہ تو سجائی گئی چیزیں تھیں ، جیسے کہ یہ کاغذ میرے لیے سجائی گئی چیز ہے ۔ 
مجھے توقع نہ تھی کہ وہ اس قدر عقلمندی کی بات کرے گی ۔ مجھے اپنی پانچ سالہ بھتیجی عیشا یاد آئی ۔ وہ لاہور میں کسی مزار پہ گئی تھی ۔ جب واپس آئی تو کہنے لگی کہ کسی بیچارے نیک آدمی کی قبر پر ہم گئے تھے ۔ میں نے پوچھا ، تم اسے بیچارا کیوں کہہ رہی ہو۔ کہنے لگی ، اس لیے کہ وہ مر گیا تھا ۔تفصیل معلوم کی تو پتہ چلا، جسے وہ بیچارا کہہ رہی تھی ، وہ حضرت داتا گنج بخشؒ تھے۔میں سکتے میں بیٹھا رہ گیا۔ میں نے عیشا کو بتایا کہ مر تو سب نے ہی جانا ہے۔ حضرت داتا گنج بخشؒ تو بہت بڑے استاد ہیں ۔بیچارے تو ہم ہیں لیکن پھر میں نے عیشا کے تاثرات دیکھے اور خاموش ہو گیا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ کسی صورت اسے یقین نہیں آسکتا کہ جو مرچکا وہ بیچارا نہیں اور جو زندہ ہیں ، وہ بیچارے ہیں ۔ اس کی عقل ابھی ناقص تھی۔ اسے میری بات سمجھ نہیں آسکتی تھی ۔ ہاں ، شاید دس برس بعد اسے میری بات سمجھ آسکے۔ ہو سکتاہے کہ ہم سب حضرات کو ، اپنے تئیں جو صاحبانِ عقل و دانش ہیں ، کچھ باتوں کی سمجھ نہ آرہی ہو ۔ ہو سکتاہے کہ ہماری عقل بھی ناقص ہی ہو لیکن اس وقت ہمیں اس بات کا علم نہ ہو ۔ آخر مشیہ کو بھی تو پورا یقین ہے کہ رنگین کاغذ بہت اچھی چیز ہے ۔ آخر وہ بھی تو اس کے چھن جانے پر روتی ہے ۔ 
میں سوچتا رہا۔ اس دن جب ہم مشیہ کی ویکسی نیشن کے لیے اسے انجکشن لگوانے گئے تو وہ کتنا روئی۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں اسے تکلیف کیوں پہنچا رہا ہوں ۔ میں نے اسے کہا کہ یہ تھوڑی سی تکلیف بعد میں بہت بڑی تکلیفوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے ۔ مجھ سے بڑھ کر اس کا خیر خواہ اور کوئی نہیں ہو سکتا لیکن یہ تکلیف اٹھانا لازم ہے ۔ اس سے بیماریوں کے خلاف وہ سخت جان ہو جائے گی ۔میں نے کہاکہ اسے صبر کرنا چاہیے۔ اس نے کہا ، جب خدا کی طرف سے تکلیف دہ حالات سامنے آتے ہیں تو ہو سکتاہے کہ ان میں آپ کے لیے کوئی بہتری ہو۔ خدا سے بڑھ کر انسان کا خیر خواہ اور کون ہوسکتا ہے ۔ ہو سکتاہے کہ یہ تکلیف برداشت کرنے سے ہی آپ کو وہ سخت جان بنانا چاہتا ہو ۔ پھر زندگی میں آزمائشوں کا جو سوالیہ پرچہ ہمیں دیا گیا ہے ، اس میں تکلیف پر صبر اور حکمت سے ردّعمل پر ہی تو ہمیں نمبر ملنا ہیں۔ تکلیف اگر نہ ہوتی تو پھر آزمائش کیسی ؟ تکلیف اگر نہ ہوتی تو یہ دنیا جنت نہ بن جاتی ؟ اس کے باوجود جب ایسے تکلیف دہ حالات پیش آتے ہیں تو آپ صبر کیوں نہیں کرتے ؟ کیا آپ بھی ایک چھوٹے سے بچّے ہیں ، جو ہر قیمت پرخوب ہنگامہ اور شور مچا کر حالات کے انجکشن سے بچنا چاہتاہے ؟ 
اس کی باتوں میں وزن تھا ۔اکثر ایسا ہی ہوتاہے کہ ہمارے بچّے ایک چیز کے لیے ضد کر رہے ہوتے ہیں ۔ ہم انہیں رونے دیتے ہیں ۔ اس لیے کہ بچّے کو تو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ وہ چیز اس کے لیے نقصان دہ ہے ۔ہمیں اچھی طرح معلوم ہوتاہے لیکن یہ ساتھ ہی ساتھ یہ اندازہ بھی ہوتاہے کہ بچّے کو یہ بات سمجھ نہیں آسکتی۔ اس لیے خاموشی ہی بہتر ہوتی ہے ۔
ایک لمحے کے لیے سوچیں ، ہو سکتاہے کہ ہم سب کی عقل بھی رکی ہوئی ہو، ناقص ہو ۔ہم سب جو اپنا اپنا نقطہ ء نظر معاشرے پر تھوپ دینا چاہتے ہیں ۔ ہم سب ، جو ایک دوسرے کی تضحیک کر کے قہقہوں سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں۔ ہم سب ، جو یہ چاہتے ہیں کہ محفلوں میں ہماری باتوں پر لوگ ہنسیں اور دوسروں پر ہی ہنسیں ۔ ہم سب جو ، اپنی تذلیل پر انتقام کی خواہش میں زندگی بسر کرتے ہیں ۔
جب انسان کسی مشکل صورتِ حال سے دوچار ہو تاہے تو اس وقت اس کی نفسیات بدل جاتی ہے ۔ بعد میں اسے احساس ہوتاہے کہ اگر میں خاموشی اختیار کر لیتااور چپ چاپ اس جگہ سے چلا آتا تو بہتر تھا۔ جب وقت گزر جاتا ہے ، تعصبات کی گرد بیٹھ جاتی ہے ، اس کے بعد انسان ایک بہتر رائے دینے کے قابل ہوتاہے ۔ تو جب ہم اس دنیا سے چلے جائیں گے، جب روح مٹی کے اس بدن سے نکل جائے گی ، اس کے بعد انسان سوچے گا کہ میں نے کیا کیا ؟ 
میں نے یہ نوٹ کیا ہے کہ ہمارے اکثر ردّعمل وقتی جذبات کے تحت دئیے جاتے ہیں ۔اُس وقت ہم کسی نہ کسی خاص جذبے کے تحت ردّعمل ظاہر کرتے ہیں ۔ جب وقت گزر جاتا ہے اور یہ جذبہ ختم ہو جاتا ہے ، اس کے بعد انسان کواپنا ردّعمل بچگانہ لگتا ہے ۔ یہ جذبہ وقت کے ساتھ ختم ہونا ہی ہوتاہے ۔ اس کے بعد انسان اپنے طرزِ عمل پر سوچتا ہے ۔ اسے احساس ہو تا ہے کہ اس سے غلطی ہو ئی۔ پھر اکثر وہ اپنے روّیے پر معافی بھی مانگ لیتا ہے ۔ سرکارؐ سے زیادہ کون جانتا تھا کہ انسانی جذبات کس طرح اس کے ردّعمل کو تشکیل دیتے ہیں اور کس طرح ان کے گزر جانے کا انتظار کرنا چاہئیے۔ رسالت مآبؐ ہمیشہ وہ اعلیٰ ترین طرزِ عمل اختیا رکرتے، جووقتی نہیں بلکہ دیرپا حکمتِ عملی پر مبنی ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ دشمن بالآخر نادم ہوتااور معافی مانگتا ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں