گزشتہ بیس برس میں دنیا ہماری آنکھوں کے سامنے اس قدر تیزی سے بدلی ہے کہ آج یہ سب کچھ بہت عجیب لگتا ہے ۔میں چھٹی ساتویں جماعت میں تھا، جب موبائل فون پہلی بار نظر آنا شروع ہوئے ۔ اس وقت یہ صرف رئیسوں کے پاس ہوا کرتے تھے ۔ ہم لوگ کالج میں پہنچ چکے تھے، جب پہلی بار ہمارے ہاتھوں نے اس عجوبے کو چھوا۔اسے سمجھنے میں ہمیں کچھ وقت لگا۔ آہستہ آہستہ نہ صرف یہ عام ہوتے چلے گئے بلکہ ان کی قیمت گرتی چلی گئی ۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ پانچویں چھٹی کے طالبِ علم سے اَسّی سالہ بزرگ تک ہر ایک موبائل فون اور سوشل میڈیا استعمال کر رہا ہے ۔ یوں انسانی تاریخ میں پہلی بار ایک انوکھی صورتِ حال پیدا ہوئی ہے ۔ کرّئہ ا رض پہ خشکی کے مختلف ٹکڑوں پر زندگی گزارنے والے انسان پہلی بار ایک دوسرے سے مسلسل رابطے میں رہنے لگے۔ایک دن یہ نوبت بھی آئی کہ جن بچّوں کے ساتھ بیس پچیس برس پہلے ہم سکول میں پڑھا کرتے تھے، ان سے بھی رابطہ بحال ہو گیا۔
ایک دوسرے کے ساتھ بہت زیادہ رابطے میں رہنا،Connectedہونا صورتِ حال کا ایک روشن رخ تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت سی منفی چیزیں بھی جڑی تھیں ۔ انسانی نفس میں ایک دوسروں سے برتر و اعلیٰ نظر آنے کی خواہش چھپی ہوتی ہے ۔ ایک تقریب میں ، اگر سب کی نظریں آپ پر جمی ہوں ، آپ کے ایک جملے پر پورا ہال قہقہوں سے گونج اٹھے، آپ کے غمناک الفاظ پر اگر سسکیاں بلند ہوں تو انسان کو اس قدر لطف ملتا ہے کہ جو ان چیزوں سے نہ گزرا ہو، وہ ان کا ادراک نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ وعظ کرتے ہیں ، سیاسی تقریریں کرتے ہیں ، ان کی نفسیات بالکل بدل کر رہ جاتی ہے ۔ ان میں سے کئی حقیقت کی دنیا سے نکل کر اپنے ایک خاص محدود سے ہجوم کی کیفیات میں زندگی گزارنے لگتے ہیں ۔ بڑے لوگوں کے ساتھ یہ بہت عام سا مسئلہ ہے ۔ ان کے گرد خوشامدی گھیرا ڈال لیتے ہیں ۔ اس کی ہر بات پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے لگتے ہیں ۔ وہ بیچارہ حقیقت کی دنیا سے کٹ کر رہ جاتا ہے ۔ اس کی غلطی پر کوئی ٹوکنے والا نہیں ہوتا۔ یوں ایک دن وہ اس قدر بڑی حماقت کر جاتا ہے جو کہ تباہی پر منتج ہوتی ہے ۔
تو انسان چاہتاہے کہ اس کی بات پر لوگ ہنسیںلیکن اگر بات کرنے والا مرد ہے اور ہجوم خوبصورت خواتین کا ہے تو یہ خواہش اور بھی زیادہ گہری ہو جاتی ہے ۔ اس میں حبِ جاہ کے ساتھ مخالف جنس کی کشش کی جبلت تعامل (Interact)کر جاتی ہے ۔ ایسے میں انسان کوئی بھی حرکت کر سکتاہے ۔ اس کی سب سے بڑی مثال وہ لڑکے ہیں ، جو اگلا پہیہ اٹھا کر موٹر سائیکل چلاتے ہیں ۔ یہ جبلتیں مل کر اس کی جان کی حفاظت کرنے کی سب سے بڑی جبلت پر بھی غالب آجاتی ہیں ۔ کیا آپ جانتے ہیں ، سوشل میڈیا کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے ؟ وہاں یہی کچھ ہو رہا ہے ۔ سب اپنے دماغ کا اگلا پہیہ اٹھا کر اسے چلا رہے ہیں ۔ اس میں طنز اور تضحیک ایک بنیادی ہتھیار ہے ۔طنز اور تذلیل سے کبھی کسی کی اصلاح نہیں ہو سکتی ۔ دشمن پر تو اس کا استعمال پھر بھی سمجھ میں آتا ہے کہ اسے زخم لگانا مقصود ہوتاہے لیکن دوست احباب پر بھی اس کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے ۔
ایک اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ انسان جب دوسروں سے ملتا ہے تو غلبے کی اپنی جبلت کو تسکین دینے کے لیے خود کو 'کھڑپینچ ‘ اور 'ڈنگا ‘ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ یہ روّیہ عام زندگی میں بھی نظر آتا ہے اور سوشل میڈیا پہ تو بہت عام ہے ۔ لوگ خود کو دوسروں سے منفرداور تیز ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس کوشش میں وہ ایسی حرکتیں کرتے ہیں ، ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں ، جو انہیں زیب نہیں دیتے ۔بیچارے بہت سارے معصوم اور سادہ لوگ بھی چالاک نظر آنے اور غالب ثابت ہونے کے لیے اس قسم کا اظہارِ خیال کرتے ہیں ، جو ان کی شخصیت سے لگا نہیں کھاتا ۔ خود کو منفرد اور ٹیڑھا ثابت کرنے کی کوشش میں ، وہ اخلاق سے گری ہوئی باتیں کرتے ہیں ۔سکیورٹی فورسز پر طنز کرتے ہیں، نو گیارہ کے بعد جنہوں نے پاکستان کو ٹوٹنے سے بچایا ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب آپریشن ردّ الفساد کا اعلان ہوا تھا‘ ایک مذہبی سیاسی جماعت کے سرگرم کارکن نے یہ سٹیٹس لگایا'' ہر نیا آپریشن پرانے آپریشن کی ناکامی کا اعلان ہوتا ہے ‘‘۔ سوال کیا، فرض کیجیے کہ پچھلا یعنی شمالی وزیرستان آپریشن ناکام ہو گیا (جو کہ ہرگز نہیں ہوا)، تب بھی آپ کو اس کی اتنی خوشی کیوں ہے ؟ آپ کی ہمدردی کس کے ساتھ ہے ؟ ریاست اور اس کی مسلّح افواج کے ساتھ یا دہشت گردوں کے ساتھ ؟
سوشل میڈیا اور عام زندگی میں بھی ایک دلچسپ انکشاف یہ ہوا کہ جب آپ کی شخصیت لوگوں کو بہت سادہ لگے تو لوگ آپ کو مغلوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اصل میں انسانی دماغ ایک بہت خوفناک مشین ہے ۔ یہ زندگی میں ملنے والے ہر شخص کے بارے میں اندازے قائم کرتی ہے ۔ یہ سادہ ہے یا چالاک، پڑھا لکھا ہے یا ان پڑھ، تیز ڈرائیونگ کرتا ہے یا آہستہ ، غصہ ور ہے یا نرم مزاج، کنگال ہے یا امیر ، پھر لا شعوری طور پر اپنے اندازوں کے مطابق وہ اس سے ڈیل کرتا ہے ۔ ایسے افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ، جنہیں دوسروں کی خصوصیات میں دلچسپی نہیں ہوتی ۔اگر کوئی شخص دیکھنے میں معصوم، مسکین ، سادہ ، شکل و صورت یا لباس کے اعتبار سے کمتر لگے تو وہ اس پر غلبہ پانے کی ، اسے Dominateکرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ یہ عمل بہت خطرناک ثابت ہو سکتاہے ۔ اس لیے کہ بعض لوگ چھپے رستم ہوتے ہیں ۔ وہ پھر پنگے باز حضرات کا ٹھیک علاج کرتے ہیں ۔
انسان میں ایک اور دلچسپ عادت ہے کہ لاشعوری طور پر وہ دوسروں پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے کہ جو کچھ وہ سوچتا ہے ، اس کا طرزِ فکر ، اس کا طرزِ عمل ، درست ہے ۔ دوسرے جو سوچ رہے ہیں ، جو کر رہے ہیں ، وہ غلط ہے ۔ حالانکہ بیشتر جگہوں پریہ ثابت کرنے کی بالکل بھی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ۔ مثلاً کچھ رشتے دار اگر تحریکِ انصاف کو پسند کرتے ہیں اور کچھ نون لیگ کو تو آتے جاتے وہ ایک دوسرے پر چوٹ کرتے رہیں گے ۔ یہ طرزِ عمل بہت کم اختیار کیا جاتا ہے کہ تم جسے چاہے پسند کرو اور ووٹ دو اور ہم جسے چاہیں پسند کریں او رووٹ دیں ۔ ایک دفعہ ایک دوست ایک سکول سسٹم کو برا کہہ رہا تھا۔ اس بنیاد پر کہ بچّوں کو وہ دین سے دور کر دیتے ہیں ۔ میں نے کہا، وہاں کی اچھی بات یہ ہے کہ وہ بچّوں کو کم از کم وہ اپنا دماغ استعمال کرنا سکھاتے ہیں ۔ جہاں تم اپنے بچوں کو پڑھا رہے ہو ، وہاں سے وہ لکیر کے فقیر بن کے ہی نکلیں گے ۔بس پھر کیا تھا۔شدید بحث اور تلخی ہوئی ۔ بعد میں جب میں نے سوچا کہ اس بحث سے مجھے کیا حاصل ہوا ؟ بچّے اس کے ہیں ، جہاں وہ چاہے انہیں پڑھا سکتا ہے ۔ یوں ایک بہت عمدہ نکتہ آشکا ر ہوا کہ مشورہ تب دو ، جب تم سے مانگا جائے۔ بن مانگے مشورہ بیکار ہے ۔ سوشل میڈیا کی دنیا بن مانگے مشوروں سے بھرپور ہے ۔ پھر نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ مشورہ گھما کر دینے والے کے منہ پہ پڑتا ہے ۔